کارِ جہاں دراز ہے مگر ایسابھی دراز نہیں۔۔۔!

تحریر:ڈاکٹر عرفان مجید راجہ

وزیر اعظم پاکستان کے بیرونی دوروں پہ ہمیشہ ان کی دائیں جانب کھڑے بارسلونا کے سابق قونصل جنرل مراد اشرف جنجوعہ بخوبی جانتے ہیں اور حکومت کو کم از کم ہسپانیہ کا مختصر تعارف تو کروا ہی سکتے ہیں مگر یہ حکومت میں بیٹھے ان لوگوں کا کام ہے جن کو رتی برابر وطن عزیز میں بنیادی سے اعلیٰ تعلیم کو فروغ دینے کا شوق ہے کہ وہ وطن عزیز کے طول و عرض میں موجود، کم و بیش براعظم آسٹریلیا کی کل آبادی جتنے ان بچوں کو تعلیم دینے کی سعی کریں جو سکولوں سے باہر بیٹھے ہیں۔ ساری دنیا میں ہر سطح پر بنیادی سے لے کر درمیانی اور پھر اعلی تعلیم کے مدارج اور معیار بلحاظ عمر یا یوں کہ لیں ’حصہ بقدر جثہ ‘ طے کئے گئے ہیں۔ اگر ہمیں آگاہی ہے تو اِن اصول، مدارج اور معیار کو عمل میں کیوں نہیں لاتے اور اگر آگاہ نہیں تو سیکھنے میں حرج ہی کیا ہے؟ آخر وہ اقوام جن کی اگر ساری نہیں تو کچھ ایسی باتوں کے سارے ہی’ تھوڑے تھوڑے‘ قائل ہیں جن کی صف میں ہم نے کھڑا ہونا ہے۔ یہ بھی ہم نے طے کرنا ہے کہ کب کھڑا ہونا ہے اور کھڑا ہو جانے کے بعد ہم نے کتنی دیرکھڑا رہنا ہے؟ کیوں کہ بقول شاعر داستان سُناتے ہمیں سو جانے کی عادت ہے جس کے لئے باقاعدہ لیٹنا پڑتا ہے۔ ستم یہ ہے کہ ہم لیٹے بھی کئی بار مگر درد بڑھتا گیا، نیند ڈھنگ سے کبھی آنے نہیں دی گئی اور پھر لمبی قطار میں بٹھا کر ہمیں بارہا بھلایا بھی گیا اور پھرجب بلایا گیا، لٹانے کے لئے بلایا گیا۔اس ساری مسلسل مشق کا کم از کم ہمارے قومی تشخص پر جو اثر پڑا ، اس کی ملمع کاری گوناگوں کمزوری کی صورت ہم پر ہوتی رہی اور ہم ہر دفعہ اس کو شرف قبولیت بخشتے رہے۔

ہمارے حکومتی محبان وطن اگر چاہیں تو، جو نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا مگر سیکھنے اور علم حاصل کرنے کی جستجو کی آبیاری کر سکتے ہیں اور مزید نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔ زر مبادلہ بچایا جا سکتا ہے اور اقوام عالم خاص طور پر وہ جو آپ کی بات سننا چاہتی ہیں ان سے اپنے بچوں اور بڑوں کو پڑھوایا جا سکتا ہے۔ہسپانیہ میں پاکستانیوں کی ساکھ مجموعی طور پر بہت اچھی ہے۔ ہسپانیہ دنیا بھر میں بچے گود لینے والے ممالک میں ممتاز مقام کا حامل ہے۔ یہاں سے صدقات ہر شکل میں، حتیٰ کہ طبی سامان دوسرے ممالک کو بھیجا جاتا ہے اور لوگ ان کاموں میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیتے ہیں۔یہاں تعلیم سب کے لئے ہے اور یہ بہانہ بھی موجود نہیں کہ اب عمر کے اس حصے میں کہاں جا کے پڑھا جائے۔ آپ کی عمر سترہ سال یا اس سے زیادہ ہو گئی، کوئی بات نہیں۔ ایک سال کا کورس کریں، میٹرک میں داخلہ لیں اور تعلیم جاری رکھیں۔ پچیس سال اور اٹھائیس سال کی عمر کے لئے سہولیات ہیں۔ میرٹ لسٹ میں اگر میڈیکل کے لئے داخلہ ایک اٹھارہ سال کے طالب علم کے لئے بانوے فیصد سے اوپر ہے تو پچیس سال والے کے لئے نوّے فیصد ہے۔چالیس سال کے لئے بھی طریقہ ہے، بس پڑھنا شرط ہے۔ ہر عمر اور درجے کے اپنے وظائف مقرر ہیں۔ بارہویں تک نظامِ تعلیم پاکستان سے ملتا جُلتا ہے۔ پھر کالج اور یونیورسٹی کے درجات ہیں۔ ہسپانیہ کے نظام تعلیم سے ہم بہت کُچھ لے سکتے ہیں۔ یہاں کی جامعات سے کم خرچ بالا نشین یورپین اسناد اور تجربہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔پہلے کی طرح زبان بھی کوئی ایسا مسئلہ نہیں رہا کہ جس کی وجہ سے انگریزی بولنے والے ممالک کا ہی رُخ کیا جائے۔

ہمارا مسئلہ تعلیم سے بڑھ کر انگریزی ہے جسے ہم عرف عام میں انگریزی تعلیم کہتے ہیں یا مزید نفاست پیدا کرنے کے لئے انگریزی طرزِ تعلیم مگر معاملہ دوسرا ہے۔ انگریزی ممالک میں اخراجات ہسپانیہ سے زیادہ ہیں بلکہ بہت زیادہ ہیں اور لایعنی ہیں۔ خاص طور پر اعلیٰ تعلیم ، ہسپانیہ میں ڈاکٹریٹ اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کا معیار کسی بھی انگریزی جامعہ سے کسی بھی طور کم نہیں جبکہ سند کی قبولیت اور مانگ کہیں زیادہ ہے۔مثال کے طور پہ وہی لاطینی امریکہ جو اس صدی کی شروعات تک ہم سے زیادہ امریکی تعلیم کے دلدادہ تھے مگر اب اُن کا رخ ہسپانیہ کی طرف ہے۔ وہ یہاں آتے ہیں، اعلی اسناد لے کر واپس چلے جاتے ہیں۔بارسلونا سمیت سارے ہسپانیہ میں پاکستانی طلبا جو ماسٹر ڈگری یا ڈاکٹریٹ کرنے کی غرض سے موجود ہیں اں کی تعداد کل ملا کر بھی تیس سے زیادہ نہیں بنتی اور ان میں وہ بھی داخل ہیں جو کسی یورپین واسطے سے یہاں مختصر کورسز جو کہ ان کے ماسٹر یا ڈاکٹریٹ کا حصہ ہیں اور اُن کے وظائف سے حکومت پاکستان کا کوئی واسطہ نہیں، یعنی یہ طلبا کی انفرادی کاوش ہے۔یہ تعداد دوسری اقوام کے مقابلے میں نا ہونے کے برابر ہے۔ رُجحان اپنی جگہ، ملک کی ضروریات کے لئے ترجیحات بہر حال کسی اور قسم کی درکار ہیں ۔

پاکستان، ہسپانیہ سے کسی بھی شعبے میں چاہے وہ زراعت (زیتون، ہر قسم کا سنگترہ ، مالٹا، انگور) ہو طب یا تکنیک ہو فائدہ اٹھا سکتا ہے۔طب میں ہسپانیہ ٹرانسپلانٹ، کینسر جیسے امراض کے علاج میں ترقی یافتہ ہے۔ اب یہ ہمارے ارباب اختیار پر ہے کہ وہ طلبا کی زیادہ تعداد امریکہ، ولایت یا آسٹریلیا بھیجنے پر ہی اصرار کرتے ہیں یا ہسپانیہ اور اس جیسے ممالک سے میل جول بڑھاتے ہیں۔یہاں کے قومی اخبارات میں پاکستان کے متعلق یہاں تک چھپ چُکا ہے کہ فلاں اور فلاں علاقہ زیتون کے لئے زرخیز ہے اور چند سالوں میں دنیا کے بہترین زیتون پیدا کرنے والے خطوں میں یہ شمار ہو سکتے ہیں۔ہسپانیہ سے ایک معروف پاکستا نی کاروباری شخصیت کلیم الدین وڑائچ ہسپانوی انگورکا پاکستان میں کامیاب تجربہ کر چُکے ہیں۔ اُن کا تعلق بھی موجودہ حکومت سے ہے اور زراعت سے وابستگی بھی ہے۔

یہاں کے ریلوے کے نظام سے، بجلی پیدا کرنے اور ہوائی شعبوں میں ہر قسم کی مدد لی جا سکتی ہے۔ ہمارے موجودہ وزیر ریلوے دو یا اس سے زائد مرتبہ تشریف لا چکے ہیں اور ریل کے نظام کی صوبائی، قومی اور دفاعی افادیت پر اُن کی گہری نظر بھی ہے۔ یہاں کی قومی ہوائی کمپنی آئیبیریا ڈوب چُکی تھی، آج اپنے پاؤ ں پر جم کے کھڑی ہے۔ ریل کا جدید ترین نظام جو امریکہ اور سعودی عرب تک نے متعارف کروایا ہے، ہسپانیہ اس کا مرکزی کھلاڑی ہے۔ توانائی چاہے شمسی ہو یا ہوائی، تعاون حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہاں پاکستانیوں نے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ اور کم عرصے میں تجارتی، کاروباری، علمی، معاشرتی اور سیاسی ترقی کی ہے۔پرانی اور روائتی سیاسی جماعتوں میں تو پاکستانی نوے کی دہائی سے چلے آ رہے ہیں ۔ صوبائی اور قومی سطح پر الیکشن میں حصہ بھی لے چُکے ہیں مگر بالکل نئی سیاسی جماعت سیوتادانوس (ہسپانوی میں شہری کو سیوتادانو کہتے ہیں اور سیوتادانوس شہریوں کو یعنی عوام)نے بھی یہاں کی معروف سماجی شخصیت جناب طاہر رفیع کو گزشتہ صوبائی الیکشن میں ٹکٹ دیا تھا اور یہ مثبت صحت مندرُجحان ہے۔

صرف یہاں پر چیدہ کاروباری حضرات کو ہی نتائج سے مشروط ذمہ داری سونپ دی جائے کہ وہ پاکستان اور ہسپانیہ کے مابین تجارت کو فروغ دیں اور پاکستان میں چیک اینڈ بیلنس کا نظام بنا دیا جائے تو وہ پاکستان کے لئے تجارت کا حُجم مہینوں میں کئی گنا بڑھا سکتے ہیں۔ یہاں کی منڈیوں کو پاکستانی مصنوعات کے لئے کھول سکتے ہیں۔ یہاں کے تاجر حضرات کی ایک خوبی اور بیک وقت خامی یہ بھی ہے کہ سب کچھ’اپنے خرچے‘ پر کرنے پہ تیار ہو جاتے ہیں بس اس کے لئے پاکستان اور ہسپانیہ میں سفارتی سطح پر کوششوں سے زیادہ اُن کی سرپرستی کی ضرورت ہے۔ماضی میں یہاں سے چوہدری امانت علی وڑائچ نے اس طرح کی کوششیں کی ہیں جن سے پاکستان کوبرآمدات کے فروغ میں مدد مل چُکی ہے۔ یہاں پہ اگر پاکستانی سفارت خانہ جناب چوہدری امانت علی وڑائچ جیسے منجھے کاروباری حضرات کی سربراہی میں ایک ایسی ٹیم بنا دے جن کی پہنچ اعلی کاروباری اداروں تک ہے تو پاکستان کی درآمدات مہینوں میں بڑھائی جا سکتی ہیں۔

ہمیں یہی بتایا گیا ہے کہ ہسپانیہ اقوام متحدہ میں پاکستان کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان ہسپانیہ کے ساتھ کس قسم کی سفارت کاری کرتا ہے جس سے دونوں ممالک برابری کی بنیادوں پر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ان حالات میں جب ایک ایک پائی بچانے کا شور عام ہے اور سوائے بچت کے پاکستان کے پاس دوسرا کوئی رستہ بچتا نظر بھی نہیں آ رہا، لازم ہے کہ ہسپانیہ کے اس نرم گوشے کو جو صرف اقوام متحدہ کے اجلاس میں نظر آتا ہے ، پاکستان اپنے باقی مسائل حل کرنے کے لئے بھی ہسپانیہ کے ساتھ اپنے روابط بڑھائے۔یہ ملک خوبصورت تو ہے ہی مگر دل کا بھی اتنا ہی فراخ ہے۔ ذرا سی محنت پاکستان کے لئے بڑے دروازے کھول سکتی ہے۔ پاکستانی سفارت خانہ اور قونصل جنرل کی ٹیمیں بہترین محنت کررہی ہیں مگر پاکستان سے اگر حکومتی سطح پر وہ محنت جسے کے متعلق کہا گیا ہے کہ ’جس نے عمل کیا چاہے ذرہ کے برابر ہی کیوں نہ ہو‘ کا ادراک کر لیا جائے تو ہسپانیہ پاکستان کے لئے بہت بڑی نعمت ثابت ہو سکتا ہے۔

پسِ تحریر:
جو پاکستانی نژاد یہاں سے وطن جاتے ہیں اُنہیں موبائل کارڈ خریدنے میں بہت دشواری ہوتی ہے یاسم کارڈ سرے سے خرید ہی نہیں سکتے۔ اس باب میں کم از کم یہ سہولت تو ان لوگوں کو دی جا سکتی ہے اور یہ کچھ ایسا مشکل بھی نہیں۔

Malik Shahbaz
About the Author: Malik Shahbaz Read More Articles by Malik Shahbaz: 54 Articles with 44592 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.