آج کل اس پر فتن دور میں جہاں ہرطرف فتنے منہ کھولے کھڑے
ہیں۔ اس دور میں عام آدمی تو کیا ایک دیندار آدمی کیلئے ایمان بچانا ایک
بڑا مجاہدہ بن گیا ہے۔ کفار کی طرف سے سادہ لوح مسلمانوں کو راہ ہدایت سے
ہٹانے کی سازشیں ہورہی ہیں۔
کفر کے ناپاک عزائم میں ایک عزم مسلمانوں کو اسلامی کردار اور پیارے آقا
صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ سے دور کردینا اور اسلاف کے کارناموں کو
ان کی نظر سے اوجھل کرنا ہے۔
وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان سنت نبوی صلی اﷲ علیہ سے تہی دامن اور کردار اسلاف
سے نا آشنا ہو جائیں۔ چنانچہ اب بہت سے مسلمانوں کیلئے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وسلم اور اسلاف کی بجائے فنکار، اداکار اور دیگر فضول شعبہ جات میں کام
کرنے والے ہیرو آئیڈیل بن گئے ہیں اور افسوس ہے کہ مسلمانوں کے درمیان ایک
دور میں بات بات پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے واقعات اور اسلاف کی مثالیں
ہوتی تھیں، اب وہیں غیروں کے تذکرے ہوتے ہیں۔
ایک مسلمان مسنون داڑھی سے بھاگتاہے اور فرنچ کٹ کو پسند کرتا ہے اور کپڑوں
میں سنت نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم سے کتراتا ہے اور اگر وہی( ییوند)کسی ایکڑ
ادکار کی پینٹ میں دیکھ لے تو وہ لباس زیب تن کرنا اور اس پیوند پر فخر
محسوس کرتا ہے۔
یہ ہماری حالت زار ہے جبکہ ہمارے لئے یہ دستور طے کیا گیا ہے۔
ارشاد ربانی ہے:
’’ تحقیق نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں تمہارے لیے بہترین نمونہ
ہے ‘‘
اور حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے
''میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ،جس کی پیروی کرو گے فلاح پا جاؤ گے''
خود نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ ؓ کی زندگی کو معیار قرار دیا ہے
۔لہٰذا قرآن وسنت کی روشنی میں آپ ﷺ کی زندگی نمونہ اور صحابہ کی حیات
ہمارے لئے معیار ہے۔
جب ہم مغربی تہذیب کے دلدادہ بن کر غیروں کے طریقے اپناتے ہیں تو شاید وہ
حدیث ہماری نظروں سے پوشیدہ ہے۔
’’ من تشبہ بقوم فہومنہ‘‘
(جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ اسی میں سے ہوگا)
ایک اور جگہ فرمایا: ’’المرء مع من احبہ‘‘
(آدمی اسے کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ وہ محبت کرتاہے)
آپ ﷺ نے ہمیں شرافت دیانت اور حکمت کے تحائف دیئے،آپ علیہ السلام نے ہمیں
اسلام کی رسی عطاء فرمائی جس نے ہمیں ادھرادھر بھٹکنے سے محفوظ کردیا لیکن
ہم نے توحید کی بجائے شرک کو اختیار کر لیا، سنت کی بجائے بدعات ہمارا
دستورالعمل بن گئی۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مبارک طریقوں کی بجائے غیروں کے طریقے ہمیں پسند
ہونے لگے ہم نے اسلامی تہذیب کے بجائے رومی ،مصری، ایرانی، اور مغربی ثقافت
کو گلے لگا لیا۔
ہمیں زمانہ کی قیادت کرنی تھی مگر ہم خود زمانہ کے پیرو کار بن گئے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے امت پر بے شمار احسانات ہیں آقا مدنی ﷺ امت پر بہت
مہربان تھے آپ ﷺنے مکہ کی گلیوں اور طائف کی وادیوں میں اسی امت کیلئے
ماریں کھائیں، آپ ﷺ نے حج کی قربانی میں بھی امت کو فراموش نہیں کیا، آپﷺ
نے دن کی تسبیحات اور رات کی مناجات میں بھی امت ہی کو شریک فرمایا۔
اور امت حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے طریقوں اور حیات مبارکہ سے اعراض
کرنے لگی اور غیروں کو اپنا آئیڈیل بنانا شروع کردیا۔
حدیث مبارکہ ہے
’’ تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک اس کو اپنے ماں باپ اپنی
اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ میری محبت نہ ہو۔(بخاری ومسلم)
ایک اور روایات ہے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا !
ایمان کی حلاوت اسی کو نصیب ہو گی جس میں تین باتیں پائی جاتی ہیں ایک یہ
کہ اﷲ اور رسول کی محبت اس کو ماسوا سے زیادہ ہو دوسرا یہ کہ جس آدمی سے
بھی محبت ہو صرف اﷲ کے لیے ہو ،تیسرا یہ کہ ایمان کے بعد کفر کی طرف پلٹنے
سے اس کو اتنی نفرت اور اذیت ہو جیسا کہ آگ میں ڈالے جانے سے ہوتی ہے
(بخاری ومسلم)۔
انسان کو جس سے جتنی محبت ہوتی ہے اتنی ہی پیروی کرتا ہے اور اس کو اپنا
آئیڈیل بناتا ہے۔
بات واضح ہے جس کو حضورصلی اﷲ علیہ وسلم سے محبت ہو گی وہ حضورﷺ کی حیا ت
مبارکہ کو اپنے لیے اسوہ حسنہ بنائیں گے۔
اور وہ لوگ جو حسب ونسب سے عاری جو انسانی اقدار سے نا واقف ہیں ،جو تہذیب
کا دامن چھوڑے بیٹھے ہیں جو شرافت سے نا بلد ہیں جنہیں وقار دوستی کا پتہ
ہے نہ ہی ان میں مجال دشمنی ہے، وہ کمترین ،پست ترین جو ذات اقدس صلی اﷲ
علیہ وسلم پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کرتے ہیں یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ مثل
مشہور ہے
’’انف فی الماء واست فی السماء‘‘
’’ناک پانی میں اورسرین آسمان میں ‘‘
اور ہم مسلمانوں کو انہی کافروں کے طریقے پسند ہیں اور وہ ہمارے لیے آئیڈیل
بنتے ہیں
’’تم داد حسن طلب کرتے ہو پھر وہ بھی غیروں سے مجھے تو سن کے بھی اک عار سی
معلوم ہوتی ہے ‘‘
کاش ………………ہمارے لیے طرز زندگی کا معیار وہ بن جائے جن کو آپ ﷺنے ہمارے لیے
معیارٹھہرایا ہے ۔
اﷲ تعالی ہم سب کواتباع سنت اور دین متین کا حقیقی جانشین بنا دے۔ |