جشن آمد رسولﷺ اور انسانیت کی تذلیل

جشن میلاد النبی کے موقع پر ہم لوگ کس طرح شعوری اور لاشعوری طور پر غلط افعال سر انجام دیتے ہیں، اس بارے میں ہمیں سوچنا چاہیے۔ جشن میلاد النبی کے موقع پر جس طرح انسانیت کی تذلیل کی جاتی ہے وہ قابل مذمت ہے۔ سنجیدہ طبقے کو اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔
اگر اللہ کی راہ میں صدقہ یا خیرات کرنی ہے تو 5 روپے والے پاپڑ بانٹنے کے بجائے مستحق لوگوں کو 100 روپے کا کھانا کھلا دیں،

۱۲ ربیع الاول کو آفس تو جانا نہیں تھا، اس لیے گھر پر آرام کررہے تھا۔ لیکن میرے ساڑھے تین سال کے بیٹے کی ضد تھی کہ بابا آج آپ مجھے باہر گھمانے لے کر جائیں گے، غبارے دلائیں گے اور تلوار بھی اور اس کے ساتھ ساتھ مجھے پارک بھی جانا ہے۔اچھا میں نے رات کو ہی بچے سے وعدہ بھی کیا تھا کہ صبح یہ سب کام کروں گا، اس لیے بچے کی بات ماننا ضروری تھا ورنہ بچے کا ہمارے وعدے سے اعتبار اٹھ جاتا اور یہ اس کے تربیت اور شخصیت کے لیے بہت تباہ کن بات ہوتی۔ ہمیں پتا تھا کہ دوپہر 1 بجے کے بعد سڑکوں پر بہت زیادہ رش ہوجائے گا، ہر طرف جلوس اور ریلیاں ہوں گی، ان کے ساتھ سڑکوں پر لوگوں کا بھی غیر معمولی رش ہوگا اس لیے ہم نے جلدی نکلنے کا سوچا۔خود بھی تیار ہوئے، بچے کو بھی تیار کیا ، بائیک نکالی اور تقریباً ساڑھے گیارہ بجے چل پڑے۔

سڑکوں پر اس وقت ٹریفک برائے نام تھا، البتہ سڑکوں کے کناروں پر مختلف جماعتوں، مقامی تنظیموں اور اہل محلہ نے پیارے نبی ﷺ سے اپنی عقیدت و محبت کے اظہار کے لیے مختلف اسٹال اور کیمپ لگائے ہوئے تھے۔کہیں خانہ ء کعبہ کے ماڈل تھے، کہیں مسجد نبوی کے ماڈل، کہیں پینا فلیکس کے بنیروں کے ذریعے اسٹال کو سجایا گیا تھا، کہیں شربت بانٹنے کی تیاری ہورہی تھی، کہیں باقاعدہ دیگیں چڑھی ہوئی تھیں اور لنگر کا اہتمام کیا جارہا تھا، ایک جگہ تو ہمیں نصف درجن دیگیں نظر آئیں۔ان سب کے ساتھ ساتھ غیر مسلم بنجاروں اور خانہ بدوشوں کے چھوٹے چھوٹے اسٹال اور ٹھیلے بھی تھے، یہ لوگ اس موقع پر لکڑی کی چھوٹی چھوٹی تلواریں، تیر کمان، ڈگڈیاں، ڈھول اور کاغذی پنکھے بنا کر بیچتے ہیں اور اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ یہ سب تو معمول کی باتیں ہیں اور ہم برسوں سے یہ دیکھ رہے ہیں کہ جشن میلاد کے موقع پر یہ سب ہوتا ہے اور لوگ اس دن کو نہ صرف عقیدت و احترام سے بلکہ انتہائی جوش و خروش سے مناتے ہیں۔

البتہ گزشتہ چند برسوں سےاس میں ایک چیز کا اضافہ ہوا ہے۔آپ لوگوں نے بھی اس کا مشاہدہ کیا ہوگا۔وہ چیز ہے پانچ پانچ روپے والے پاپڑ اور دو دو روپے والی ٹافیوں کے اسٹال بھی لگنے لگے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ آج شہر کے مختلف علاقوں میں پانچ پانچ روپے والے پاپڑوں کے بڑے بڑے اسٹال لگے ہوئے ہیں۔آج ان 5روپے والے پاپڑوں کے لاکھوں پیکٹ بکیں گے۔اس طرح ان پاپڑ بیچنے والوں کو بھی آج کے دن بہت فائدہ ہوگا، ان کی دیہاڑی اچھی لگے گی۔

لیکن ان پاپڑوں اور ٹافیوں کے اسٹالز اور خریدو فروخت کا ایک افسوس ناک پہلو بھی ہے۔ وہ افسوس ناک پہلو کیا ہےَ؟افسوس کا مقام یہ ہے کہ جس نبی ﷺ نے انسانیت کو معراج بخشی، لوگوں کو پستی سے نکالا اور عزت نفس دی، آج اس عظیم ہستی کے جنم دن کے جشن میں انسانیت کو ، لوگوں کی عزت نفس کو روندا جائے گا۔

شہر بھر کے لچے اور آوارہ لڑکے ان پاپڑوں کی تھیلیاں لے کر سڑکوں پر کھڑے ہوں گے اور جہاں کہیں دو لڑکیاں دیکھیں گے وہاں پاپڑ بانٹنا شروع کردیں گے، پھر لوگ ان دو ٹکے کے پاپڑوں کے لیے چھینا چھپٹی کریں گے، دھکم پیل ہوگی، انسانیت روئے گی اور بانٹنے والے ایک طرف کھڑے ہوکر قہقہے لگائیں گے۔یہ انتہائی انسانیت سوز اور اخلاق سے گری ہوئی حرکت ہے۔جو اوچھا پن کرتے ہوئے پاپڑ بانٹے ہیں وہ تو قابل مذمت ہیں ہی لیکن اس کےساتھ ساتھ جو ان معمولے پاپڑوں کو بھی لوٹنے کے لیے دوڑتے ہیں ان کا یہ رویہ بھی درست نہیں ہے۔
کیا اس مبارک و متبرک دن ہمیں یہ زیب دیتا ہے؟؟
!نہیں نا
تو پھر انسانیت کی یہ تذلیل مت کریں۔
لوگوں کی عزت نفس کو نہ روندیں۔
اس مقدس دن کا تقدس پامال نہ کریں۔
کیا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح ہم پیارے نبی ﷺ کو خوش کررہے ہیں؟
!نہیں بالکل نہیں
اگر اللہ کی راہ میں صدقہ یا خیرات کرنی ہے تو 5 روپے والے 20 پاپڑ بانٹنے کے بجائے دو مستحق لوگوں کو 100 روپے کا کھانا کھلا دیں، وہ زیادہ بہتر ہے۔
 

Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520008 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More