فکاہی کالم اور مستشرقین

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کالمز میں حوالہ نہیں دیا جاتا، چونکہ کالم ،کالم نگار کے ذاتی مشاہدے ، کسی سے ملاقات یاتحقیق و تجربے کا خلاصہ ہوتا ہے۔ایک تحقیق کو فکاہی کالم میں ڈھالنا خود ایک صبر ازما اور تکلیف دہ مرحلہ ہے خصوصا جب ایک لکھاری کو اپنی ہی تحقیق کو خلاصہ کر کے کئی مرتبہ کاٹنا اور تبدیل کرنا پڑے۔ کالم نگار کے پیشِ نظر عوام کو کچھ شواہد کے ساتھ کسی اہم مسئلے کی طرف متوجہ کرنا ہوتا ہے۔کالم نگاری اورعلمی تحقیق میں کوئی بھی حرف ، حرفِ آخر نہیں ہوتا بلکہ ہر کالم اور تحقیق کے بعد تحقیق و تحریر کے لئے نئے آفاق اور زاویے اجاگر ہوجاتے ہیں۔ان نئے آفاق پر تحقیق کرنایا کسی نظریے کو تحقیقی اصولوں پر پرکھنا صاحبانِ علم کی مسلمہ روش ہے اور جہانِ علم میں آج ہم جتنی بھی ترقی دیکھتے ہیں وہ اسی روش کے باعث وجود میں آئی ہے۔

اسی طرح یہ بھی ذکر کرناضروری ہے کہ بہت سارے کالم نگار اپنی مصروفیات کی بنا پر روزانہ کالم نہیں لکھتے بلکہ معین یا خاص دنوں میں لکھتے ہیں، اگر کسی کالم میں نظریے کی بات کی جاے تو پھر قارئین کی سہولت کے لئے کالم میں ساتھ حوالہ بھی دے دیا جاتا ہے چونکہ نظریے کا تعلق مکتب اور سکول آف تھاٹ سے ہوتا ہے۔

اپنے گزشتہ کالم میں ہم نے اپنے قارئین کو مستشرقین کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی تھی اور ہم نے محسوس کیا تھا کہ مستشرقین سے متعلق ابحاث کو کسی طرح عوام سطح پر اجاگر کیا جانا چاہیے۔اس کے لئے ہم نے مستشرقین کی جدید تعریف بھی بیان کی تھی۔آج ہم یہاں سے اپنی بات کا آغاز کرتے ہیں کہ
جدید تعریف کے مطابق مستشرق کے لئے مغربی ہونے کی قید اٹھا دی گئی ہے اور ہر وہ غیر مسلم جو اسلام کے بارے میں تحقیق کرتا ہے، اسے مستشرق کہتے ہیں۔اس کے حوالے کے طور پر ڈاکٹر محمد حسن زمانی کی شرق شناسی و اسلام شناسی غربیان نامی کتاب کا حوالہ بھی دیا تھا۔ظاہر ہے حوالے میں بطور نمونہ ایک آدھ کتاب کاہی ذکر کیاجاتا ہے

اگر کوئی اس تعریف سے اختلاف رکھتا ہے تو اسے اختلاف رکھنے کا پورا حق حاصل ہے ، وہ بھی اپنی تحقیق لکھ کر اپنے مکتب کا تعارف کروا کر کہہ سکتا ہے کہ ہمارے مکتب میں مستشرقین کی جدید تعریف یہ نہیں بلکہ یہ ہے اور منبع کے طور پر یہ فلاں محقق کی تازہ ترین کتاب ہے
مستشرقین کی جدیدتعریف کے بعد ہم نے اپنے قارئین کو مستشرقین کی اقسام کی طرف توجہ دلائی تھی اور کہا تھا کہ مجموعی طور پر تین طرح کے مستشرقین ہیں:

1۔ عیسائی مبلغین2۔ مختلف حکومتوں کے جاسوس3۔ سچائی کی کھوج لگانے والے

مختلف حکومتوں کے جاسوس مستشرقین کے بارے میں ہم نے کہا تھا کہ ان کا کام مسلمانوں کے اہم مقامات، معدنی ذخائر، جنگی نظریات و طریقہ کار، باہمی روابط نیز مختلف اسلامی فرقوں کے اختلافات کو ڈھونڈنا ان کی معلومات کو قلمبند کرنا اور کسی مسلمان ملک سے جنگ ہونے کی صورت میں درست اعداد و شمار کے ساتھ اپنی حکومتوں کی بروقت رہنمائی کرناہے۔

آج ہم اس مسئلے پر بات کویہاں سے شروع کرتے ہیں کہ مثال کے طور پر ایک سکول میں ایک بچہ بہت جھگڑالوہو اور سکول میں ہر روز گالی گلوچ کرتا ہو،حد سے زیادہ چڑچڑاہو، جس پر بعض استاد یہ کہیں کہ یہ بچہ اس لئے گالیاں دیتا اور لڑتا ہے کہ دوسرے بچے بھی اسے تنگ کرتے ہیں،یہ ایک عامیانہ سوچ اور سطحی نظر ہے لیکن اگر کوئی استاد اس مسئلے کوحل کرنے کے لئے اس بچے کو کسی ماہر نفسیات کے پاس لے جائے اورماہر نفسیات اس کے بارے میں ساری معلومات لینے کے بعد یہ کہےکہ اصلی مسئلہ اس بچے کا نہیں ہے بلکہ اس ماحول اور گھر کا ہے جس میں یہ رہتا ہے لہذا اس کے ماں باپ کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔

اس پر اگر کوئی شخص ڈاکٹر سے یہ کہے کہ کیاآپ اس کے ماں باپ کا نام بتا سکتے ہیں؟ہم اس کے ماں باپ کوجانتے ہیں وہ بڑے اچھے لوگ ہیں تو اس کے بعد ڈاکٹر کے پاس مزید بحث کی کوئی گنجائش نہیں بچتی۔

اسی طرح مسلمانوں کے درمیان تنازعات،لڑائی جھگڑوں، تکفیری گروہوں اور شدت پسند ٹولوں کی تشکیل کے بارے میں بھی دو رائے پائی جاتی ہیں۔ ایک عامیانہ اور سطحی رائے ہے کہ جس کے مطابق چونکہ ایک فرقے کے لوگ گالیاں دیتے تھے ، دوسروں کے مقدسات کی توہین کرتے تھے لہذا دوسرے نے بھی جوابی کارروائی شروع کی جس سے شدت پسندی اور تکفیریت نے جنم لیا جبکہ اس کے مقابلے میں ایک دوسری رائے پائی جاتی ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اس شدت پسندی اور تکفیریت کا تعلق امریکہ و برطانیہ سمیت پاکستان و اسلام دشمن ممالک کی خفیہ ایجنسیوں سے پایاجاتا ہے۔

ان خفیہ ایجنسیوں میں وہ خواہ سی آئی اے،موساد ، را، ایم آئی سکس اور ایم آئی فائیو وغیرہ میں سے جو بھی ہوان میں مسلمانوں کو مسلمانوں لڑوانے نیز مسلمانوں کو غیرمسلمانوں سے لڑوانے اور مسلمانوں میں شدت پسندی کو فروغ دینے کے لئے مخصوص شعبے اور ماہرین موجود ہیں اور جو ہماری تعریف کے مطابق مستشرقین میں آتے ہیں اور مختلف ممالک میں فرقہ واریت اور شدت پسندی کو ہوا دینے کے لئے یہ ادارے سرگرم رہتے ہیں۔ اللہ یاری اور یاسر الحبیب جیسے مولویوں نیز غالی ذاکروں کے دشمنوں کی خفیہ ایجنسیوں کے آلہ کار ہونے میں کسی کو کیا شک ہو سکتا ہے۔

خفیہ ایجنسیوں میں مسلمانوں کے بارے میں اطلاعات کی جمع آوری اور تحقیقات کے لئے مختلف ونگز کےموجود ہونے پر یقین کرنے کے لئے متعدد کتابیں مارکیٹ میں موجود ہیں جن میں سے ایک بہترین کتاب احمد ساجدی کی لکھی ہوئی سازمانھای جاسوسی دنیا ہے۔

ہم لارنس آف عربیہ اور ھمفرے کی بات نہیں کرتے بلکہ " جان فیلبی" (John Fillby) جوکہ اپنے دور کا معروف مستشرق تھا اسی کے بارے میں مطالعہ کر کے دیکھ لیں کہ اس نےکس طرح سے سعودی عرب کو امریکہ کے چنگل میں پھنسایا۔ امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات کے بارے میں ایک سطحی اور عامیانہ سوچ یہ ہے کہ ایران کے خوف کی وجہ سے امریکہ اورسعودی عرب آپس میں متحد ہیں جبکہ ان تعلقات کا تاریخی پسِ منظر یہ ہے کہ ۱۹۳۰ میں امریکہ نے جان فیلبی کو خریدا۔ جان فیلبی اس سے پہلے برطانیہ کے لئے کام کرتا تھا ،یہ کئی کتابوں کا مصنف اور ایک نامور محقق تھا، اس نےابتدائی طور پر تیل نکالنے والی ایک امریکی کمپنی میں مشاور کی حیثیت سے کام شروع کیا اور خاندان سعود سے دیرینہ تعلقات کی بنا پر سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تیل نکالنے کا ایک بڑا منصوبہ منظور کروایا جس سے برطانیہ کی بالادستی کو دھچکا لگا اور خطّے میں امریکی استعمار کی دھاک بیٹھ گئی۔ یہ شخص تقریباً ۳۵ سال تک سعودی عرب میں ابن سعود کا مشیر رہاتھا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ و سعودی عرب دونوں اپنے تعلقات کے سلسلے میں جان فیلبی کی خدمات کے معترف ہیں، امریکہ و سعودی عرب کے تعلقات ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد کی پیداوار نہیں بلکہ یہ جان فیلبی کے زمانے سے چلتے آرہے ہیں ۔

اسی طرح پاکستان میں سپاہ صحابہ ،لشکر جھنگوی اور طالبان وغیرہ کے بارے میں ایک سطحی نگاہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنے مسالک کو نافذ کرنے کے لئے ہتھیار اٹھا لئے جبکہ اس کا تاریخی پسِ منظر یہ ہے کہ ۱۹۷۹ میں ایک طرف سے روسی استعمار افغانستان میں داخل ہو چکا تھا اور دوسری طرف ایران میں امریکہ مخالف انقلاب کامیاب ہوگیاتھا۔ان دونوں خطرات سے نمٹنے کے لئے سی آئے اے نے ایک طرف سپاہ صحابہ جیسے گروہوں کی اور دوسری طرف طالبان جیسے لشکروں کی بنیاد ڈالی۔ یہی وجہ ہے کہ سپاہ صحابہ نے صرف شیعوں کو قتل نہیں کیا بلکہ پاکستان میں متعدد ایرانیوں کو بھی نشانہ بنایا۔سپاہِ صحابہ کو پاکستان میں ایران کا راستہ روکنے کا ھدف دیا گیا تھا اور طالبان کوافغانستان سے روس کو نکالنے کا۔ بعد میں جتنے بھی دہشت گرد گروپ بنے وہ انہی کے کیمپوں کی پیداوار ہیں۔

سی آئی اے کے وہ ماہرین جنہوں نے اس سلسلے میں کام کیا اور پاکستان کی ایجنسیوں کوبھی اپنے اہداف کے حصول کے لئے اعتماد میں لیا ، ہماری کی گئی تعریف کے مطابق وہ بھی مستشرقین میں آتے ہیں۔

ان مستشرقین کی مختصر جھلک ان چند سطور میں دیکھی جا سکتی ہے:

Assuming the presidency in 1978, Zia played a major role in the Soviet–Afghan War. Backed by the United States and Saudi Arabia, Zia systematically coordinated the Afghan mujahideen against the Soviet occupation throughout the ۱۹۸۰

) Wynbrandt, James (2009). A Brief History of Pakistan. Facts on File. p. 216. In his first speech to the nation, Zia pledged the government would work to create a true Islamic society.(

اب اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ سپاہ صحابہ اور طالبان کے بنانے میں سی آئی اے کے کارندوں یعنی مستشرقین کا کوئی کردار نہیں رہا تو وہ اپنے مکتب ، اپنی اطلاعات اور معلومات کے مطابق یہ کہنے میں آزاد ہے اور اس پر کسی قسم کا کوئی جبر نہیں۔بلکہ اس کے لئے میدان کھلا ہے کہ وہ اپنے مبانی اور منابع کے ساتھ اس سلسلے میں اپنی تحقیق پیش کرے اور ہماری معلومات میں اضافہ کرے۔

اسکے بعد ہندوستان میں چلتے ہیں ، مثال کے طور پر ہندوستان میں بابری مسجد کے مسئلے کو لیجئے، اس پر سطحی اور عامیانہ نگاہ یہ ہے کہ یہ پہلے ہندووں کا مندر تھا جسے مسلمانوں نےمسجد بنا دیااور اب ہندو دوبارہ اسے مندر بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن اگرآپ اس پر تحقیقی نگاہ ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ اس مسئلے کاآغاز ایچ او نوبل نامی مستشرق کی اس تحریر سے ہوا جو اس نے ۱۸۸۵ میں لکھی کہ بابری مسجد پہلے ہندوں کا بت خانہ یعنی ایک مندر تھا۔اسی سال ہندووں نے اس مسئلے کو اٹھا یا اور ہندووں نے پہلی مرتبہ یہ دعویٰ کیا کہ اس مسجد کے باہر رام کی جنم بھومی یعنی پیدائش کی جگہ ہے۔ اسی سال فسادات شروع ہوئےاور ۷۵ مسلمان شہید ہوئے۔ یہ سلسلہ عدالتوں اور جھگڑوںکی صورت میں چلتا رہا اور ۱۹۴۹ ؁ میں اس مسجد کو بند کروا دیا گیا اور چالیس سال تک یہ مسجد متنازعہ رہی اور اس تنازعے میں ہزاروں انسان مارے گئے۔

(استفادہ از شناخت استعمار ازمصطفی اسکندری ص۹۷ و چند منابع دیگر) اب اگرکوئی کہے کہ ۱۹۹۲ میں اس مسجد کومنہدم کرنے والے ہندووں کو کس مستشرق نے پڑھایا تھاتو ظاہر ہے کہ اس کا جواب نہیں دیا جا سکتا چونکہ اس کے لئے اس کی تاریخ میں جھانکنا ہوگا کہ یہ مسئلہ شروع کہاں سے ہوا تھا۔

آخر میں اس مرتبہ کالم کے طولانی اور کسی حد تک کتابی ہوجانے پر پیشگی معذرت چاہتا ہوں اور ایک مرتبہ پھر یہ یاد دہانی کرانا ضروری سمجھتا ہوں کہ کالم نگاری اورعلمی تحقیق میں کوئی بھی حرف ، حرفِ آخر نہیں ہوتا بلکہ ہر کالم اور تحقیق کے بعد تحقیق و تحریر کے لئے نئے آفاق اور زاویے اجاگر ہوجاتے ہیں۔ہم نے ایک فکاہی کالم سے اس موضوع کا آغاز کیا ہے اگر دیگر احباب اس کے باقی رہ جانے والے گوشوں اور دیگر زاویوں پر روشنی ڈالیں تو اس سے ہمیں نہ صرف خوشی ہوگی بلکہ یہ امرخود معاشرے میں علمی رشداورارتقا کا باعث بھی بنے گا۔۔۔۔۔۔۔

nazar
About the Author: nazar Read More Articles by nazar: 115 Articles with 74629 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.