محسنِ انسانیت بحیثیت معلّمِ انسانیت ﷺ

رسولِ کائنات ﷺ کا شمار دنیا کی ان ہستیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے دنیا کو ہمہ معاملات میں نئے اسالیب اور جہات سے متعارف کروایا۔ آپ ﷺ وہ کامل شخصیت تھے جنہوں نے نہ صرف اپنی کمال تربیت بلکہ اپنے کردار سے بھی ایسی جماعت تیار کی جن میں انسانیت کی معراج کا وجودِ کامل نظر آتا ہے۔ حضرت انسان نے اپنی تخلیق سے لے کر رسول معظمﷺ تک ہر ایک ذات میں کوئی نہ کوئی کمی کوتاہی یا غلطی پائی لیکن آمنہ کے بطنِ اطہر سے پیدا ہونے والے لعلﷺ نیانسانیت ایسا نادر نمونہ پیش کیا جو ہر قسم کی ھفوات سے مطھّر تھا۔ بے شمار خصائصِ جمیلہ و اوصافِ حمیدہ کے مرکب رسولِ اکرم ﷺ نے بطور معلم و مدرس بے مثل کردار پیش کیا۔ آپ ﷺ کی تعلیمات سے زیادہ متاثر کن معلم آپ کا اخلاق تھا۔ ذیل میں ہم ان چند اصولِ تدریس کا ذکر کریں گے جو حیاتِ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے ماخوذ ہیں۔

پہلے شاگردوں میں حصولِ علم کا شوق اور جستجو پیدا کرنا پھر علم منتقل کرنا آپﷺ کا تدریسی طریقہ تھا۔ کئی مواقع پر صحابہ کرام کو مخاطب کر کے پہلے ان میں حصولِ علم کا اشتیاق پیدا کرتے پھر انتقالِ علم فرماتے۔ مثلا الا اخبرکم (کیا میں تمہیں خبر نہ دوں؟) الا ادلکم علی شیء (کیا میں تمہیں ایسی چیز کی رہنمائی نا کر دوں؟؟) اتدرون مالغیب? (کیا تم جانتے ہو غیبت کیا ہے؟)اور ایسے کئی الفاظ جو انسان کو چوکنہ کر دینے کو کافی ہوتے ہیں۔

نبی کریم ﷺ موقعہ و مناسبت اور طالب علم کی کیفیت دیکھ کر تعلیم دیتے مثلا ایک ہی سوال ''اسلام میں سب سے افضل عمل کون سا ہے؟'' مختلف صحابہ کرام نے مختلف اوقات میں پوچھا تو ہر ایک کو اس کے ذاتی معاملات اور موقعہ کی مناسبت دیکھ کر مختلف جواب دیا۔۔

اپنے طلبہ کے ساتھ نرمی و شفقت کا معاملہ کرنا اور بے جا مار پیٹ اور زد وکوب دے گریز کرنا بھی تعلیمِ رسول اﷲ ﷺ کا خاصہ تھا۔ حضرت انس رضی اﷲ عنہ جنہوں نے آپ ﷺ کے ساتھ بطور خادم و طالب علم دس سال گزارے وہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے آج تک کبھی مجھے مارنا تو دور کی بات غصہ تک نہ ہوئے حتی کہ کبھی مجھے یہ تک نہیں کہا کہ انس تم نے یہ کام کیوں کیا یا یہ کام کیوں نہ کیا۔ سبحان اﷲ العظیم۔

آپﷺ صحابہ کو سمجھانے کیلئے کچھ کر کے پیش کرتے یا کرواتے جسے ہم Activity Based Learning کا نام دیتے ہیں۔جس سے موضوع کا فہم و ادراک صحابہ کرام کے قلوب و اذہان میں ازبر ہو جاتا مثلا ایک دن آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے عصا سے زمین پر ایک سیدھا خط کھینچا اور کہا یہ میرا سیدھا راستہ ہے جو اس پہ چلا وہ کامیاب ہو گیا اور پھر اس خط کے ارد گرد کچھ ترچھے خطوط کھینچے اور کہا یہ گمراہی کے راستے ہیں۔

اس کے علاوہ رسول معظم ﷺ ہر میسر آنے والے موقعے میں تعلیم کے پہلو کو اجاگر کر کے اپنے طلبہ تک پہنچاتے۔ اپنے پاس بغرضِ علم آنے والے طلبہ کا خیر مقدم کرتے۔گفتگو کرتے ہوئے طلبہ کو اپنے قریب بٹھاتے۔ اور پھر ان کی طرف اتنی توجہ کرتے کہ سامعین بھی ہمہ تن گوش ہو جاتے اور کلام کا ایسا انداز اختیار کرتے کہ طلبہ دم سادھ کر بیٹھتے اور ایک ایک لفظ بعینہ انہی الفاظ کے ساتھ ازبر کر لیتے جو آپ ﷺ اپنی زبان سے نکالتے۔ یعنی حضور ﷺ (Communication Skills) میں کمال مہارت رکھتے۔

شاگردوں سے محبت کے اظہار کیلئے کبھی ان کو مختصر نام (Nick Name) یا کبھی کنیت سے پکارتے جیسے ایک دن ایک صحابی کو بلیوں سے کھیلتے دیکھا تو ابو ھریرہ کہہ دیا اور پھر وہ تا ابد راوی حدیث ابو ھریرہ رض بن کر رہ گئے۔ ایسے ہی حضرت علی رض کو مٹی سے کھیلتے دیکھا تو ابو تراب کہہ دیا۔

محسن انسانیت ﷺ جیسے اپنے طلبہ کی تعلیم و تربیت کا بند و بست فرماتے ایسے ہی اپنے طلبہ کیلئے دعائیں بھی خوب کرتے۔ مثال کے طور پر ایک دن عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ کا قرآن مجید سے محبت کا عالم دیکھا تو ان کیلئے دعا کی کہ ''اللھم علّمہ القرآن'' اے اﷲ اس کو قرآن کا عالم بنا دے۔ ایسی دعا کی کہ صدیاں بیت جانے کے باوجود آج بھی ابن عباس رضی اﷲ عنہ تفسیر قرآن کا ماخذ شمار کیے جاتے ہیں۔۔

رسول اﷲ ﷺ جب طلبہ سے بات کرتے تو آپ کی گفتگو میں ٹھہراوٗ ہوتا اور اپنی بات کو خوب وضاحت کے ساتھ بیان فرماتے۔ اور حسبِ ضرورت اپنی بات کا اعادہ بھی فرما دیتے۔ ایسے ہی آپ ﷺ اپنے طلبہ کو تعلیم دیتے ہوئے ہاتھوں سے مناسب اشارے(Body Language) کا بھرپور استعمال کرتے۔ مثلا ایک دن فرمایا میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں ایسے ہوں گے اور ساتھ ہی اپنی شہادت والی اور درمیانی انگشت مبارک کو ملا کر ہوا میں لہرایا۔

معلّمِ انسانیت ﷺ اپنے طلبہ کے تفھّمِ کامل کیلئے مثالوں کا استعمال کرتے مثلا ایک دفعہ فرمانے لگے کہ اﷲ کو گنہگار کا توبہ کرنا اس قدر خوشگوار لگتا ہے جیسے کسی بھوکے صحرائی مسافر کو اپنا گمشدہ زادِ راہ مل جائے۔

آپ ﷺ طلبہ سے مناسب اور علم طلب سوال پہ خوش ہوتے اور بے کار اور باعثِ مشقت سوال پہ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے۔ اور اگر کسی سوال کا جواب آپ ﷺ کے پاس نہ ہوتا تو بجائے اپنی طرف سے جواب دینے یا اٹکل پنچو لگانے کے خاموش ہو جاتے اور وحیِ الہی کا انتظار کرتے۔

کسی قابل شرم مسئلے کی تفہیم مقصود ہوتی تو اسے بھی ہرگز صرفِ نظر نہ کرتے لیکن ایسی باتوں کو اشارہ و کنایہ کی زبان میں ایسا سمجھاتے کہ طلبہ تک انتقالِ علم بھی ہو جاتا اور شرم و حیاء کا دامن بھی سلامت رہتا۔۔

ایسے ہی آقائے دو جہاں ﷺ طلبہ کے سیکھنے کے عمل کو آسان بنانے کیلئے پہلے اجمالا بیان کرتے اور پھر مکمل تفصیل کے ساتھ مکمل جزئیات کو سمجھاتے اور اگر کہیں مناسب سمجھتے کہ تھوڑے کلام سے ہی بات مکمل سمجھ آ جائے گی تو اسی پہ اکتفاء کرتے۔ ایسی احادیث جن میں تھوڑے کلام میں گہری بات کہہ دی جائے ان کو ''جوامع الکلم'' کہا جاتا ہے مثلا لا ضرر ولا ضرار (اسلام میں نہ خود کو نقصان پہنچانا جائز ہے نہ کسی دوسرے کو)

الغرض رسول اﷲ ﷺ بطور استاد ایک کامل ترین معلّم تھے کہ جن کے مکتب سے نکلنے والے طلبہ عرب و عجم کے ایسے حکمراں بنے کہ وہ عوام کے اجسام کے ساتھ ساتھ ان کے قلوب و اذھان کے بھی حکمران ہوتے تھے۔
 

Khunais Ur Rehman
About the Author: Khunais Ur Rehman Read More Articles by Khunais Ur Rehman: 33 Articles with 22956 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.