سوچ سوچ کرمیں اسلام سے تو نہیں لیکن کبھی کبھی مسلمانوں
سے بالکل مایوس ہوجاتا ہوں، اس لئے کہ جب دیکھتا ہوں کہ مادی دوڑ میں تو
مسلمان ویسے ہی غیر مسلموں سے پانچ سو سال پیچھے رہ گئے ہیں، لیکن اب
اخلاقی و معاشرتی دوڑ میں بھی وہ غیر مسلموں سے پیچھے رہتے جارہے ہیں۔
اسلام ایک فطرتی دین ہے اور وہ ہر مسلمان کو اس فطرت پر زندگی گزارنے پر
مجبور کرتا ہے جس پر اﷲ تعالیٰ نے اس کو پیدا کیا ہے۔ غیر مسلموں کے پاس
اسلام کی دولت نہ سہی، مگر فطرتی طور پر ان لوگوں کے بلند کردار، اعلیٰ
اخلاق اور حسن معاملات کا سکہ آج بھی اقوام عالم کے دلوں پر جما ہوا ہے۔
چند سال پہلے بات ہے، میں ہسپتال میں تھا اور مجھے میڈی کل سٹور والے سے
ادویات خریدتے تیسرا دن تھا، میڈی کل سٹور والے کی خوش اخلاقی سے میں کافی
متاثر ہوچکا تھا،۔ ہسپتال میں موجود مریض (جس کے لئے ادویات خریدی جارہی
تھیں) اب تقریباً رو بہ صحت ہوچکا تھا۔ ڈاکٹروں نے جو ادویات لکھ کر دی
تھیں، ان میں سے کچھ ادویات بچ گئیں جو فل پیکڈ اور قابل استعمال تھیں، اس
لئے میں نے سوچا کہ وہ ادویات واپس کردی جائیں۔ اس ارادے سے جب میں اس میڈی
کل سٹور والے کے پاس پہنچا اور اسے ادویات کی واپسی کا کہا تو پہلے تو اس
نے میری طرف عجیب نظروں سے دیکھا، پھر ایسے ردّ عمل کا اظہار کیا جیسے میں
نے اسے کوئی گالی نکال دی ہو، اس کے بعد اس نے ادویات واپس لینے سے صاف
انکار کردیا۔ میں ٹھٹک کر رہ گیا اور سوچنے لگا کہ جس شخص کے پاس اس کی خوش
اخلاقی کی وجہ سے میں بار بار جارہا تھا، اب میرے ساتھ کس طرح کا نامناسب
سلوک کررہا ہے۔ خیر جب میں نے زیادہ اصرار کیا تو موصوف کہنے لگے واپسی اس
صورت میں ہوگی کہ آپ نقد رقم واپسی کے بجائے کوئی دوسری ادویات خرید
لیں۔مجھے مجبوراً متبادل کے طور پر دوسری ادویات خریدنی پڑیں، لیکن واپسی
پر میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ ہے تو یہ مسلمان اور باہر بورڈ میں نام
بھی حاجی لکھا ہوا ہے، لیکن سامان لیتے اور دیتے وقت اس کے رویے میں فرق
کیوں تھا؟ اس رویے کی وجہ سے میں نے آیندہ کبھی اس سے کچھ نہ خریدنے کا
تہیہ کرلیا۔
آنحضرتؐ کی سیرت طیبہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے اس دوہرے رویے
کو اپنی امت کے حق میں ناپسند فرمایاہے کہ مال بیچتے وقت تو نرم رویہ
اختیار کیا جائے، لیکن مال واپس لیتے وقت اپنا رویہ درشت بنالیا جائے۔
چنانچہ حدیث پاک میں آتا ہے اﷲ تعالیٰ اس آدمی پر رحم فرمائے جو بیچتے،
خریدتے اور تقاضا کرتے وقت نرمی برتے۔ (بخاری) ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ
جو کسی مسلمان کا خریدا ہوا سامان واپس کرے گا اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی
غلطیوں سے درگزر فرمائے گا۔(ابوداؤد)آج کل جن مسلمان تاجروں کی دوکانوں پر
یہ عبارت آویزاں ہوتی ہے ’’خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں ہوگا‘‘ ان کے
لئے آپؐ کے یہ مبارک ارشادات کس قدر صراحت کے ساتھ وارد ہوئے ہیں!لیکن
افسوس کہ آپؐ کے ان گراں قدر زرّیں اصولوں پر آج مسلمانوں کے بجائے غیر
مسلم عمل پیرا ہوتے نظر آتے ہیں۔
چنانچہ آپ یہ پڑھ کر حیران ہوں گے کہ پاکستان میں ایک صاحب (جو شعبۂ
اکاؤنٹنگ اینڈ فنانس سے وابستہ ہیں) وہ کچھ عرصہ پہلے امریکہ میں رہتے تھے۔
ایک مرتبہ انہوں نے امریکی دوکان سے اپنی بیگم کے لئے سوٹ خریدا، اور لاکر
گھر رکھ دیا۔ دو ماہ بعد جب بیگم نے کھول کر سوٹ دیکھا تو اسے اپنے معیار
کا نہ پایا۔ کہنے لگیں یہ واپس کر آئیں۔ شوہر نے کہا دوماہ ہوچکے ہیں اب
مشکل ہے کہ واپس ہو۔ بیگم نے اپنی انٹیلی جنس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے
باور کرایا کہ یہاں واپس ہوسکتا ہے۔شوہر نے کہا اچھا چلو رسید دے دو!۔‘‘بیگم
نے دوسرا جھٹکا دیتے ہوئے کہا کہ رسید تو گم ہوگئی ہے۔لیکن ساتھ ہی یقین
دلایا کہ واپس پھر بھی ہوجائے گا۔ شوہر کے لئے بیگم کا نقطۂ نظر قابل قبول
نہ تھا، اس لئے اس نے بیگم سے کہا یہ کام آج تم ہی کرکے دکھاؤ!چنانچہ دونوں
میاں بیوی ’’وال مارٹ‘‘ پہنچ گئے۔ کاؤنٹر پر موجود خاتون نے پہلے رسید
مانگی۔ پھر مختلف زبانی معلومات کے ذریعے کمپیوٹر سے اس خرید و فروخت کا
پتا لگایا اور مسکراتے ہوئے کہاجی ہاں! آپ نے فلاں تاریخ کو یہ کپڑا ہمارے
اسٹور سے خریدا تھا۔ آپ یہ کپڑا تبدیل کروانا چاہیں گے یا کیش لینا پسند
کریں گے؟ ہم نے کیش لینا پسند کیا۔ اس خاتون سے مسکراتے ہوئے ہمیں پوری رقم
واپس کردی اور ساتھ میں کہایہاں سے شاپنگ کرنے کا شکریہ!۔
میں یہ سوچ کر بھی اکثرو بیشتر حیران رہ جاتا ہوں کہ ہم مسلمان اپنی
بداعمالیوں، غلط کاریوں اور دوہرے رویوں کے سبب کس جواز کے تحت اﷲ کی دھرتی
پر آسائش کے ساتھ جی رہے ہیں؟ کھاتے ،پیتے ہیں، میٹھی نیند سوتے ہیں، خوش
گپیاں مارتے اورقہقہے لگاتے ہیں، لیکن پھر جب میری نظر گفتار کے غازیوں سے
ہٹ کر کردار کے غازیوں پر پڑتی ہے اور اسلامی معاشرے کی بچی کھچی تصویر
میری آنکھوں کے سامنے پھرنے لگتی ہے تو مجھے اس کائنات کے وجود اور اس کی
بقاء کا راز سمجھ میں آجاتاہے۔
چنانچہ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زید مجدہم لکھتے ہیں کہ1963ء
میں جب میں سعودی عرب گیا تو وہاں کے ایک باشندے نے مجھے اپنا واقعہ خود
سنایا کہ ایک مرتبہ میں کپڑا خریدنے کے لئے بازار گیا، ایک دوکان میں داخل
ہوکر بہت سے کپڑے دیکھے، دوکان دار پوری خوش اخلاقی سے مجھے مختلف کپڑے
دکھاتا رہا، بالآخر میں نے ایک کپڑا پسند کرلیا، دوکان دار نے مجھے قیمت
بتادی، میں نے دوکان دار سے کہامجھے یہ کپڑا اتنے گز کاٹ دو! اس پر دوکان
دار ایک لمحے کے لئے رکا اور اس نے مجھ سے کہاآپ کو یہ کپڑا پسند ہے؟میں نے
کہا جی ہاں! کہنے لگا قیمت بھی آپ کی رائے میں مناسب ہے؟ میں نے کہا جی ہاں!
اس پر اس نے کہا کہ اب آپ میرے برابر والی دوکان پر جایئے اور وہاں سے یہ
کپڑا اسی قیمت پر لے لیجئے۔ میں بڑا حیران ہوا اور میں نے اس سے کہا کہ میں
اس دوکان پر کیوں جاؤں میرا معاملہ تو آپ کے سے ہوا ہے؟ جب میں نے اسے زچ
کیا تب اس نے مجھے یہ راز بتایا کہ میرے پاس صبح سے اب تک بہت گاہک آچکے
ہیں اور میری اتنی بکری ہوچکی ہے کہ میرے لئے آج کے دن کے حساب سے کافی
ہوسکتی ہے، لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ میرا پڑوسی دوکان دار صبح سے خالی
بیٹھا ہے، اس کے پاس کوئی گاہک نہیں آیا، اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اس کی
بھی کچھ بکری ہوجائے، آپ کے وہاں جانے سے اس کا بھلا ہوجائے گا، آپ کا اس
میں کیا حرج ہے؟۔
اسلامی معاشرے کی یہی وہ بچی کھچی جھلکیاں ہیں جن کی لاج رکھتے ہوئے خالق
ارض و سموات نے اس کائنات کے وجود کو جوازبخش رکھا ہے۔ جس دن اسلامی معاشرے
نے اپنا دَم توڑا اور اﷲ، اﷲ کہنے والا کوئی ایک بھی باقی نہ رہا اس دن اس
کارخانۂ عالم کے وجود کا جواز باقی نہیں رہے گا اور یہ ہستی بستی کائنات
دھڑام سے نیچے گرجائے گی۔ رہے نام اﷲ کا!۔ |