بلا شبہ سوشل میڈیا ہماری زندگی کا جزوِ لاینفک بن چکا
ہے۔اسکے بے شمار فوائد کے ساتھ ساتھ بہت سے نقصانات بھی ہیں۔اس نے عوام
الناس کو بالعموم اور نوجوان طبقے کو بالخصوص اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ذیل
میں ہم (اپنی ناقص سوچ اور عقل کے مطابق) اسکے چند منفی اثرات کو زینت
قرطاس کریں گے۔
(1) سوشل میڈیا کے عام ہونے سے پہلے لوگ ایک دوسرے کو وقت دیتے تھے اور
انکے درمیان حقیقی پیار و محبت تھا۔ اب جبکہ سوشل میڈیا عام ہوگیا ہے بس
دکھاوے کا پیار محبت رہ گیا ہے اور رویوں میں منافقت کا عنصر تیزی سے سرایت
کرتا جارہا ہے۔جو پیار و محبت اور خیرخواہی کا اظہار سوشل میڈیا پر ہوتا
ہے۔واقع میں (ground Reality) اس کا وجود بہت کم ہوتا ہے۔
(2) پہلے عام لوگ دینی اور نازک معاملات پر بحث کرنے سے کتراتے تھے اور اسے
متعلقہ فیلڈ کے لوگوں یعنی اہل علم پر چھوڑتے تھے۔ اب ہر شخص اپنے آپ کو
عقلِ کل سمجھتا ہے۔اور اس پر اپنی رائے دینا اپنا حق سمجھتا ہے۔اب ہر کوئی
اسلامی مسائل کی تشریح و توضیح اپنی مرضی سے کرتا ہے اور اس میں اپنے آپ کو
بالکل آزاد اور خودمختار سمجھتا ہے۔
(3)کسی کی عزت نفس کے ساتھ کھیلنا ہو، وقار مجروح کرنا ہو، سوشل میڈیا کا
محاذ حاضر ہے۔آزادی اظہار رائے اور خودمختاری کی آڑ میں آپ کسی کی عزت پر
حملے کریں، وقار مجروح کریں، جو زبان پر آتا ہے لے آئیں،جو لکھنا چاہتے ہیں
لکھیں، جو پھیلانا چاہتے ہیں پھیلائیں، آپ کو کوئی نہیں روک سکتا ؛ کیونکہ
آپ آزاد ہیں اور خود مختار ہیں۔اسلام بھی آپ کو اس سے نہیں روک سکتا کیوں
کہ اسلامی تعلیمات کی تشریح و تعبیر کرنے کے آپ مکمل طور پر اہل ہیں اور اس
میں آزاد و خود مختار ہیں۔
(4) سوشل میڈیا کے عام ہونے سے پہلے لوگ عام مولوی جسے گوکہ اسلام کے بارے
میں زیادہ معلومات نہیں ہوتی تھیں، اسکے زہد و تقوی کی وجہ سے اسکی عزت
کرتے تھے اور بہت احترام کرتے تھے۔پھر آہستہ آہستہ اس سے بیزار ہونا شروع
ہوئے۔اس میں اس طبقہ (منبر و محراب) کے لوگوں کا اپنا بھی قصور ہے۔پھر پڑھے
لکھے علماء سے بیزار ہونا شروع ہوئے اور نوبت بایں جا رسید کہ آج کا نوجوان
سوشل میڈیا کے تابڑ توڑ حملوں سے متاثر ہو کر اپنے دین سے بھی بیزار نظر
آتا ہے جو کہ بہت ہی پریشان کن صورتحال ہے۔اس المیہ میں اجتماعی طور پر ہم
تمام ذمہ دار ہیں۔
(5) سوشل میڈیا پر چھوٹی سی چھوٹی خبر کو پہاڑ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ایک
ہی مسئلہ کے بارے میں بیک وقت سینکڑوں خبریں گردش کر رہی ہوتی ہیں یہ سمجھ
نہیں آتی کہ کس خبر پر یقین کریں۔عام شخص بے یقینی کی کیفیت سے دو چار ہوتا
ہے۔
(6) سوشل میڈیا نے فاصلے کی نزدیکی کے باوجود دوریاں پیدا کردی ہیں۔ایک ہی
دستر خوان پر بیٹھے ہوئے لوگ اپنے موبائل اور ٹیبلیٹس وغیرہ میں اس قدر مست
ہوتے ہیں کہ ساتھ بیٹھے ہوئے کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔
(7) سوشل میڈیا وقت کے ضیاع کا ایک بڑا سبب ہے۔جب انسان فیس بک،یوٹیوب یا
واٹس ایپ میں کھو جاتا ہے تو گھنٹوں گزر جاتے ہیں وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں
چلتا۔
(8) سوشل میڈیا کی وجہ سے معاشرے میں بہت سی اخلاقی و سماجی خرابیوں نے
فروغ پایا اور ایسی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں جو معاشرے کے مختلف طبقات
اورمکاتب فکر میں ایک دوسرے سے نفرت کو پروان چڑھانے اور باہمی انتشار اور
خلفشار کا سبب بن رہی ہیں۔ معاشرے میں بیشتر افراد اسے لوگوں کو بدنام کرنے
کیلئے بے بنیاد خبروں کو پھیلانے، تصاویر اور خاکوں میں ردوبدل جیسے طریقوں
کے ذریعے غلط استعمال کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر کسی بھی خبر یا افواہ کی تحقیق سے بھی پہلے وہ پوری دنیا میں
نشر کر دی جاتی ہے۔ معلومات درست ہوں یا غلط،کوئی اس جھنجھٹ میں پڑتا ہی
نہیں ہے۔
(9) نوجوان نسل کے ذہن ودماغ پرسوشل میڈیا جنون کی حد تک حاوی ہوچکا ہے، وہ
اپنے کام اور پڑھائی کے اوقات بھی سوشل میڈیا پر صرف کر رہا ہے، جس سے انکی
تعلیم پر برا اثر پڑ رہا ہے۔ کوئی شخص بلاروک ٹوک کسی بھی مذہبی شخصیت اور
مذہبی نظریات کو مطعون کر سکتا ہےاور مخالف مذہبی سوچ کی محترم شخصیات
پرکیچڑ اچھال سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر مخالفین کیخلاف پروپیگنڈے کی مکمل
آزادی کی وجہ سے معاشرے میں انتہا پسندی میں اضافہ ہورہا ہے۔
نوٹ: ناچیز کی رائے سے اتفاق کرنا ضروری نہیں۔آپ اس سے اختلاف بھی کر سکتے
ہیں۔لیکن وہ اختلاف برائے اصلاح ہونا چاہیے۔یاد رہے اختلاف برائے اختلاف
کوئی اچھی روش نہیں۔ |