بزرگان دین نے ان مناظر کو زندہ رکھنے کی شعوری کوشش کی
ہے جو اسلام کی اصل تصویر پیش کرتے ہیں۔ ان مناطر میں بنیادی اور اہم ترین
منظر تنظیم کو قائم رکھنا ہے۔ یہ عمل جس قدر اہم ہے اسی بقدر فراست و ایثار
کا متقاضی ہے۔ اسلام کی بنیادی تعلیم میں شامل ہے کہ کائنات کا خالق ہی اس
کا مالک و مختار ہے۔ سیاسی طور پر کہا جاتا ہے کہ اقتدار اعلیٰ اسی کا حق و
ملکیت ہے۔ اس کے اس حق کو انسان اسی کانمائندہ بن کراستعمال کرتا ہے۔ یہ
اتنا بڑا کام ہے جو کہ سرانجام دینا نبی کے بعد کسی اکیلے انسان کے بس کا
کام نہیں ہے۔ اس کے لیے زمین پر اللہ کا ظل اللہ یا نائب یا خلیفہ یا امیر
یا بادشاہ یا صدر یا جو بھی لقب اختیار کر لیا جائے ۔ عوام میں سے چنا جاتا
ہے ۔ ایک جماعت شوریٰ کی شکل میں اس کو مدد و نصرت مہیا کرتی ہے۔ اور شوریٰ
کے سربراہ کا کیا ہوا فیصلہ قابل تعمیل ہوتا ہے۔اسلامی تاریخ میں سیاسی
اتحا د کے بکھر جانے کے بعد بھی علماء اسلام نے اس منظر کو اپنے طور پر
اپنی بساط کے مطابق زندہ رکھنے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے۔
18 نومبر 2018 کو مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم تبلیغی جماعت کے امیر حاجی
محمد عبدالوہاب ؒ کی رحلت کے بعد نئے امیر کے چناو کے موقع پر نوجوان نسل
کووہ عمل دیکھنے کا موقع ملا جو تنظیم کو قائم رکھنے میں بنیادی کردار ادا
کرتا ہے یعنی مجلس شوریٰ کے نئے امیر کا انتخاب۔
تبلیغی جماعت کا شعار دائرہ اسلام سے باہر لوگوں کو دائرہ اسلام میں لانا
اور دائرۃ اسلام کے اندر مسلمانوں کو بہتر مسلمان بنانا ہے۔ اس مقصد کے
حصول کے لیے جس فرد کی قربانی اور ایثار سب سے بڑھ کر ہو تا ہے اسی کو امیر
منتخب کیا جاتا ہے۔ تعلیم و تصنیف، خاندان و معاشرتی وجاہت ، زہد و عبادت ،
بدنی طاقت و ایمانی قوت کے اعتراف کے باوجود میرٹ صرف اور صرف عملی اخلاص
ہی بنتا ہے۔اس کے لیے اہل مشورہ کا امیر کے چناو سے بہت عرصہ پہلے ذہن بن
چکا ہوتا ہے۔ اور وقت آنے پر اس کا صرف رسمی اعلان ہی کرنا ہوتا ہے۔
تبلیغی جماعت کے نئے امیر مولانا نذرالرحمان اطول اللہ عمرہ کے بارے میں
شوریٰ اور تبلیغ سے جڑے بزرگوں کا ذہن پہلے ہی بنا ہوا تھاکہ ان کے ایثار
کا دوسرا نعم البدل تھا ہی نہیں۔ انھوں نے اپنی ساری زندگی تبلیغ کی نذر کی
۔ ان کی علمی استعداد کے بارے میں یہ ہی کافی ہے کہ وہ مولانا طارق جمیل
اور مولانا جمشید جیسی شخصیات کے استاد ہیں۔عام طور پر ذہن میں آتا ہے کہ
استاد اس کو کہا جاتا ہے جو مخصوص اوقات میں مخصوص موضوع پر تعلیم دیتا ہے
مگر یہ ایسے استاد ہیں جو اپنے شاگردوں کی علمی پیاس بجھانے کے ساتھ ساتھ
ان میں روحانی عطش پید ا کر کے اسے سیراب بھی کرتے ہیں۔ خود اپنی ذات کو
مثال بنا کر پیش کرتے ہیں۔ باعزت صحافی شہزاد فاروقی نے تبلیغی جماعت کے
سابق امیر جناب حاجی عبد الوہاب ؒ کے بارے میں ایک ذاتی مشاہدہ رقم کیا
تھاکہ انھوں نے خود حاجی صاحب کو رات کے آخری پہر لوٹا اور جھاڑو ہاتھ میں
لیے صفائی کرتے دیکھا تھا۔انسانیت اپنے معراج پر خدمت ہی سے پہنچتی ہے۔
اورخدمت ہی دوسروں کے قلوب کو مغلوب کرتی ہے۔ علم انسان میں دو ہی خصوصیات
پیدا کرتا ہے خدمت کا جذبہ یا محسن کی بغاوت، علم نافع وہی ہے جس سے خالق
کی مخلوق کو نفع حاصل ہو۔ اور نو منتخب امیر پانچ دہائیوں سے رائے ونڈ میں
دینی، تنطیمی، روحانی اور لوگوں کی اجتماعی خدمت کے لیے خود کو وقف کیے
ہوئے ہیں۔ ان کی عمر 85 سال سے زائد ہے اور ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور
رائے ونڈ منتقلی سے قبل وہ راولپنڈی کے تبلییغی مرکز ذکریا مسجد میں خدمات
انجام دے چکے ہیں ۔ ان کے صاحبزادے مولانا عبد الرحمن صاحب مسجد ذکریا مسجد
کی امامت و خطابت کو فریضہ انھام دے رہے ہیں تو دوسرے صاحبزادے مولانا
عثمان صاحب فیصل آباد مرکز کے ذمہ دار ہیں۔ ان کے پوتے بھی رائے ونڈ کے
مدرسہ العربیہ میں درس و تدریس ہی میں مصروف ہیں۔ گویا ان کی تین نسلیں دین
و انسانیت کی خدمت کر رہی ہیں۔ روحانی طور پر وہ کندیاں والے مولانا خان
محمد صاحب کے خلیفہ مجاز ہیں اور ان کے عقیدت مندوں کی تعداد لاکھوں میں
ہے۔تبلیغی جماعت میں امیر تکریم کے اعلیٰ ترین منصب پر ہوتے ہیں تو یہ بھی
حقیقت ہے اور یہی اس مضمون کا مقصد ہے کہ یہاں فرد کی بجائے اصول و نظریے
کی پیروی کی جاتی ہے۔ امیر سے لے کر نووارد تک سب کے پیش نظر ایسی "محنت و
کوشش" ہوتی ہے جو تبلیغ کے اہداف کو حاصل کرنے میں معاون و مدد گار ہوں۔
اور ہدف ایک ہی ہے انسان کو بہتر روحانی طرز زندگی کی طرف مائل کرنااور یہ
عمل جس قدر اہم ہے اسی بقدر فراست و ایثار کا متقاضی ہے |