تجاوزات اور غریب کا تعلق

 کراچی میں تجاوزات کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن جاری ہے،اس آپریشن کا آغاز کراچی کے مرکز صدر اور ایمپرس مارکیٹ سے کیا گیا۔اب اس کا دائرہ وسیع کر کے شہر کے دیگر علاقوں میں بھی تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔ایمپرس کارکیٹ کے اندر اور اس کے اطراف تقریبًا تین ہزار کے قریب دُکانوں کو مسمار کر دیا گیا ،عمارت کے اندر ونی دُکانوں کو بھی تھوڑا گیا ۔ایمپرس مارکیٹ کی عمارت کے چاروں اطراف کی صفائی کی جا رہی ہے تاکہ اسے دُوبارہ اپنی قدیم حالت میں لایا جائے۔کہا جا رہا ہے کہ اس کے اطراف پارکس بنائے جائیں گے اور اس قدیم عمارت کو میوزم کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ ایمپرس مارکیٹ کو پاکستان کے پہلے شاپنگ مال کا درجہ حاصل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنگ آذادی 1857میں بغاوت کے الزام میں سزا پانے والے ہندوستانیوں کی تاریخ مٹانے کے لیے یہاں عمارت تعمیر کی گئی۔برتانوی راج میں قائم کی گئی یہ عمارت فن تعمیر کا ایک بہترین نمونہ ہے۔لیکن تجاوزات کے باعث اس عمارت کی خوبصورتی بوسیدہ ہوتی جارہی تھی،یہاں کے دُکانداروں کا کہنا ہے کہ جنرل ایوب خان کے دور میں پتھارے داروں کو ایمپرس مارکیٹ میں جگہ دی گئی۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ 1968سے اب تک کے تمام الاٹمنٹ پیپرز اور بینک کی رسیدیں ان کے پاس موجود ہیں ۔کے ایم سی نے قانونی کرایہ داروں کے ازالے کیلئے ایک کمیٹی بنالی ہے لیکن فی الحال تفصیلات سامنے نہیں آرہی۔

اب یہاں پر حکومت کے لئے کئی چیلنجز کا سامنا ہے لیکن حکومت ان مسائل سے نظریں چُرا رہی ہے،کیا یہ دُکانداران اس ملک کے باشندے نہیں کہ جو اتنے سختی سے ان سے پیش آرہے ہیں ؟ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے وہ عوام کی جان و مال دونوں کی حفاظت کرے،اگر یہ لوگ یہاں قابض بھی تھے تو ان کو پیار محبت سے متبادل قانونی جگہ یا مارکیٹ فراہم کر کے کاروبار کو دیوالیہ ہونے سے بچایا جا سکتا تھا،لیکن ایسا نہیں کیا گیا کیونکہ یہاں ایک غریب اور عام آدمی کا کاروبار تھا ۔اسی حوالے سے ایک نجی ٹی وی چینل پر سابق میئر کراچی مصطفی کمال سے بات ہو رہی تھی ۔ اینکر نے سوال کیا کہ آپ کے دور میں اتنے ترقیاتی کام ہوئے کیا تجاوزات کے خاتمے کے لیئے آپ نے کوئی کوشش نہیں کی ؟اس پر سابق میئر کراچی مصطفی کمال کا کہنا تھا کہ ان کے دور میں لیاری ایکسپرس وے کے لئے 28000گھر تھوڑے گئے لیکن کسی نے شور نہیں مچایا کیونکہ انہیں کُھلے آسمان تھلے نہیں چھوڑاگیا ان کو متبادل قانونی جگہ فراہم کی ،ان کے لیئے تین آبادیاں قائم کی گئیں،ہاکسبے ،اتحاد ٹاؤن اور سہراب گھوٹ ٹاؤن میں ان کو جگہ فراہم کی ۔اس کے علاوہ مزار قائد کے پھیچے لایئنز ایریا کو صاف کرایا گیا جس میں 1245مکانات تھے جو کہ پچاس سالوں سے رہ رہے تھے لیکن کوئی شور شرابہ نہیں ہوا ، ان کو ری ہیبیلیٹیٹ کیا ، اس کے بعد کٹی پہاڑی بنائی جہاں 175گھر تھے ، ان کو نئی قانونی جگہ فراہم کی ۔ان کا مزید کہنا تھا کے ریاست ماں جیسا سلوک کرتی ہے وہ اپنے بچوں کو کھلے آسمان تھلے نہیں چھوڑتی ،۔ حکومت کو بھی چاہیئے کہ ان کو الٹرنیٹ جگہ فراہم کرے۔ تا کہ مسائل بڑیں نہیں بلکہ کم ہوں۔

سابق میئر کراچی کی بات کو شامل کرنا اس لیئے ضروری تھا کیونکہ انہوں نے ان غریب دُکانداروں کو متبادل جگہ فراہم کر نے پر زور دیا ، ان کا اور کوئی چارہ نہیں ،بیروزگاری اور مہنگائی عروج پر ہے ایسے حالات میں اپنے ملک کے ایک غریب طبقے کو یوں تنہا چھوڑ دینا ۔ یہاں کے دُکانداران کا بھی یہی شکوہ ہے کہ ان کو اتنی مُہلت نہیں دی گئی کہ اپنا سامان سمیٹ لیں ،ان کا کہنا تھا یہاں چالیس ،پنتالیس سال سے کرایہ اور بل باقائدگی سے دے رہے تھے۔انکا کاروبار یہاں چل رہا ہے ،کسٹمر بھی بن گئے ہیں اب اک دم سے کاروبار بند ہو گیا ہے ۔
اب شہر کے دیگر چھوٹے بڑے علاقوں میں تجاوزات کے خلاف آپریشن نے زور پکڑ ھ لیا ہے،گلی کو چھوں اور سڑک کے دائیں بائیں دُکانوں نے اپنی دُکان کے گِرل وغیرہ ہٹانے کا کام شروع کر دئے ہیں ۔ معاشرے کا ایک عام آدمی اس آپریشن سے متاثر تو ہو رہا ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس آپریشن کا دائرہ کار بااثر لوگوں تک بھی پہنچھتا ہے کہ نہیں ۔ہمیشہ سے ہمارے ملک میں یہی چلتا آرہا ہے کہ یہاں ایک غریب ،عام آدمی اور مزدور کش افراد ہی متاثر ہوتے ہیں ۔

یہ حکومت عوام میں ایک اُمید کی کرن بن کر آئی تھی ، پچاس لاکھ گھر بنانے سے پہلے کتنے گھروں کا ذریعہ آمدن بند ہو گیا ہے ، اس حوالے سے میں نے اپنے محلے میں ایک کرایہ دار فرد سے کہا کہ آپ دس سالوں سے یہاں کرایہ پر رہ رہے ہیں آپ نئی حکومت کے اپنا گھر سکیم میں حصہ کیوں نہیں لے لیتے ؟اس کا جواب اس فرد نے انتہائی عاجزانہ انداز میں دیاکہ،پہلی بات وہ گھر فی الحال کراچی میں نہیں دے رہے،چونکہ روزگار کراچی میں لگا ہوا ہے تو کراچی کو نہیں چھوڑ سکتے، اور دوسری بات اس سکیم میں گھر حاصل کرنے کے لیئے بھی لاکھوں روپے درکار ہونگے جو کہ میرے پاس اتنے پیسے نہیں ، ماہانہ تنخوا میں بس اتنا ہو جاتا ہے کہ بچوں کی اسکول کی فیس، گھر کا کرایہ اور راشن وغیرہ آجاتا ہے۔

اس کا مطلب یہ پچاس لاکھ گھر کی سکیم بھی اس معاشرے کے غریب اور مزدور طبقے کو فائدہ نہیں پہنچا رہا۔اور اس کے اُپر تجاوزات کی آڑ میں ایک عام آدمی کے کاروبارکونقصان پہنچایا جارہا ہے۔ کراچی شہر جو کہ تقریبًاڈائی کروڑ کی آبادی والا شہر ہے ، پورے ملک کے لئے کاروبار کا گڑھ سمجھاجاتا ہے،یہاں کی گراؤنڈ ریئلیٹیز کچھ الگ ہیں ،یہاں دُکاندار جب ایک دُکان کرایہ پر لیتا ہے تو اپنے اُپر کرایہ کا بھوج کم کرنے کے لیئے وہ کسی ٹھیلے والے کو اپنی دُکان کے سامنے جگہ دیتا ہے تاکہ ٹھیلے والے سے ایک دو پیسے مل جائیں،اور ٹھیلے والا بھی یقینًا ایک غریب آدمی ہوتا ہے جو اپنے پل ، سبزی ،چھولے یا چھوٹے موٹے سامان کے لیئے مہنگے دام پر کرایہ کی دُکان نہیں لے سکتا ۔اسی وجہ سے مختلف چھوٹے مارکیٹوں میں رش لگا رہتا ہے، روڈ پر ٹریفک جام کا مسئلہ رہتا ہے اور عوام کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔لیکن ایک غریب آدمی اور کیا کرے اُس کی بھی مجبوری ہے اُس کا بھی یہی شوق ہوگا کہ کسی شاپنگ مال میں اس کی دُکان ہو لیکن وہ حالات کی وجہ سے مجبور ہے ۔ ان صورتحال میں ان کے لیئے ٹھوس اور مربوط نظام بنانا چاہیئے،تا کہ ان کو بھی قانونی حیثیت ملے اور اپنا کاروبار چلا سکیں۔

Muhammad Zishan
About the Author: Muhammad Zishan Read More Articles by Muhammad Zishan: 5 Articles with 4635 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.