تحریر عرق حیات
بیٹی پیدا ہوتے ہی والدین کو اس کی شادی اور جہیز کی فکر لاحق ہو جاتی ہے,
ننھی سی کلی کب بڑی ہوگئی پتا ہی نہیں چلتا اسی لیے تو کہتے ہیں بیٹیاں بڑی
ہوتے دیر نہیں لگتی.
بچپن سے ہی یہ بات ذہن نشین کروا دی جاتی ہے کہ بیٹیاں پرایا دھن ہوتی ہیں
سدا ساتھ نہیں رہتیں والدین کے ساتھ ساتھ لڑکیاں خود بھی شادی کے خواب سجاۓ
ہوتے ہیں.. بیٹی بڑی کی پرورش سے بھی زیادہ مشکل ہوتا ہے بیٹی کی شادی کرنا.
ہمارے ہاں لڑکی کو شادی کے بندھن میں بندھنے کے لیے کافی مشکلات کا سامنا
کرنا پڑتا ہے.بالخصوص ان لڑکیوں کو جنکی عمر زیادہ ہو۔
بڑی عمر کی لڑکی کو ہمارے معاشرے میں باآسانی قبول نہیں کیا جاتا اسکی نسبت
کم عمر لڑکی کو زیادہ فوقیت دی جاتی ہے۔
ہمارے ہاں لڑکیوں کی شادی میں رکاوٹ اور ان کی عمر میں اضافے کی جو وجوہات
زیادہ دیکھنے میں آتی ہیں ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں
سب سے پہلے تو مناسب رشتوں کی کمی کی وجہ سے غیر شادی شدہ لڑکیوں کی تعداد
میں بہت حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے جو کہ ہمارے معاشرے کا بہت اہم مسئلہ
بن چکا ہے..
بیٹی کے جوان ہوتے ہی رشتے آنا شروع ہو جاتے ہیں لیکن اکثر والدین یہ کہہ
کر انکار کر دیتے ہیں کہ ہماری بیٹی ابھی پڑھ رہی ہے. اس چکر میں بھی
لڑکیاں بڑی تعداد میں زائد عمر کو پہنچ جاتی ہیں.یا ہم خاندان سے باہر شادی
نہیں کر سکتے۔ ہماری برادری اس بات کو مناسب نہیں سمجھتی۔
پھر کچھ رشتہ دار بھی ایسے ہوتے ہیں جو اپنا غصہ یا جلن لڑکیوں کے آنے والے
اچھے رشتوں پر نکال دیتے ہیں ,غلط قسم کی باتیں لڑکی سے منسوب کر کہ رشتہ
ختم کروا دیتے ہیں
لڑکیاں خود بھی بہت حد تک زائد عمر تک غیر شادی شدہ ہونے کی زمہ دار ہوتی
ہیں
فلموں,ڈراموں کو دیکھ کر انھوں نے اپنا ذہنی معیار ایسا بنا رکھا ہوتا ہے
کہ کوئی رشتہ انکے معیار کے مطابق پورا نہیں اترتا. اور یوں بہترین کی تلاش
میں بہتر یا مناسب بھی ہاتھ سے گنوا دیتی ہیں
اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جس گھر میں دو یا تین بیٹیاں ہوں تو بڑی
بیٹی کے لیے جب تک کوئی مناسب رشتہ نہ آۓ والدین چھوٹی بیٹیوں کے رشتے کا
بھی نہیں طےکر پاتے اور یوں بڑی کے ساتھ ساتھ چھوٹی بیٹیوں کے لیے بھی رشتے
آنا بند ہو جاتے ہیں۔ سب سے بڑا روگ ، کیا کہیں گے لوگ کے مصداق اپنا نقصان
کر بیٹھتے ہیں ۔
ایک اور اہم وجہ
ذات پات کا فرسودہ نظام ھے جو آج بھی دیکھنے کو ملتا ہے.اور اکثر لڑکیوں کی
شادی کی عمر صرف اس وجہ سے نکل رہی ہوتی ہے کہ برادری سے باہر شادی کا رواج
نہیں ہوتا اور فیملی میں انکے جوڑ کا کوئی رشتہ بھی موجود نہیں ہوتا.
ایسا بھی ہوتا ہے کہ رنگ ,شکل و صورت کی بنا پر بھی لڑکیوں کے رشتے نہیں
آتے ,آج بھی ہم اس معاشرے کا حصہ ہیں جس میں ظاہری حسن کو زیادہ ترجیح دی
جاتی ہے۔ سانولی رنگت کو کالی ، اور کمزور صحت کو ماچس کی تیلی کہہ کر
مسترد کر دیا جاتاہے
خدا خدا کر کہ اگر کہیں رشتہ طے ہوجاتا ہے تو جہیز کی شرط آڑے آ جاتی ہے جس
کی وجہ سے غریب اور متوسط طبقہ بہت متاثر ہوتا ہے ۔
جہیز کے نام پر بے جا شرائط بیان کی جاتی ہیں جو کہ والدین کی دسترس میں
نہیں ہوتیں .اس صورت میں رشتہ ختم ہونے کے چانسز زیادہ ہو جاتے ہیں..
ان سب وجوہات کا برا اثر خود لڑکیوں پر ہی پڑتا ہے..
بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ساتھ لڑکیاں مایوس اور زندگی سے بیزار ہو جاتی ہیں
اور اپنی زندگی کو خود تک ہی محدود کر لیتی ہیں
بہت سے نفسیاتی عارضوں میں مبتلا ہو جاتی ہیں ,خود کو ایسی راہ کی طرف
چلانا شروع کر دیتی ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی.
رشتوں کے بند دروازے انکی زندگی میں موجود رنگوں کو بھی پھیکا کر دیتے ہیں
.زندگی کے خوبصورت رنگوں کی جگہ احساس کمتری لے لیتی ہے.
ان مسائل کا حل بات چیت اور بردباری سے ہی نکالا جا سکتا ہے لڑکی اور لڑکے
دونوں کے والدین کو سمجھنا چاہیے کہ کوئی بھی انسان بہترین نہیں ہوتا کمی
ہر انسان میں ہوتی ہے ذات کا فرسودہ نظام اور جہیز جیسی لعنت یہ ہمارے اپنے
بناۓ ہوۓ ہیں اور رشتے قائم رہنے کی ضمانت ہرگز نہیں ہیں ..
لڑکیوں کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ فلموں اور ڈراموں کی زندگی اصل زندگی سے
بہت مختلف ہوتی ہے..زندگی وہی ہوتی ہے ,رشتے وہی ہوتے ہیں جو حقیقت میں
ہمارے آس پاس موجود ہوتے ہیں
کوئی بھی کام اگر سچی لگن سے کیا جاۓ تو کامیابی ضرور ملتی ہے
اس سوچ کو مد نظر رکھا جاۓ تو یہ مسائل جنم ہی نہ لیں۔ |