لڑکی ہوتوایسی ہو

ایک گھرمیں دومیاں بیوی ہیں۔ چاران کے بیٹے ہیں۔ دوبیٹیاں ہیں۔ بچوں کی ایک پھوپھی اورایک خالہ بھی مہمان ہیں۔ رات کاکھاناکھانے کے بعدیہ سب گھروالے اوران کی دونوں مہمان گھرمیں ایک ہی کمرے میں موجودہیں۔ میاں بیوی ایک بیڈ پربیٹھے ہیں۔ بچوں کی خالہ اورپھوپھی الگ الگ چارپائیوں پربیٹھی ہیں۔چاروں بھائی لکڑی کی کرسیوں پربیٹھے ہیں۔ دونوں بہنیں ایک اوربیڈ پربیٹھی ہیں۔ بچوں کی پھوپھی اپنے سب سے چھوٹے بھتیجے سے پانی کاگلاس مانگتی ہے ۔وہ پھوپھی کوپانی والی موٹرچلاکرشیشے کے پھول دارگلاس میں تازہ پانی پیش کرتاہے۔ پھوپھی پانی پینے کے بعدگلاس چارپائی کے کونے میں رکھتے ہوئے کہنے لگی کہ خیرسے میرابھتیجاپچیس سال کاہوچکا ہے۔ اس عمرمیں تولڑکوں کے دو، دوبچے ہوچکے ہوتے ہیں۔ یہ ابھی تک غیرشادی شدہ ہے۔ وہ اپنے سب سے بڑے بھتیجے کے بارے میں بات کررہی تھی۔ ماشاء اللہ اب یہ روزی کمانے کے لائق بھی ہوگیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ اس کے پاس مستقل کاروباریاملازمت نہیں ہے۔ مگریہ گھرمیں چارپائی بھی تونہیں توڑتارہتا۔ روزی کمانے میں مصروف رہتاہے اورشام کوکچھ نہ کچھ کماکرہی لاتاہے۔ یہی توعمرہے اس کی شادی کرنے کی۔ بچوں کی پھوپھی اپنے بھائی کومخاطب کرکے کہتی ہے کہ کب کروگے میرے بھتیجے کی شادی۔ کیااس وقت شادی کروگے جب اس کے بال سفیدہوناشروع ہوجائیں گے اورجہاں بھی رشتہ لے کرجاؤگے یہی جواب ملے گا کہ یہ توبوڑھاہورہاہے ہم اپنی بہن، بیٹی بوڑھے کودے دیں یہ نہیں ہوسکتا۔بچوں کاباپ تکیے پرایک ہاتھ رکھ کرسہارالے کربیٹھتے ہوئے کہتا ہے کہ میں بھی پچھلے دو، تین ہفتوں سے سوچ رہاہوں کہ اب اپناایک فرض اداکردوں۔ وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہنے لگا کہ میں کئی دنوں سے یہ بھی سوچ رہاتھا کہ کسی دن سب گھروالے پہلے یہ مشورہ کرلیں کہ رشتہ کہاں کیاجائے۔آج تم نے بات کاآغازکردیا ہے تواس بات کافائدہ اٹھاتے ہوئے آپس میں مشورہ کرلیتے ہیں کہ رشتہ کہاں کرناچاہیے اورکیسارشتہ تلاش کرناچاہیے۔بچوں کے باپ کااتناہی کہناتھا کہ بچوں کی ماں اپنے بڑے بیٹے کواس کمرہ سے چلے جانے کوکہتی ہے توبچوں کی خالہ بول پڑتی ہے کہ اس کوکیوں باہربھیج رہی ہو۔ توبچوں کی ماں کہتی ہے کہ اس کے رشتے کی بات ہورہی ہے۔ مناسب نہیں ہے کہ مستقبل قریب کادولہااپنی شادی کی باتیں سنے۔ اس کابڑابیٹا اٹھنے کی تیاری کررہاتھا کہ اس کی خالہ کہنے لگی کہ نہ جانے کس نے یہ رواج ڈالاہے کہ جس کے رشتے کی بات ہورہی ہووہ خود نہ سنے۔ بڑی عجیب بات ہے کہ اورتوسب لوگ رشتہ کی باتیں سنیں جس نے زندگی گزارنی ہے وہ نہ سنے۔ اس کے بعد بچوں کی پھوپھی اپنادوپٹہ درست کرتے ہوئے کہنے لگی کہ جب مستقبل قریب کے دولہاکورشتہ کی باتیں سننے کاموقع بھی نہیں دیاجاتا تواس سے یہ کب معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہوگی کہ وہ کیسارشتہ چاہتاہے۔ اس کوکس طرح کی لڑکی پسندہے۔اگرلڑکاوالدین کافرماں بردارہے۔ لڑکیوں سے محبت کے چکرمیں نہیں پڑاہوا۔ جس طرح لڑکے اورلڑکیاں گھروالوں کی مرضی کے بغیرشادیاں کرلیتے ہیں۔ مجھے تولڑکے کی شرافت اورفرماں برداری کی یہ سزالگتی ہے کہ اس لڑکے سے اس کی پسندناپسندپوچھناتودورکی بات اسے تواس جگہ بھی بیٹھنے نہیں دیاجاتا جہاں اس کے رشتہ کے بارے میں کوئی بات ہورہی ہو۔لڑکے کارشتہ طے کرنے سے پہلے ابتدائی مشورہ کرتے وقت بھی اوراس کے بعدکے تمام مراحل میں خاندان کے تمام مردوخواتین کواپنی رائے دینے کاحق ہوتاہے جس نے زندگی گزارنی ہے اس کی صرف اورصرف ایک ہی ذمہ داری ہوتی ہے کہ شادی ہوجانے تک اسے صرف کبھی باپ، کبھی ماں اورکبھی دیگررشتہ داروں کے حکم پرعمل کرنااورکسی سے کوئی سوال نہ کرنااورکوئی بات نہ پوچھنارہ جاتاہے۔یہ سن کراس کی چھوٹی بھتیجی بولی کہ مجھے لگتا ہے کہ پھوپھی آج پوری تیاری کرکے آئی ہیں کہ جیسے ہی موقع ملے اوریہ ہم سب کوایسالیکچردیں کہ ہم لاجواب ہوجائیں۔ اس کی بڑی بہن اسے سمجھاتے ہوئے کہنے لگی کہ تمہیں ایسانہیں کہناچاہیے ۔ پھوپھی کوجوٹھیک لگ رہا ہے وہ کہہ رہی ہیں ۔ اس پربچوں کاباپ کہتا ہے کہ تمہاری پھوپھی ٹھیک کہہ رہی ہے۔ یہ کہہ کروہ اپنے بڑے بیٹے سے کہتا ہے کہ توباہرنہ جا۔ اپنی جگہ پربیٹھارہ ۔ وہ لڑکا اپنی سامنے والی جیب سے ٹچ موبائل نکالتاہے اوراپنی جگہ پربیٹھ جاتاہے۔خالہ کہتی ہے کہ جوبات کرنی تھی وہ توکوئی نہیں کررہا ۔ بچوں کاباپ کہتا ہے کہ اب تم ہی بتاؤکہ لڑکی کیسی ہونی چاہیے۔ لڑکے کی خالہ کہتی ہے کہ آپ اس کے باپ ہیں۔ رشتہ بھی آپ نے طے کرناہے۔ آپ ہی بتادیں کہ آپ نے کیاسوچ رکھا ہے کہ لڑکی کیسی ہونی چاہیے۔وہ کہنے لگا کہ میں بھی بتادوں گا پہلے میں آپ سب سے سنناچاہتاہوں کہ آپ سب کی پسندکس طرح کی لڑکی ہے۔بچوں کی پھوپھی بچوں کی ماں سے کہتی ہے کہ بہن تم ہی بتاؤ تم نے اپنے بیٹے کے لیے کس طرح کی لڑکی کے خواب دیکھ رکھے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی لڑکی کیسی ہونی چاہیے پربحث شروع ہوجاتی ہے۔
بچوں کی ماں: میں توچاہتی ہوں کہ لڑکی کسی بڑے خاندان سے ہو۔
بچوں کی خالہ: بڑے خاندان سے کیامطلب؟
بچوں کاپاب: جہاں تک میں سمجھا ہوں کہ لڑکی کسی ایسے خاندان سے ہوجس کی شہرت اچھی ہو، اس کا کروڑوں روپے کاکاروبارہو یااس کے خاندان کے لوگ اعلیٰ عہدوں پرملازمت کرتے ہوں۔
بچوں کی پھوپھی: میراتوخیال ہے کہ میرے بھتیجے کی ماں کسی بڑے خاندان میں اس لیے بیٹے کارشتہ کرناچاہتی ہیں کہ لڑکی بہت بڑا جہیزلائے گی۔ جہیزمیں اسے قیمتی گاڑی، چالیس ،پچاس ایکڑ زمین ، بیس پچیس تولے زیورات اوردیگرسامان ملے گا۔
بچوں کی ماں: میں بھی یہی چاہتی ہوں کہ میرے گھرمیں ایسی بہوآئے جواس طرح کاجہیزبھی ساتھ لائے
بچوں کی خالہ : چلوفرض کرلیتے ہیں کہ لڑکی کسی بڑے خاندان سے بھی مل جاتی ہے اورجہیزبھی آپ کی توقع کے مطابق لے آتی ہے اوربعدمیں وہ افسربن جائے ، باربارزیادہ جہیزلانے کی باتیں سناتی رہے اوراپنے خاندان کی تعریفیں کرکے گھرکے کام کاج کوہاتھ بھی نہ لگائے کہ ہمارے گھرمیں ہمارے کام ملازم کرتے تھے۔ میں نے نہ تواپنے ماں باپ کے گھرمیں کوئی کام کیاتھا اورنہ ہی میں اب اس گھرمیں کوئی کام کروں گی توپھرجہیزکس کام کا؟
بچوں کی پھوپھی: میں بھی یہی بات سمجھانے کی کوشش کررہی ہوں : فرض کریں ایساہوبھی جاتاہے ۔ اس طرح کی لڑکی مل بھی جاتی ہے اوراس کامزاج اورطرح کاہو توکیاآپ کابیٹا اسے زندگی بھربرداشت کرلے گا ؟ وہ بچوں کی ماں سے مخاطب ہوتے ہوئے بولی۔
بچوں کی ماں: جہیزکے بغیرتوکوئی شادی نہیں ہوتی۔
بچوں کاباپ: اپنی بیوی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہنے لگا کہ تجھے لڑکی سے دلچسپی ہے کہ جہیزسے
بچوں کی ماں: بیٹے کے لیے لڑکی اوربیٹے کے مستقبل کے لیے جہیزسے دل چسپی ہے۔
بچوں کی خالہ: رشتہ طے کرتے وقت صرف لڑکی اوراس کاجہیزہی نہیں دیکھاجاتا اوربھی بہت سی باتیں دیکھناپڑتی ہیں۔
بڑے بیٹے چھوٹابیٹا: بھائی کے مستقبل کے لیے صرف جہیزہی کیوں؟ ایسی لڑکی بھی توتلاش کی جاسکتی ہے جوملازمت کرتی ہو اورتیس سے چالیس ہزارروپے اس کی تنخواہ ہو۔
بچوں کی پھوپھی: جب بڑے بول رہے ہوں توچھوٹے نہیں بولاکرتے
بچوں کاباپ: یہ ٹھیک ہے کہ بڑوں کے سامنے چھوٹے نہیں بولاکرتے مگروہ اپنی رائے دے سکتے ہیں ،بڑوں کوبچوں کی بات اس لیے نظراندازنہیں کرنی چاہیے کہ وہ بچہ ہے۔ بلکہ اس کی بات پرغورکرناچاہیے، بعض اوقات ایسابھی ہوتا ہے کہ بچے ایسی بات کہہ جاتے ہیں جوبڑوں کے خیال میں نہیں آتی۔
بچوں کی خالہ: میرے بھانجے نے بات توٹھیک ہی کی ہے۔ ایسی لڑکی بھی تلاش کی جاسکتی ہے جوملازمت کرتی ہو اورتیس سے چالیس ہزاراس کی تنخواہ ہو۔
بچوں کاباپ: وہ توٹھیک ہے مگر۔۔۔۔۔
بچوں کی پھوپھی: مگرکیا؟
بچوں کی خالہ : مگریہ کہ ماہانہ تیس سے چالیس ہزارتوملتے رہیں گے، میرے بیٹے کوروزانہ پک اینڈ ڈراپ سروس فراہم کرنی پڑے گی، اور
بچوں کاباپ: اور نہ جانے اس کی ملازمت گھرسے کتنی دورلگتی ہے۔ صبح ، شام ایک گھنٹہ گھنٹہ پک اینڈ ڈراپ سروس میں لگ جائے گا، سات، آٹھ گھنٹے دونوں میاں بیوی گھرسے باہررہیں گے توگھرداری کون دیکھے گا اوربچوں کاکیابنے گا:
بچوں کی ماں: جوخواتین ملازمت کرتی ہیں وہ بھی تواپنے گھروں کے کام کرتی ہیں اگراتنی ہی فکرہے توکوئی کام والی تلاش کرلیں گے:
بچوں کاباپ: جس طرح بچوں کی دیکھ بھال اورتربیت ماں کرسکتی ہے کام والی نہیں
بچوں کی ماں : جہیزوالی بہوپربھی اعتراض ہے اورملازمت والی پربھی ؟ پھرآپ کس طرح کی بہوچاہتے ہیں اس نے اپنے شوہرکی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا
بچوں کی خالہ اپنی بھانجیوں سے: تم بھی توبتاؤتمہیں کس طرح کی بھابھی چاہیے۔
بڑی بھانجی: وہ جہیزوالی ہویاملازمت والی یابڑی جائیداداورکاروباروالی، ہم تویہ چاہتی ہیں کہ وہ خوب صورت ہو، نہ زیادہ موٹی ہو، نہ کمزوربدن والی ہو، قد اس کاچھوٹاہو
چھوٹی بھانجی: قداس کابڑا ہویاچھوٹاہو وہ بس وہ خوب صورت ہو
بڑے سے چھوٹا بیٹا: ہمارے پیارے نبی کریم نے بھی توشادیاں کی ہیں کیاکوئی بتاسکتا ہے کہ پیارے نبی کی کس زوجہ محترمہ کی ملازمت تھی
سب سے چھوٹابیٹا: اورجہیزبھی توکسی کانہیں تھا
چھوٹے سے بڑابیٹا: اورپیارے نبی کی تین بیٹیوں کابھی توجہیزنہیں تھا
بچوں کاباپ: تمہیں یہ بات کس نے بتائی ہے۔
سب سے چھوٹا بیٹا: ابو ! شادی آسان کروتحریک کابھی یہی پیغام ہے کہ امہات الموئمنین اور نبی کریم کی تین بیٹیوں میں سے کسی کاجہیز نہیں،
چھوٹے سے بڑا بیٹا: شادی آسان کروتحریک کایہ سوال بھی ہے کہ جہیزکے بغیرامہات الموئمنین اورنبی کریم کی بیٹیوں کی شادیاں ہوسکتی ہیں توموجودہ دورمیں کیوں نہیں
بڑے سے چھوٹابیٹا: اس لیے تو ہم کہتے ہیں کہ ہمیں جہیزکے چکروں میں نہیں پڑناچاہیے ہمیں شادیاں اس طرح کرنی چاہییں جس طرح پیارے نبی اورصحابہ کرام نے کی ہیں۔
بچوں کی ماں: اب زمانہ بدل گیا ہے۔
بچوں کاباپ: زمانہ بدل گیا ہے۔ اسلام نہیں بدلا، نبی کریم کے فرمان اورسنت مبارکہ نہیں بدلی ۔
بچوں کی خالہ: ہم اب بھی اپنی شادیاں نبی اکرم کی تعلیمات پرعمل کرتے ہوئے کرسکتے ہیں۔
بچوں کی پھوپھی: جس کی شادی کرنی ہے اس سے توکسی نے نہیں پوچھا کہ وہ کس طرح کی دلہن چاہتا ہے وہ توموبائل میں ہی مصروف ہے ایسالگتاہے وہ ہماری باتیں سن بھی نہیں رہا۔
بچوں کاباپ: بڑے بیٹے سے بیٹاتم بھی توبتاؤ تم کیاچاہتے ہو۔
بڑابیٹا: میں کیابتاؤں، جوآپ کی پسندہے وہی میری پسندہے
بچوں کاباپ : شاباش میرابیٹا شاباش : مجھے ایسے ہی جواب کی توقع تھی، ہمارے دین اسلام نے دولہااوردلہن کواپنی پسندکاپوراحق دیا ہے۔ زندگی بھی تم نے گزارنی ہے بتاؤتمہاری پسندکیاہے۔
بڑابیٹا: نبی کریم کے ایک صحابی کسی گھرکے پاس سے گزررہے تھے کہ اس گھرمیں ماں اپنی بیٹی سے کہہ رہی تھی کہ دودھ میں پانی ملادو، بیٹی کہہ رہی تھی کہ خلیفہ نے دودھ میں پانی ملانے سے منع کیا ہے توماں کہہ رہی تھی کہ خلیفہ دیکھ تونہیں رہا بیٹی کہہ رہی تھی کہ اللہ تودیکھ رہاہے ، خلیفہ نے اپنے بیٹے کے لیے اس لڑکی کارشتہ مانگ لیا
بچوں کی خالہ: میرے بھانجے کوباکردارلڑکی پسندہے
بڑابیٹا: میں چاہتاہوں کہ میری شادی ایسی لڑکی سے ہو جواپنے ساس ،سسرکو اپنے والدین کی طرح سمجھے
اوراپنے شوہرکوبھائی ۔۔۔۔ سب سے چھوٹے بیٹے نے ہنستے ہوئے کہا
بچوں کی پھوپھی: یہ کیاکہہ دیا ، شوہر اورہوتا ہے اوربھائی اور
چھوٹے سے بڑابیٹا: اس کامطلب یہ بھی توہوسکتا ہے کہ ہمارے بھائی کی دلہن جس طرح اپنے بھائیوں کی عزت کرتی ہو اپنے شوہرکی بھی اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ عزت کرے
بچوں کی خالہ: بھانجے اوربتاؤ تم کیسی دلہن چاہتے ہو۔
بڑا بیٹا: لڑکی ہوتوایسی ہو، اپنے ساس، سسر، شوہر کی عزت کرے، اسے بات کرنے کاسلیقہ آتاہو، گھرکے کام کاج کرسکتی ہو، لذیذ کھانے پکاسکتی ہو، بات کرنابھی جانتی ہو اورسننابھی جانتی ہو، نماز روزے کی پابندہو، پردہ کرنے میں خوشی محسوس کرتی ہو، نفع نقصان کااس کوشعورہو، گھرکی آمدنی کے مطابق اخراجات کرناجانتی ہو فضول خرچ نہ ہو، گھرکے رازوں کوفاش نہ کرنے والی ہو، شوہرکوخوش رکھنے کافن جانتی ہو اوراس کے غصہ کوٹھنڈاکرنے کافن بھی جانتی ہو،
بچوں کاباپ: تم سے خوش رکھوگے، اس کی ضروریات اوراپنی آمدنی کے مطابق اس کی خواہشات پوری کرتے رہوگے ، بات بات پراس پرغصہ نہ اتاروگے تو وہ بھی تمہیں خوش رکھے گی۔
بچوں کی پھوپھی: میرے بھتیجے کی پسندتو سب سے بہتر ہے۔
بچوں کی خالہ: ایسی لڑکی اب کہاں ملے گی اب توماڈرن دورہے اورماڈرن لڑکیاں ہیں
بچوں کاباپ: مجھے یقین ہے ایسی لڑکی ضرورمل جائے گی ، اب رات کافی ہوچکی ہے ، اب سوجائیں ۔ یہ کہانی اس لیے ترتیب دی گئی ہے تاکہ یہ سمجھاجایاجاسکے کہ لڑکی کے انتخاب کے وقت اس کی کیاخوبیاں دیکھنی چاہییں۔

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 300726 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.