اختیارات کے ناجائز استعمال یا اختیارات کے دائرہ کار سے
تجاوز کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ایسا کرنے والے کے پاس کوئی نہ کوئی سرکاری
سطح کا اختیار موجود ہو۔اگر سرکاری سطح پہ کسی بھی قسم کا اختیار حاصل ہو
تو اس عہدے کی حدود میں مقید نہیں رہا جا سکتا،خاص طور پر ہمارے ملک میں تو
نہیں۔اگر سرکاری اختیار رکھنے والا اپنے دائرہ کار میں ہی محدود رہے تو کہا
جاتا ہے کہ وہ تو اپنا ہی کام کر رہا ہے ،کون سا کسی بھی احسان کر رہا
ہے،اسے سرکاری خزانے سے تنخواہ اسی بات کی ہی ملتی ہے۔ملک اور عوام سے اپنی
محبت اور اخلاص کے مظاہرے کے لئے ضروری ہے کہ اعلی سطح پہ حاصل سرکاری
اختیار کی ذمہ داریوں کی حدود و قیود کی پرواہ نہ کی جائے، اعلی سطحی
اختیار کو پابند نہیں کیا جا سکتا ،خصوصا جب اعلی سطحی اختیار عملی طاقت
بھی رکھتا ہو۔
پہلے یہ عادت پاکستان کے حکمرانوں میں پائی جاتی تھی کہ وہ خود کو ملک و
عوام میں مقبول ترین رہنما تصور کرتے تھے اور اس بات پہ بھی یقین رکھتے تھے
کہ ان کی رہنمائی نے ماضی کے تمام رہنمائوں کو پچھاڑ دیا ہے۔ اب یہ پر عزم
سوچ مختلف اداروں کے سربراہان میں بھی نظر آنے لگی ہے۔بقول حبیب جالب ''
تیرے ہی وجود سے ملک کی نجات ہے ''۔ہمارے ملک کے چیف آف عدلیہ ، جسٹس ثاقب
نثار نے ملک میں ڈیم بنانے کے لئے چندہ جمع کرنے کی اپنی مہم کے حوالے سے
برطانیہ کے دورے کے موقع پرقومی خدمت کے جذبے سے مزید سرشار ہوکر آبادی پر
قابو پانے کے حوالے سے کم بچے پیدا کرنے کی مہم شروع کرنے کا اعلان کرتے
ہوئے سب کو حیران کر دیا۔ چیف ، جسٹس ثاقب نثار نے آئندہ ماہ سے آبادی پر
کنٹرول کے لیے مہم شروع کرنے کا اعلان کیا اور مزید کہا کہ دو بچے ہی اچھے
مہم کا آغاز اپنے گھر سے کروں گا۔انہوں نے بتا یا کہ'' مانچسٹر میں منعقدہ
ڈیم فنڈ ریزنگ تقریب بہت کامیاب رہی ، اب آبادی پر قابو پانے اور پلاننگ سے
متعلق سپریم کورٹ میں 12 یا13 دسمبرکوکانفرنس ہوگی۔آبادی پرقابو پانے کے
لئے بھرپورطریقے سے جدو جہد کریں گے''۔
ہندوستان میں یہ مہم سالہا سال سے جاری ہے کہ آبادی میں کنٹرول کرنے کے لئے
بچہ بندی کے لئے مختلف طریقہ کار وسیع پیمانے پر متعارف کرانے کے علاوہ
مردوں کی نس بندی بھی کی جاتی ہے۔بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت سے
محروم/دستبردار ہونے کے لئے نس بندی کرانے والے کو کچھ رقم بھی دی جاتی
ہے۔ہندوستان کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کے دور حکومت میں حکومت کی نس
بندی مہم کے ساتھ ساتھ نوٹ بندی مہم بھی بہت مشہور ہوئی۔ہندوستان میں آوارہ
کتوں کی نس بندی بھی مشہور ہے۔ایک قانون کے تحت آوارہ کتوں کو ہلاک کرنے پر
پابندی ہے اور ان کتوں کی آبادی کنٹرول کرنے کے لئے ان کی نس بندی کی جاتی
ہے۔تاہم مشکل یہ ہے کہ فنڈز کی کمی کی وجہ سے گنتی کے چند کتے ہی اس سرکاری
سکیم سے فیض یاب ہو پاتے ہیں ۔ہندوستان کے عوام انگریزوں کے چلے جانے کے
بعدبھی کئی قسم کی ناجائز اور ظالمانہ بندیوں کا شکار تو چلے آ رہے ہیں
لیکن ہندوستان میں سرکاری ،حکومتی سطح پر نس بندی اور نوٹ بندی نے خوب دھوم
مچائی ہے۔تقریبا سوا ارب آبادی والے ملک ہندوستان کی آبادی میں تیزی سے
اضافہ یقینا ایک سنگین صورتحال ہے۔ ہندوستان میں آبادی پر کنٹرول کے حوالے
سے بچہ بندی کے رجحان کو فروغ دینے کے لئے وہاں کے فلمی ستارے،مختلف شعبوں
کی مشہور شخصیات عوام کی نچلی سطح تک آ کر ایسے طریقے اپنانے کی تلقین کرتے
ہیںجس سے بچہ بندی کو ممکن کیا جا سکے۔
2017کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی اکیس کروڑ ستائیس لاکھ بیالیس
ہزار چھ سو اکتیس اور آبادی میں اضافے کی سالانہ شرح دو اشاریہ چار فیصد
ہے۔سیاسی انتشار ،حاکمیت کی کشمکش کی وجہ سے ملک کی اقصادی صورتحال بدترین
طور پر درپیش ہے۔معاشی بدحالی کا تمام بوجھ عوام پر ڈالنے کا چلن جاری
ہے۔ملک میںمعاشی،اقتصادی بدحالی کی صورتحال میں آبادی میں تیزی سے اضافہ
خطرناک نتائج سامنے لا سکتا ہے ۔چند سال قبل2030ء کے منظر نامے سے متعلق
ایک عالمی سطح کی جائزہ رپورٹ میں پاکستان سے متعلق آبادی کے اضافے کو اس
حوالے سے بھی ایک خطرہ بتایا گیا تھا جس میں نوجوانوں کی تعداد پچاس فیصد
سے زائد ہے۔اس عالمی جائزہ رپورٹ میں اقتصادی حالت،معاشی ابتری اوربیروز
گاری کے روشنی میں پاکستان کی آبادی کے پچاس فیصد سے زائد نوجوانوں کو ایک
ایسے خطرے کے طور پر بیان کیا گیا ہے جنہیں کسی بھی کام میں استعمال کیا جا
سکتا ہے۔
پاکستان میں آبادی پر کنٹرول کے لئے متعلقہ محکمے کے یہ نعرے پرانے ہو چکے
ہیں کہ '' بچے دو ہی اچھے'' ، '' کم بچے خوشحال گھرانا''۔لیکن سالہا سال سے
چلائی جا رہی یہ مہم اب تک موثر بتائج پر منتج نہیں ہو سکی ۔اب ملک کی
عدلیہ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرف سے '' بچے دو ہی اچھے'' کی مہم شروع
کرنے کے اعلان سے توقع پیدا ہوئی ہے کہ ڈیم چندہ مہم کی طرح بچہ بندی کی
مہم بھی ملک میں زور و شور سے چلائی جائے گی۔اب یہ دیکھنے کا موقع بھی مل
سکتا ہے کہ جیسے کئی افراد چیف جسٹس ثاقب نثار سے ملاقات کرتے ہوئے انہیں
ڈیم چندہ مہم کے لئے چیک دیتے ہیں اور تصویر بناتے ہیں،توقع ہے کہ اسی طرح
بچہ بندی مہم کے حوالے سے بھی مختلف شعبوں کے افراد چیف جسٹس سے ملاقات
کرتے ہوئے اپنی نس بندی کرانے کا اعلان کریں گے۔اس میں کوئی شرم کی بات
نہیں ہے۔ پاکستان کے منفرد عالمی شہرت یافتہ ایٹمی سائینسدان ڈاکٹر
عبدالقدیر خان سالہا سال پہلے خود اس بات کا اعلان کر چکے ہیں کہ انہوں نے
اپنی نس بندی کرائی ہے۔اب جبکہ عوام کے ہر دلعزیز چیف جسٹس ثاقب نثار نے
آبادی پر کنٹرول کرنے کی مہم شروع کرنے کا اعلان کیا ہے تو سب کا فرض ہے کہ
وہ ڈیم چندہ مہم کی طرح بچہ کنٹرول مہم پر بھی لبیک کہتے ہوئے اس کے سب سے
موثر طریقہ '' نس بندی'' کرانے کے اعلانات کا سلسلہ شروع کردیں۔آبادی پر
کنٹرول کے لئے مختلف مصنوعی طریقے اپنانے یا کم بچوں کی افادیت پر لیکچر
دینے کا سلسلہ عرصہ دراز سے غیر موثر طور پر جاری ہے۔اس سے مسئلے پر قابو
پانے میں کوئی نمایاں مدد نہیں ملی۔آبادی پر کنٹرول کے مثبت نتائج کے لئے
ضروری ہے کہ نس بندی کے طریقہ کار کو فروغ دیا جائے۔اس حوالے سے ڈاکٹر
عبدالقدیر خان کی طرح ملک کی مختلف شعبوں کی اہم شخصیات کو اس معاملے میں
خود کو مثال کے طور پر سامنے لانا چاہئے۔ |