تحریر: معصومہ ارشاد
’’یہ بے چینی کب ختم ہوگی‘‘؟،دلنشین نے شکوہ کیا۔’’تیری یہ بے چینی اب ہم
سے بھی دیکھی نہیں جاتی‘‘،جیا کی ہمدردی پا کراس کی بے بس آنکھوں سے بہتی
آنسوں کی لڑی گالوں کو بھگو گئی۔ عورت نے گھر سے باہر نکلنے کی بات کی،تو
اسے آوارگی کا طعنہ ملا۔کچھ کر کے اپنی پہچان بنانی چاہی، توسنایا گیا کہ
عورت کفالت کی ذمے داری سے آزاد ہے۔آزادی سے جینے کا حق مانگا،تو اسے دائرہ
اسلام کی حدود بتائی گئیں۔اندر کی ساری بے چینی بے بسی بن کر ان الفاظ میں
دم توڑ گئی۔
’’دلنشیں!تم نے خوامخواہ ایک چھوٹی سی بات کو دل پر لے لیا ہے۔باپ اور
بھائی ہونے کے ناتے لڑکی کی زندگی کا ہر فیصلہ کرنے کا حق ہے ان کواورجیا
کی دلیل ابھی پوری بھی نہ ہوئی کہ دلنشیں بول پڑی،’’کوئی یہ تو بتاؤ۔کہاں
لکھا ہے یہ ،کہ حق کے نام پر عورت کو اس کی مرضی کے بغیر زبردستی کسی کے
ہاتھ بھی بھیڑ بکری کی طرح بیچ دو؟اور اگر دشمنی میں کوئی تیرے ہاتھ سے
مارا جائے تو غیرت کے نام پر گھر بیٹھی بہن یا بیٹی کو کاری کر کے مار
دو؟،وہ بلک اٹھی۔جذبات کی شدت نے آنسوں کو روانی بخشی۔اس نے جب سے شازی کی
موت کا سنا تھا وہ اسی صدمے کے زیر اثر تھی۔شازی اس کی بچپن کی سہیلی تھی۔
ابھی کچھ دن پہلے ہی تو وہ آئی تھی، اس کو اپنے بھائی کی بات پکی ہونے کی
خوشخبری سنانے۔بہت خوش تھی۔
اس نے بھائی کی شادی کو دھوم دھام سے منانے کے لیے ساری سہلیوں کو اکٹھا
کیا تھا۔جس دھام دھوم سے بہن نے بھائی کی شادی منائی تھی۔ بھائی نے بھی
اپنا فرض خوب نبھایا تھا۔اپنے زمینی تکرار کی وجہ سے دشمن کو مار کر قانون
کی سزا سے بچنے کے لیے غیرت کے نام پر گھر میں گھستے ہی بہن کو کاری کر کے
مار دیااور کاری کا الزام دے کرخوب دھوم سے اس کا جنازہ نکالااور باپ نے
جوان بیٹے کو جیل جانے سے بچانے کی خاطر معصوم سی بیٹی کی قربانی ہنس کر
قبول کر لی۔
’’الزام تراشی میں تو ان مرد حضرات نے حضرت بی بی عائشہ کو بھی نہیں بخشا
تھادلنشیں! جن کی صفائی میں سورہ نور کا نزول ہوا ہے۔ تو شازی بچاری تو
ویسے بھی ایک عام سی لڑکی تھی۔مگر جیا یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عورت کے لیے
محفوظ پناہ گاہ گھر کی چار دیواری ہی ہوتی ہے جس کا قرآن میں بھی حکم
ہے۔’’بے شک اﷲ رب العالمین نے اپنے قدرتی نظام کے تحت عورت کی حدود بتا دی
ہیں اور اس سے بھی انکار نہیں گھر ہی اس کے لیے محفوظ پناہ گاہ ہے بشرطیکہ
وہ گھر ہو ، جہاں اس کے ساتھ کسی قیدی کی طرح پیش نہ آیا جائے نہ ہی اپنی
انا کی جنگ جیتنے کے لیئے قربانی کا جانور سمجھا جائے‘‘،جیا کے سمجھانے پر
وہ چوٹ لگی شیرنی کی طرح بپھر گئی۔
’’ایک عورت کے لیے اس کے رشتوں سے زیادہ کچھ اہم نہیں وہ اس گھر میں بھی
خوش ہوتی ہے جہاں محبت اس کا مقدر نہ سہی مگر عزت کی نگاہ سے دیکھی جائے
اور رحم کی پناہ میں ہو۔اگر اس سے برداشت نہیں ہوتا نا تو وہ معاشرے کا یہ
دوہرا معیار ہی ہے جو ہر اسلامی نظریہ یاد رکھتا ہے۔مگر تب جب عورت حقوق کی
بات کرے اور جب خود کی باری آئے تو سب تعلیم اور تربیت کہیں بے بس کاری کی
طرح منہ تکتی رہ جاتی ہے۔ |