لمبی عمر

وہ ستر برس کا ہو چکا تھا اس میں اتنی طاقت نہ رہی تھی کہ وہ خود اٹھ کر بیٹھ سکتا۔ اسے کسی نہ کسی شخص کی ضرورت ہوتی کہ وہ اٹھ کے بیٹھ سکتا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ جوانی میں بہت طاقت ور ہوا کرتا تھا مگر اب اس میں جان نہ رہی تھی۔ وہ خود سے کھانا نہیں کھا سکتا تھا۔ چونکہ وہ سب کچھ سن سکتا تھا مگر کچھ بول نہ سکتا۔ ایک ہی چارپائی پہ صبح سے شام گزارنا بہت مشکل ہوچکا تھا۔اسے معلوم تھا کہ وہ اب صرف ایک بوجھ بن کے رہ گیا ہے۔ گھر کے سب فرد مصروف ہوتے تھے جس کی وجہ سے اس کے پاس بیٹھنے کو کسی کے پاس وقت نہ تھا۔ وہ دوسروں کا محتاج ہو کے رہ گیا تھا۔ وہ خوش بھی تھا کہ اس کی اولاد بہت خوش ہے اسے اس وقت بھی اپنی فکر نہیں تھی مگر وہ اس بات پر خوش تھا کہ اس کی اولاد کامیاب ہے۔ اس جدید دنیا میں جہاں سب اپنی زندگی میں مصروف ہیں آخر کوئی کب تک کسی کو سنبھال سکتا ہے۔بیشک اس نے اپنے بچوں کی پرورش میں کوئی کمی نہ کی تھی مگر اب وہ اپنی اولاد کے لئے ایک بوجھ بن چکا تھا اسے یاد تھا جب گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لئے اسے دودو نوکریاں کرنی پڑی لیکن پھر بھی اس نے اپنی اولاد کوضرورت کی ہر چیز مہیا کی۔ وہ ابھی بہت بھوکا تھا اور انتظار کر رہا تھا کہ کوئی آکر اسے کھانا کھلائے کے اچانک اس کے کانوں میں آواز پڑی آج تم اباجان کو کھانا کھلا دو صرف میں ان کا بیٹا نہیں تم بھی ان کے بیٹے ہو۔ یہ سن کر اس کی بھوک مر گئی تھی اسے یاد آ رہا تھا کہ جب بچپن میں اس کی اولاد اس بات پر لڑتی تھی کہ یہ میرے بابا ہیں ان کے پاس میں سوؤں گا اور آج اس بات پر لڑ رہی ہے کہ یہ تمہارا بھی باپ ہے۔ کیسے اس اکیلے شخص نے دن رات محنت کرکے اپنی اولاد کی پرورش کی ان کی ہر خواہش کو پورا کیا مگر اب اس کی اولاد مل کر بھی اس اکیلے شخص کو سنبھال نہ پا رہی تھی۔ابھی آنکھوں میں آنسو لیے وہ شخص دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ اے خدا کسی کو لمبی عمر نہیں بلکہ اتنی ہی عمر دے کہ وہ کسی کا محتاج نہ ہو۔

Ali Joya
About the Author: Ali Joya Read More Articles by Ali Joya: 8 Articles with 5326 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.