عید میلاد النبیﷺ۔۔۔قرآن کے آئینے میں

ہر سال کی طرح اس سال بھی عید میلاد النبی ﷺانتہائی عقیدت و احترام سے منائی جا رہی ہے۔اور کیوں نہ منائی جائے کہ خوشی کا اظہار کرناعین فطرتی عمل ہے اور اس اظہار کے لیے کسی اور جواز کاہوناقطعاًضروری نہیں۔دینِ اسلام انسانی فطرت کے عین مطابق تفویض کردہ ہے،اس میں کسی غیر فطری چیز کا کوئی عمل دخل ہی نہیں ہے۔مگر چونکہ ہم عقلیت و استدلالیت سے متاثرہ دور میں رہ رہے ہیں جہاں ہر چیز کو ترازوئے خرد پر تولا جاتا ہے۔جہاں حق سے حق بات کوناقص و کھوکھلے اشاروں سے رد کرنے میں فخر محسوس کیا جاتا ہے، جہاں اپنی فہم و فراست کی محدود حد میں رہ کر ہی کسی بھی بات کی تائید یا تردید کرنے کو معیارآگہی سمجھا جاتا ہے جب کہ جو سمجھے وہ بس اتنا ہی سمجھے کہ تُو کُجا من کُجا،لیکن یہاں بڑی واضح بات کو سمجھانے کے لیے بھی دلائل و براہین کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ایک دوہرا معیار ہمیں لے ڈوبا ہے،مثلاً نجومی حضرت موسی ؑ کے بارے میں فرعون (رمصیص) کو بتائیں(اور ٹھیک بتائیں ) توآج تک کسی نے ان کے علم پر کوئی اعتراض نہیں کیا،لیکن اگر علم مصطفی ﷺ کی بات ہوتو سارا علم اﷲ عزوجل سے ایسے منسوب کیا جاتا ہے کہ اﷲ کی عطا کا ہی انکارکر دیا جاتا ہے۔حالانکہ ہمارا بڑا واضح عقیدہ ہے کہ تمام جہانوں کا مالک اﷲ ہی ہے اور وہ جس کو چاہے اپنی ملکیت میں سے عطا کر دے،تو بتائیے کہ آقا ﷺ سے بڑھ کر اور اﷲ پاک کے کون قریب ہے جو اس کی ذیادہ سے ذیادہ عطا کے حصول کا حق دار ہو۔ایک بات سمجھنے کی ہے کہ اﷲ پاک کے ہاں فضیلت و مرتبت تقویٰ و علم ہے۔جو علم میں بڑھ گیا وہ رتبے میں بڑھ گیا۔فضیلت آدمؑ اس بات کی بڑی واضح دلیل ہے۔جب اﷲ کے بعد آقاﷺ سے بڑھ کرکسی اور کا رتبہ نہیں تو کیا سمجھنا مشکل ہے کہ آپ ﷺ ہی علم میں بھی سب سے بڑھ کر ہیں۔اس ضمن میں جتنی احادیث بطور ثبوت پیش کی جاتی ہیں وہ دلیلِ نقصِ علمِ مصطفی ﷺ نہیں بلکہ ثبوتِ عجزِ مصطفیﷺ ہیں۔اسی طرح سے میلاد مصطفی ﷺ منانا بھی بعض نا عاقبت اندیشوں کے ہاں شرک ہے۔یہاں بھی دوہرا معیار ہے۔اپنوں کی سالگرہ بڑی دھوم دھام سے کی جاتی ہے اور خوب خرچ بھی کیا جاتا ہے۔لیکن ولادت مصطفی ﷺ منانے پر اعتراضات کی بھرمار کر دی جاتی ہے۔آج تک میلاد مصطفی ﷺ منانے کے اعتراض میں جتنی دلیلیں زیرِ بحث آتی ہیں وہ سب کی سب بے بنیادہیں۔بلکہ ان پر غور کرنے سے میلاد النبی ﷺ کی خوشی منانے کا ایک اور جوازضرور مل جاتا ہے۔ کچھ لوگ سنی سنائی رائے بڑے اعتماد کے ساتھ پھیلاتے رہتے ہیں کہ میلاد منانا تو شرک ہے بدعت ہے۔اب غور کیجیے اور آپ ہی بتائیے کہ میلاد سے بڑھ کر بھی کوئی اور بات رد شرک ہو سکتی ہے؟کیونکہ میلاد کا مطلب ہے ولادت کی خوشی منانا جب کہ ہم سب کا آنکھ بند کر کے یہ ایمان ہے کہ اﷲ ولادت سے پاک ہے۔اب جو یہ کہتے ہیں کہ تم نبی ﷺ کواﷲ سے ملا دیتے ہو وہ ذرا سوچیں کہ ہم ایک طرف (لَم یَلِد َولَم یُلَد) پر پختہ ایمان رکھتے ہیں اور دوسری طرف نبی ﷺ کی پیدائش کے قائل ہیں یعنی اﷲ پیدا ہونے سے پاک ہے اورآپﷺ پیدا ہوئے ہیں اور آپ اﷲ نہیں توبتائیے شرک کہاں رہ گیا۔اب اگر انہیں آپﷺ کے رتبے پر ہی اعتراض ہے جو یہ کسی نہ کسی بات کی آڑ لے کر کرتے رہتے ہیں تو ان کے لیے ہدایت کی دعا ہی کی جاسکتی ہے۔آئیے اب قرآن سے کچھ حوالے دیکھتے ہیں۔۱۔اﷲ پاک نے قرآن میں فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ میری نعمتوں کا خوب چرچا کیا کرو۔(بحوالہ پارہ :30 ،سورۃ والضحیٰ ،آیت نمبر 11)۔میلاد مناتے ہوئے اﷲ کی عطا کردہ سب سے بڑی نعمت یعنی آمد مصطفیؐ کا ہی تو چرچا کیا جاتا ہے۔اﷲ پاک کی ہر نعمت ہی بڑھ کر ہے لیکن ان سب نعمتوں کی جان آپﷺ کا دنیا میں تشریف لانا ہے۔۲۔حضرت ِعیسی ؑاﷲ سے دعا کرتے ہیں اور اس دعا کے الفاظ بڑے غور طلب ہیں۔مفہوم ہے کہ "اے اﷲ ہم پر آسمان سے دسترخوان (طعام)نازل فرما دے تاکہ وہ پہلے والوں اور بعد والوں کے لیے عید قرار پائے"(بحوالہ پارہ نمبر:7،سورۃ مائدہ،آیت نمبر:114)۔لفظ عید پر غور کیجیے کہ اﷲ پاک نے حضرتِ عیسی ؑ کی دعا کے الفاظ کی اصلاح نہیں فرمائی کہ مانگنا تو ٹھیک ہے لیکن عید والی کون سی بات ہے،عید وہی ہو گی جو میں کہوں گا،بلکہ اﷲ نے اپنے فضل سے دعا بھی پوری فرمائی اورہمیشہ کے لیے ان الفاظ کو ہو بہو قرآن کی زینت بھی بنا دیا۔ عید کا مطلب ہی خوشی کرنا ہے۔اور نعمت ملنے پر خوشی کرنا ثابت ہے۔اب بتائیں کہ آسمان سے کھانا اترے تو عید ہو تو بتائیے امام الانبیاءﷺکی تشریف آوری کو نعمت ماننا اور اس نعمت ملنے پر خوشی کا اظہار کرنے میں کیا قباحت ہو سکتی ہے؟۳۔شہید کے زندہ ہونے کے حوالے سے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر154 غور طلب ہے۔اعتراض کیا جاتا ہے کہ نبیؐ کی وفات پر خوشیاں مناتے ہیں۔تو بتائیے کہ جب کوئی بڑے سے بڑا امتی بھی کسی صورت میں بھی نبیؐ سے رتبے میں نہیں بڑھ سکتا۔تویہ کیسا فلسفہ ہے کہ جس نبیؐ کا کلمہ پڑھ کے امتی ہمیشہ کے لیے زندہ ہو اور اس کی زندگی کی دلیل خود قرآن ہو وہ نبی ؐ (نعوذ بااﷲ)خودمردہ سمجھ لیے جائیں۔استغفراﷲ ۔۴۔فضول خرچی کا فتوی لگانے کے اعتراض کے حوالے سے آیت کا مفہوم ملاحظہ کیجیے۔"آپ ﷺکہہ دیجیے کہ اﷲ کے فضل اور اس کی رحمت پر خوش ہونا چاہیے،وہ اس سے بدرجہا بہتر ہے جو کچھ تم جمع کرتے ہو۔(بحوالہ پارہ نمبر :11،سورۃ یونس،آیت نمبر:58) "ایک بڑا اعتراض کہ صحابہؓ نے میلاد نہیں منایا۔اس سلسلے میں علامہ ولی الدین محمد بن عبداﷲ الخطیب العُمری التَبریزی نے اپنی کتاب"مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح "(جس کا ترجمہ حکیم الامت مولانا مفتی احمد یار خاں نعیمیؒ بدایوانی نے کیا)کے باب "فضائلِ سیدِ المرسلین ؐ" میں متعدداحادیث موجود ہیں کہ نبی ؐ نے خود ممبر پر جلوہ افروز ہو کر اپنے مقام و مرتبے ،حسب نسب اوراپنی ولادت و با سعادت کا تذکرہ فرمایا۔اور صحابہ اکرام ؓ بھی ایسا ہی تذکرہ فرمایا کرتے تھے۔ہاں اب یہ الگ بات ہے کہ اُس وقت کے طریقے اور تقاضے اور سہولیات اور تھیں اور آج اور ہیں۔لہذا موجودہ دور میں آج کے دستیاب وسائل کو بروے کار لا کر خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ اسی طرح 12 ربیع الاول کو پیر کے روز ولادت با سعادت کے ضمن میں بحوالہ حافظ ابنِ کثیر کی کتاب السرا والنبوۃ جلد: 1 ، ص:142 اور البدائیہ والنہائیہ جلد :2،ص:160 ملاحظہ فرمائیں۔حوالاجات کو تلاش کرنے میں مدد کے لیے مبلغ اسلام ،عالمِ با عمل علامہ محمد شاہد چشتی آف گجرات اور برادر م استاذا لقراء علامہ قاری محمد شہباز عطاری کا بے حد احسان مند ہوں۔اﷲ پاک انہیں سلامت رکھے ۔ اﷲ پاک سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے اور نبیؐپاک کی سچی محبت سے ہمارے ایمان کامل فرمائے۔آمین۔

Awais Khalid
About the Author: Awais Khalid Read More Articles by Awais Khalid: 36 Articles with 34814 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.