خواہش یا ضرورت۔۔۔۔۔۔

عرف عام میں ضرورت ہر اس شے کا نام ہے جس پر زندگی کی ڈور اٹکی ہوئی ہے ، یعنی ہر وہ شے جو سانس کی ڈور قائم رکھنے کیلئے لازم ہے ضرورت کے زمرے میں آتی ہے۔ لیکن جب انسان ان ضروریات میں اپنی آسانی کی خاطر جمع تفریق کرتا ہے تو یہی ضروریات خواہشات کا روپ دھار لیتی ہیں، یہ بالکل سچ ہے کہ ضرورت ہی خواہش کو جنم دیتی ہے اور یہ ایک دوجے سے جڑی ہیں لیکن ان دونوں کا مزاج ایک دوسرے سے یکسر جدا ہے۔ ضرورت کے بغیر زندگی ناممکن ہے جیسے ہوا، پانی، خوراک، پناہ گاہ، آگ وغیرہ وغیرہ، لیکن خواہشات کے بغیر بھی زندگی گزر سکتی ہے۔ آج کل انسان اپنے لئے آسانیاں تلاش کرنے میں مگن ہے اور اسی مصروفیت نے بہت سی خواہشات کو ضروریات میں تبدیل کر دیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں یہی ضروریات کیسے خواہشات میں ڈھلتی ہیں مثلاً ٹھنڈا پانی، گرم روٹی، تازہ ہوا، نرم مٹی ، آپ نے دیکھا صرف اک لفظ کی ترتیب بدل دینے سے کیسے ضرورت خواہش بن گئی اور پھر خواہش ہی ضرورت بنتی چلی گئی۔

حضرتِ انسان کے لئے ضرورت اور خواہش میں توازن قائم رکھنا ہمیشہ سے مشکل رہا ہے، یا تو حضرتِ انسان خوا ہشات کا گلہ دبا کر ساری زندگی ضرورتوں کے پیچھے خوار ہوتے ہیں یا پھر خواہشات کے غلام بنے منوں مٹی میں مل جاتے ہیں۔

شاید اسی لئیے غالب نے فرمایا تھا

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

ضروریات اور خواہشات کی اس میراتھن میں ہم اتنا آگے نکل جاتے ہیں کہ زندگی کا اصل مفہوم کہیں بہت پیچھے رہ جاتا ہے، انسان یہ بھول جاتا ہے کہ جس نے اسے پیدا کیا ہے وہی اس کی ضروریات کا انتظام بھی کرے گا اس کے لئے اسے کسی دوڑ کا حصہ بننے کی ضرورت نہیں ۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات تو بنایا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اک بے چین فطرت کا مالک بھی جو کبھی بھی اسے آرام سے بیٹھنے نہیں دیتی۔ یہ اک حقیقت ہے سب کچھ بدل سکتا ہے لیکن فطرت نہیں ، انسان بھی اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہے جو دن رات اسے بہتر سے بہتر کی تلاش میں مصروف رکھے ہوئے ہے۔ اس میں کوئی غیر معمولی یا حیرانی کی بات نہیں آپ دیکھیں ہمارے جد امجد حضرت آدم ؑ اچھے خاصے جنت میں بیٹھے اپنے رب کی نعمتوں اور نوازشات کا لطف اٹھا رہے تھے، اچانک فطرت نےشیطان کے بہکاوے میں آکر سرکشی کی اور آپؑ اس خطا کے مرتکب ٹھہرے جس سے خداوند باری تعالیٰ نے منع فرمایا تھا۔

یہ ماجرا تو تھا ہمارے جدامجد کا آج کل کا انسان تو ویسے ہی دنیا کو مسخر کرنے کا بیڑا اٹھائے بیٹھا ہے، صحیح غلط، اچھا برا، جائز ناجائز کام کرنے پر مصر ہے تاکہ اپنی خواہشات کی تسکین کر سکے۔ لیکن افسوس یہ خواہشات کی لسٹ موئی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی، کبھی ضروریات کا بہانہ بنا کر خود کو دھوکہ دیتا ہے تو کبھی آنے والی نسل کے مستقبل کا لالی پوپ۔ آج کل بچہ پیدا بعد میں ہوتا ہے اس سے توقعات اور خواہشات کی اک لمبی لسٹ پہلے سے تیار ہوتی ہے، جس میں اس کا نام رکھنے سے لے کر اس کے پیشہ تک کے بارے میں سب درج کر دیا جاتا ہے کہ میرا بچہ بڑا ہو کر انجنیر بنے گا، ڈاکٹر بنے گا وغیرہ وغیرہ یہ اور بات ہے کہ وہ بچہ اپنی ان وراثتی خواہشات کو مٹی تلے دبا کر اپنی خود کی خواہشات کے ساتھ بھاگ کھڑا ہو یعنی

بھنورے نے کھلایا پھول اور لے گیا راج کمار

میرا آپ سب سے سوال ہے کیا یہ زندگی ضروریات اور خواہشات کی میراتھن کا نام ہے، کیا اس کا مقصد صرف آرام و آسائش ہے، کیا اس سے مراد صرف اپنی خواہشات کا حصول ہے۔ میرے مطابق نہیں ہر گز نہیں زندگی تو خوشیاں بانٹنے کا نام ہے، زندگی اک خوبصورت چشمہ کی مانند ہے جس سے لوگ مستفید ہو سکیں، زندگی پیار بانٹنے کا نام ہے، زندگی اک سبق ہے جس کے عنوان ہر روز تبدیل ہوتے ہیں۔ زندگی ایک سراب ہے ، زندگی اک رنگین خواب ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق انسان اپنی زندگی کو صرف 10% تک بدل سکتا ہے باقی 90% اسے برداشت کرنا ہوتا ہے اور اپنے آپ کو اس کا عادی بنانا تو پھر یہ دوڑ کس خاطر ، اس تمام تگ ودو کا کیا حاصل جس میں صرف 10% تک اپنی خواہشات کی تکمیل ممکن ہے باقی سب لا حاصل۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم اپنی ضروریات تک محدود رہیں اور خواہشات کی اندھی تقلید میں زندگی برباد نہ کریں۔

اب ہمیں i need or i want کے اس فرق کو سمجھنا ہوگا اور خواہشات کے لا متناہی سراب سے باہر نکلنا ہوگا ۔

شاید اسی لئے کسی شاعر نے کہا ہے

آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں

پاکستان پائندہ باد!

Qasim Raza Naqvi
About the Author: Qasim Raza Naqvi Read More Articles by Qasim Raza Naqvi: 42 Articles with 54159 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.