استاد نے چھُٹی طلب کی، ہیڈ ماسٹر صاحب نے انکار
کردیا، بات بڑھی تو استاد نے اپنے ہیڈ ماسٹر پر پستول تان لیا۔ سکول میں
خوف کی فضا پیدا ہوگئی، اساتذہ نے بیچ بچاؤ کرانے کی کوشش کی تو استاد صاحب
نے قریب ہی پڑے روڑوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، ٹیچرز پر پتھراؤ شروع کردیا۔
سکول کو میدانِ جنگ بنتا دیکھ کر بچے اپنی جانیں بچا کر بھاگ لئے، ہر طرف
بھگدڑ مچ گئی۔ ہیڈ ماسٹر کی شکایت پر تعلیم کے ضلعی آفیسر نے انکوائری کی
ہدایت جاری کردی۔ کہا جاتا ہے کہ ٹیچر مذکور کا رویہ پہلے بھی نامناسب رہتا
ہے۔ دوسری طرف پستول تاننے والے ٹیچر نے کسی بھی مشکل وقت سے محفوظ رہنے کے
لئے مقامی ممبرانِ اسمبلی کی حمایت حاصل کرنے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔
نتیجہ کیا ہوگا، کسی کو معلوم نہیں، محکمانہ انکوائری ہوگی، استاد کو قصور
وار ٹھہرا کر معطل کر دیا جائے گا، اس کا کسی اور سکول میں تبادلہ کردیا
جائے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے پاس کوئی بڑی سیاسی سفارش ہو، معاملہ دبا
دیا جائے، بات معطلی تک بھی نہ جائے۔ اگر بات سزا تک پہنچتی ہے تو معطلی کی
بحالی بھی ہو جایا کرتی ہے، اور تبادلہ تو کوئی مسئلے کا حل ہی نہیں، کہ
جہاں وہ صاحب جائیں گے، ان کے چرچے پہلے ہی وہاں پہنچ چکے ہوں گے، یوں نئے
سکول کے اساتذہ اور بچوں کے لئے وہ ٹیچر ایک عجوبہ سے کم نہیں ہوگا۔ وہاں
شاید ہیڈماسٹر اس کی چھٹی وغیرہ کی درخواست پر انکار کرنے کی غلطی نہیں
دہرائے گا۔
اکثر سرکاری سکولوں میں اس قسم کے نمونے پائے جاتے ہیں، جہاں تعلیم پر توجہ
دینے کی بجائے اساتذہ اور بچوں تک کو ہنگامی صورت حال کا سامنا رہتا ہے، ان
کا نہ صرف بہت ساوقت ضائع ہوتا ہے، بلکہ سکول کے ماحول پر بہت برا اثر پڑتا
ہے، بچوں کے کچے ذہن میں اس قسم کا واقعہ ہمیشہ کے لئے چپک کر رہ جاتا ہے،
جسے وہ زندگی بھر کوشش کے باوجود بھی ذہن کی تختی سے کُھرچ نہیں سکتا۔
استاد کا یہ منفی کام بھی ایک ہیرو کی طرح ہی بچوں کو یاد رہتا ہے، بعد کی
زندگی میں بہت سے بچے بھی ایسے ہی ہیرو بننے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ اساتذہ کی
اکثریت کو سکول حاضر کرنا اور انہیں پڑھنے پر رضا مند کرنا، حکومت اور
محکمہ تعلیم کی اولین ذمہ داری ہے، اور ایسا کرنے میں یہ لوگ کوشاں رہتے
ہیں، مگر بدقسمتی سے عادتیں اس قدر خراب ہو چکی ہیں، کہ سرکاری سکولوں کو
اپنا کھویا ہوا وقار اور مقام حاصل کرنے میں بے شمار مشکلات کا سامنا ہے۔
تین چار دہا ئیاں قبل جب نجی تعلیمی ادارے اس رفتار سے معرضِ وجود میں نہیں
آئے تھے تو سرکاری سکولوں کا معیار بہت بلند تھا، ڈسپلن، معیارِ تعلیم، غیر
نصابی سرگرمیاں (کھیل اور بزمِ ادب وغیرہ)، اخلاق و اقدار کی پاسداری ،
اساتذہ کا احترام اور اسی قسم کے دیگر عوامل عام تھے، استاد نہ صرف چھٹی
نہیں کرتے تھے، بلکہ وہ سکول میں پڑھاتے بھی تھے، بغیر فیس کے اضافی وقت
بھی دیتے تھے، ان کا احترام بھی پایا جاتا تھا۔
حکومتیں اساتذہ کو حاضر کرنے اور ان سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی اپنی سی
سعی کر رہی ہیں، ان پر بچوں کے داخلوں کا بھی دباؤ ہے، اچھے نتائج نہ دینے
والے اساتذہ کومحکمہ کی جانب سے جواب طلبی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر کچھ
بچے سکول چھوڑ گئے تو اس کا جواب بھی استاد نے ہی دینا ہے۔ حالانکہ ایسے
میں بہت سے معاملات اساتذہ کی پہنچ میں نہیں ہوتے۔ بے شمار سرکاری سکولوں
میں مطلوبہ سہولتیں موجود نہیں، کمرے ، بجلی، پانی ، واش روم اور چار
دیواری تک موجود نہیں، ایسے میں وہاں بچوں کو داخل کرنے پر راغب کرنا کارِ
آسان نہیں۔ غربت اور لاعلمی (جسے عُرفِ عام میں جہالت بھی کہا جاتا ہے)
والدین کے پاؤں کی زنجیر ہے، اگر اساتذہ کچھ بہتر کرنا چاہتے ہیں، تو
والدین کی طرف سے تعاون نہیں ہوتا، اگر یہ کہا جائے کہ آوے کا آوا ہی بگڑا
ہوا ہے، تو بے جانہ ہوگا۔ معاملہ والدین اور اساتذہ پر ہی منحصر نہیں،
محکمہ تعلیم کے بہت سے افسران بھی یا تو نااہل ہیں، کچھ کرنے کی صلاحیت
نہیں رکھتے، یا پھر کچھ کرنا نہیں چاہتے۔ بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی، اوپر
جاتے ہیں، تو ’’سرکَٹے‘‘ افسران کا باواآدم بھی نرالا ہے، بند کمروں میں
ہونے والے فیصلے زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔ وہاں تک بات پہنچانا
جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
اس ساری کہانی میں سکول طلبا کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ ’’مار نہیں
پیار‘‘ کا نعرہ ، اب نعرہ ہی نہیں، ایک حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔ اب ڈنڈے
کا استعمال تو دور کی بات ہے، بچے کو گھور کر دیکھنا بھی قابلِ گرفت جرم ہے،
بچوں کو سختی سے پوچھ گچھ کرنے پر بھی پابندی ہے۔ دوسری طرف اساتذہ کو فری
ہینڈ دے دیا جائے تو وہ ہڈیاں توڑ دیتے ہیں، اگر مکمل پابندی لگائی جائے تو
بچے قابو سے باہر نکل رہے ہیں۔ کلاس روم میں ایسی شرارتیں (حرکات) ہو رہی
ہیں، جنہیں بیان نہیں کیا جاسکتا، بچے ایک دوسرے سے بدزبانی ہی نہیں، لڑائی
جھگڑا بھی کرتے ہیں، اساتذہ سے بدتمیزی بھی عام ہے، جس کے نتائج سکول سے
باہر جا کر سامنے آتے ہیں، عام درمیانی اور غریب آبادیوں کے بچے گھروں اور
گلی محلے میں ایسا ہی ماحول دیکھتے ہیں، سکولوں میں بھی وہی کچھ ہوتا ہے،
گھر میں والدین کی سختی سے بچے بگڑ رہے ہیں، سکول ، جس کا ڈر اُن کے ذہن
میں ہوتا تھا، وہاں اب کوئی انہیں کچھ نہیں کہہ سکتا، یوں بچے یہ حقیقت جان
چکے ہیں، کہ والدین بھی بے بس ہیں اور ان کے سامنے اساتذہ کی بھی نہیں چلتی۔
استاد کو تو بچوں کو ڈانٹنے، تھپڑ تک مارنے سے انکوائری ہو جاتی ہے، مگر
بچوں کی تمام تر حرکات کے باوجود ان کے گُم راہ ہونے میں کو ئی ان کو کچھ
نہیں کہہ سکتا۔ نظا مِ تعلیم ہی کی مدد سے قوموں کا مستقبل سنوارا جاسکتا
ہے، مگر اپنے ہاں اِس نظام کی چولیں ہلی ہوئی ہیں، اگر یہ ماحول اسی طرح
رہا تو آنے والی نسلوں میں تربیت اور بہتری کے امکان کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔
|