استاد کا طلبہ سے تعلق و رشتہ؛۔ شعبہ تدریس دنیا کے چند
بہترین شعبوں میں سے ایک ہے۔ استاد شاگرد کا رشتہ بہت مضبوط اور اٹوٹ ہوتا
ہے۔ یہ رشتہ نہایت پاکیزہ ہے اور حصول علم میں اساسی اہمیت کا حامل بھی ۔
دنیاکے چند بے غرض اور لوث کاری سے پاک رشتوں کی فہرست میں استاد اور شاگرد
کا رشتہ بھی شامل ہے۔استاد اپنی سختشاقہ اور جانفشانی سے انسان کو معاشرتی
حیوان بننے سے محفوظ رکھتا ہے اور انسانیت کی خلعت فاخرہ سے سرفراز کرتا
ہے۔اسلامی نقطہ نظر سے ماں کی گود کو بچے کی پہلی درس گاہ کہا گیا ہے اس
لحاظ سے بچے کی تعلیم و تربیت اور کردار سازی میں والدین کا حصہ بھی ہوتا
ہے ۔لیکن بچے کو تعلیم و تہذیب کے گوہر آب دار اور تربیت کے بیش بہا سرمائے
سے آراستہ کرنے میں استاد کا اہم کردار ہوتا ہے۔اگر استاد کو بچے کی تعلیم
و تربیت کا سنگ بنیا د کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ا ستاد اپنے علم اور
تجربہ سے بھانپ لیتا ہے کہ اس کا شاگرد ہیرا ہے یا پتھر ۔یہ استاد کا کمال
ہے کہ وہ ہر دوصورت میں بچے کو کارآمد بناتا ہے۔ وہ ہیرے کو اہمیت دے کر
پتھر سے گریز نہیں کرتا ، بلکہ جس طرح سے ہیرے کو زیورات و تاج میں جوڑ کر
اس کی اہمیت افادیت اور قیمت میں چار چاند لگا دیتا ہے اسی طر ح ایک سنگ
ناہموار کو اپنی فنکارانہ تراش خراش و صورت گری سے عجوبہ روزگار بنادیتاہے
۔ لوگ کہیں اسے سنگ مرمر کی شکل میں تاج محل، کہیں سنگ سرخ کی صورت لال
قلعہ تو کہیں کوہ نور کی صورت تاج میں جڑاپاتے ہیں۔ایک شفیق استاد اپنی
توجہ ،دلچسپی اور شفقت کی شبنم کے چھڑ کاؤ سے معصوم کلیوں کو پھول بنا دیتا
ہے جو اپنی خوشبو سے سارے عالم کو معطر کر تے ہیں۔ ایک استاد جہاں اپنے علم
سے شاگردوں کی الجھنیں دور کرتا ہے وہیں اپنی پند و نصائح کے ذریعے ان میں
عقل و شعور کو پروان چڑھانے میں مگن رہتا ہے۔استاد کی تعظیم ہر زمانے میں
ہر انسان نے کی ہے۔جس معاشرے میں استاد کی تعظیم نہیں کی گئی وہ معاشرہ
کبھی ترقی نہیں کرپایا۔ سکندر اعظم سے کسی نے پوچھا کہ وہ استاد کو کیوں
اپنے ماں باپ سے زیادہ اہمیت دیتا ہے ۔سکندر نے جواب دیا کہ میرے والدین
مجھے آسمان سے زمین پر لے آئے جب کہ میرے استاد نے مجھے زمین کی پستیوں سے
آسمان کی بلندیوں پر فائز پہنچادیا۔والدین نے میرے جسم کی پرورش کی اور
استاد نے میری روح و جان کی۔ درس و تدریس میں استاد شاگرد کے رشتے کو بہت
اہمیت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ جس قدر استاد شاگرد کا رشتہ مضبوط اور بہتر
ہوگا اسی قدر اکتساب (سیکھنے ) کی شرح بھی بڑھے گی۔اگر استاد اور شاگرد کے
رشتے میں کہیں جھول اور خلا پایاجائے تب درس و تدریس کے خاطر خواہ نتائج
برآمدہوں گے اور نہ بچے سیکھنے میں دلچسپی لیں گے۔طلبہ کی توجہ اور ان کی
ذہنی صلاحیتوں کو مدنظر رکھ کر تدریسی منصوبہ بندی انجام دینے والے اسا تذہ
بلا شبہ تدریسی مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ طلبہ مرکوز
تدریس استاد اور طالب علم کے مابین بہترین روابط استوار کرنے میں مددگار
ثابت ہوتی ہے۔اسی لئے جدید طریقہ تعلیم میں طلبہ کی دلچسپی اور ذہنی
استعداد کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔اپنے شاگردوں کی الجھنوں ،مسائل اور دیگر
مصیبتوں سے آگا ہ استاد ہی بہتر طریقے سے تدریسی وسائل سے استفادہ کر سکتا
ہے۔تدریسی وسائل کو کارآمد بنانے اور تدریس کو موثر اور دلچسپ بنانے کے لئے
استاد کو اپنے شاگر د کے ذہنی خلفشار ،الجھنوں اور اکتسابی مشکلات و
معذوریوں سے کماحقہ واقف ہونا ضروری ہوتا ہے۔ایک استاد اپنے شاگردوں کے
مسائل کا علم رکھتے ہوئے ان کے حل کے لئے جب ایک رہبر ،رہنما ،غم خوار اور
مونس کے طور پر آگے آتا ہے تب شاگرد اپنے استاد کووالد ین سے بھی زیادہ
پیار و محبت کرنے لگتے ہیں۔ استاد شاگرد میں جب اٹوٹ وابستگی اور اعتماد کی
فضاجنم لینے لگتی ہے تو شاگرداستاد کی صحبت کو دنیا کی تمام صحبتوں سے بہتر
اور ایک محفوظ پناہ گاہ سمجھنے لگتا ہے۔طلبہ مرکوز طریقہ تدریس،بہتر ،ہمت
افزا اور شفقت پر مبنی ماحول استاد شاگر د کے مابین ایک مضبوط رشتے کو
استوار کرتا ہے۔استاد شاگر د کے مابین قائم رشتے کے بل پر استاد طلبہ کی
منفرد خوبیوں اور ضرورتوں سے آگہی کے ذریعے ایک مثبت تعلیمی ماحول پیدا
کرنے میں کامیابی حاصل کرتا ہے۔ایک مثبت تعلیمی و اکتسابی فضاء کی ہمواری
میں استاد اور شاگر د دونو ں کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ استاد کے رویے اور
طرز عملمبنی شاگرد کا رویہ اور طرز عمل جس طرح سامنے آتا ہے اسی طرح شاگرد
کے رویے اور طرز عمل پر منبی استاد کے رویے سامنے آنے لگتے ہیں۔ایک عالم
فاضل تجربہ کار اور جہاندیدہ شخص ہونے کی وجہ سے استا دہ پر زیادہ ذمہ داری
عائد ہوتی ہے کہ وہ شاگرد وں کے ناگوار طرزعمل اور رویوں کو خوش اخلاقی اور
صبر و تحمل کے ساتھ برداشت کرے ۔ایک مثالی استاد ہر پل اپنے شاگردوں کی
حوصلہ افزائی میں منہمک نظر آتا ہے۔پیشہ تدریس جہاں استاد سے محبت ،شفقت،
اور ہمددری کا مطالبہ کرتا ہے وہیں استاد کے لئے شاگردوں سے عزت و اکرام کا
تقاضہ بھی کرتا ہے۔استاد اور شاگر کے درمیان ایک عظیم اور صحت مند رشتہ صرف
اور صرف دونوں کے رویوں اور طرزعمل پر وجود میں آتا ہے۔ ہر پل جب استاد
اپنے شاگردوں کو غبی، پریشانی کا باعث،غیر اہم ،نامراد اور ناکارہ سمجھنے
لگ جائے تب فطری طور پر طلبہ میں منفی رویے پیدا ہوں گے۔ ہر طرح کا منفی
رویہ و تعلق صحت مند اور موثر درس و اکتسا ب کے فروغ میں مانع ہوتا ہے۔منفی
رویے صحت مند تعلقات کی تعمیر میں سب سے بڑی روکاوٹ بن کر سامنے آتے
ہیں۔استاد کی غفلت ،عدم توجہ ، بے پرواہی،ااور منفی رویوں کی وجہ سے طلبہ
باغی ہوجاتے ہیں اور استادکو ناپسند کرنے لگتے ہیں ۔استاد کو نا پسند کرنے
کی وجہ سے ان کے پڑھائے جانے والے اسباق کو بھی وہ خاطر میں نہیں لاتے
ہیں۔استاد اپنی منفی رویوں والی روش کو تج کر جب بچوں کو ہمددرانہ طور پر
سمجھنے کی کوشش کرتا ہے ،ان کی تعلیم و تربیت میں دست تعاون دراز کرتا
ہے،ان کے بارے میں اپنی فکرمندی کا اظہار کرتا ہے تب طلبہ استاد کی جانب
راغب ہونے لگتے ہیں اور ان کے مابین ایک اٹوٹ رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔شاگرد
ذہن و دل سے اپنے استاد کی عظمت کے قائل ہوجاتے ہیں اور دم آخر تک اس کا
ادب و احترام کرتے رہتے ہیں۔استاد کی جانب سے اٹھائے جانے والے چھوٹے چھوٹے
قدم ایک عظیم رشتے کی بنیاد بن جاتے ہیں جس پر اعتماد ،محبت ،شفقت اور
احترام کی ایک عظیم عمارت کی تعمیر ہوتی ہے۔ استاد کی جانب سے اٹھائے جانے
والے مندرجہ ذیل اقدامات استاد اور شاگرد کے مابین صحت مند رشتہ و تعلق
پیدا کرنے میں نہایت معاون ہوتے ہیں۔
(1)طلبہ کو سمجھنے اور پیش آنے میں استاد کا طرزعمل اور رویہ استاد شاگرد
کے مابین صحت مند تعلق پیدا کر نے میں بہت ہی معاون تصور کیا جاتا ہے۔
(2)طلبہ کے اکتسابمیں استاد کی جانب سے کئیے جانے والے اقدامات اور طریقہ
تدریس طلبہ اور استاد کے درمیان بہترین رشتہ استوار کرنے میں مددگار ہوتے
ہیں۔
(3)طلبہ کی ہمہ جہت ترقی کے لئے استاد کی فکر مندی اور احساس ذمہ داری
استاد اور شاگرد کے رشتہ کو استحکام فراہم کرتی ہے۔
(4)نظم و ضبط کی برقراری کے لئے استاد کی جانب سے اختیار کردہ تکنیک و
طریقہ کار پر بھی استاد اور شاگرد کے تعلقات کا بڑی حد تک انحصار ہوتا ہے۔
ذیل میں چند مفید حکمت عملیوں کو جامع طور پر پیش کیا جارہا ہے جس پر عمل
پیرائی کے ذریعے استاد اور شاگرد کے مابین صحت مند ،معاون و مددگار رشتہ
یقینی طور پر استوارکیا جاسکتا ہے۔
(1)استاد طلبہ سے اپنی محبت ،شفقت ، ہمددری کا اظہار کرے۔طلبہ کو اپنے
رویوں اور برتاؤسے تاثردے کہ وہ جو بھی سرگرمیاں انجا م دے رہا ہے ان میں
طلبہ کی تعلیمی ترقی اور روشن و خوشحال مستقبل پنہاں ہے۔
(2)طلبہ جب کبھی مطابقت (adjustment)پیدا کرنے کے مسائل،ذہنی دباؤ(stress)
یا پھر کسی الجھن اور پریشانی کا شکار ہوجائیں استاد ان مسائل اور الجھنوں
کو دور کرنے میں پہل کرے اور رہنمائی، تحریک اور ترغیب کے ذریعے ان میں
اعتماد واطمینان کی فضا ہموار کرے۔
(3) خاص طور پردوسرے کے سامنے میں ان کے برتاؤ ، تعلیمی مظاہرے ،اور کردار
کے بارے میں تنبیہ نہ کریں۔ان کی اغلاط کو درست کرنے میں حکمت ،مصلحت اور
دانائی سے کام لیں۔استاد کا کام طلبہ کی خرابی دور کرنا ہوتا ہے اور
کوتاہیوں کو دور کرنے میں ایسا راستہ اور طریقہ اختیار کرنا بے حد ضروری ہے
جس سے بچے کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔استاد کی جانب سے بچے کی تحقیر و تذلیل
بچے کے خراب برتاؤ اور اکتسابی گراوٹ پر قابو پانے کے بجائے اس کو مزید
ابتر کر دے گی۔بچوں کواغلاط پر ڈٹے رہنے کے بجائے اغلاط سدھارنے کی تلقین
کریں اور ان کے ذہنوں میں یہ بات محفوظ کردیں کہ غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے
اور اپنی غلطی کی اصلاح بھی ہمیں خو د ہی کرنی ہوتی ہے ۔اغلاط کی اصلاح میں
استاد کا شفیق رویہ اور رہنمائی بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
(4) طلبہ کو جب بھی ان کی مدد اور رہنمائی کی ضرورت درپیش ہواستاد اپنی
خدمات کو پیش کرنے میں تامل سے کام نہ لیں۔دلجوئی ،تحریک و ترغیب کے ذریعے
طلبہ میں خود اعتمادی کو پروان چڑھائے۔بچوں کی شخصیت اور کردار سازی میں
کوتاہی سے کام نہ لیں۔ بلند نظر ی اور اعلی اقدار اپنے طلبہ میں پروان
چڑھائے۔خو د کا احترام و عزت نفس کا خاص خیال رکھنے کے ساتھ دوسروں سے بھی
عزت و احترام سے پیش آنے کے جذبے کو فروغ دے۔
(5) دل آزاری اور بچوں کے حوصلوں کو پست کرنے والے فقروں اور جملوں سے
اساتذہ کلی طور پر اجتناب کریں۔دل آزار اور تحقیر آمیز کلمات و فقروں سے
طلبہ پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ان کی عزت نفس پر کاری ضرب پڑتی
ہے۔حوصلے پست کرنے والے فقروں اور جملوں سے بچوں کی خود اعتمادی مجروح ہونے
کے ساتھ ان میں بدتمیزی اور جارحانہ پن فروغ پانے لگتا ہے جس کی وجہ سے وہ
استا دسے بدتمیزی کرنے پر اتر آتے ہیں۔
(6) اساتذہ بچوں کے خیالات ،جذبات، احساسات پر خاص توجہ دیں ان کے خیالات
کو بغور سماعت کریں اور ان کو تاثر دیں کہ وہ ان کی قدر کرتے ہیں ۔ ان سے
بے حد پیار کرتے ہیں اور بہر حال ان کی ترقی کے لئے کوشاں ہیں۔
(7)بچے تو کجا بڑے بھی اپنے نام سے بہت محبت کرتے ہیں۔ بچوں کو جب ان کا
نام لے کر مخاطب کیا جاتا ہے تو بہت خوشی اور مسرت محسوس کرتے ہیں۔ وہ
چاہتے ہیں کہ وہ ان کے نام سے پہچانے جائیں۔استاد جب ان کو نام لے کر مخاطب
کرتا ہے وہ اپنے آپ کو خاص محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اساتذہ بچوں کو ان کے نام
سے پکارئیں ۔برے نام اور القاب سے(جیسے گدھا، بے وقوف ،جاہل ،نااہل،کاہل
،گورا ،کالا، گڈا ،نکٹا وغیرہ) بچوں کو مخاطب نہ کریں۔
(8)کمرۂ جماعت میں منعقد کی جانے والی سرگرمیوں میں تمام طلبہ کو یکساں
مواقع فراہم کریں۔طلبہ اور استاد کے درمیان ہونے والی گفتگو استاد اور
شاگرد کے رشتہ و تعلق کو مضبوط بنانے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے۔صحت مند
گفتگو کو رواج دیں۔
(9)طلبہ کوذمہ داریاں تفویض کرتے ہوئے احساس دلائیں کہ آپ ان کی بہت زیادہ
قدرکرتے ہیں اور وہ آپ کے لئے بہت اہم ہیں۔
(10)طلبہ سے انفرادی طور پر گفتگو شنید کے ذریعے اساتذہ ان کے شوق ،ذوق،
دلچسپی، مشاغل اور زندگی کے مقاصد سے آگہی حاصل کر سکتے ہیں۔ طلبہ کی
دلچسپیوں، شوق،ذوق ،مقاصد زندگی اور مشغلوں سے واقف ہوکر اساتذہ ان کو بہتر
طور پر منزل کی جانب ترغیب و تحریک پیدا کرتے ہوئے گامزن کر سکتے ہیں۔استاد
اور شاگر د کے رشتے کی مضبوطی کا انحصار ان کی بات چیت پر بھی منحصر ہوتا
ہے اسی لئے اساتذہ طلبہ سے انفرادی طور پر گفت و شنید کو رواج دیں۔
(11)حد و ادب کے درجے میں کیا جانے والا مذاق استاد ،شاگرد میں پائی جانے
والی اجنبیت کو دور کرنے کے ساتھ ان کو ایک دوسرے سے بہت قریب لے آتا
ہے۔ہلکے پھلکے مہذب مذاق سے طلبہ خود کو دباؤ سے آزاد محسوس کرتے ہیں اور
سوال کے جواب دینے میں آسانی اورسکون محسوس کرتے ہیں۔اساتذہ غیر ضروری
سنجیدگی سے گریز کریں۔ اپنے چہرے پر سنجیدہ مسکراہٹ سجائے رکھیں تاکہ طلبہ
استاد سے خوفزدہ ہونے کے بجائے اس سے مانوس ہوجائے۔
اساتذہ بچوں سے پیار شفقت ،غمخواری اور دلجوئی سے کام لیتے ہوئے خاص طور پر
جذباتی ہیجان،دباؤ ،تناؤ ،عدم مطابقت کے مسائل اور اکتسابی مشکلات کے وقت
استاد کی دلجوئی اور حوصلہ افزائی بچوں کے زخموں پر مرہم کا کام کرتی ہے ۔
ایسے وقتوں میں استاد ان کے رہنما و رہبر کیعلاوہ ان کے غم گسار اور مددگار
بھی بن جائیں۔پریشانی اور تکلیف کی ان گھڑیوں میں استاد کی دلجوئی استاد
شاگرد کے رشتے کو دوام بخش دیتی ہے۔ہمیشہ ہمیشہ کے لئے شاگرد استاد کی قدر
و منزلت کرنے لگتا ہے ۔ایک معلم،رہنما ،رہبر کے علاوہ استاد کو اپنا
رازداں، غم گسار اور مونس ،محب اور دوست سمجھنے لگتا ہے ۔استاد کا شفیق
،محبت آمیز اور ہمدرد انہ طرزعمل اور شاگر د کااحترام و عظمت پر مبنی برتاؤ
استاد اور شاگرد کے رشتے کو مستحکم، مضبوط اور اٹوٹ بنادیتا ہے۔ |