ایک ایساخطرناک مرض ۔۔۔ جس کافوری علاج وقت کاتقاضہ بھی
ہے۔۔۔ اورمعاشرے کی ضرورت بھی ۔۔۔
امریکامیں نائن الیون کے بعد اس مرض نے کینسرکاروپ دھارلیا۔۔۔ یوں توپوری
دنیاہی دہشتگردی کے عفریت سے نہ بچ پائی ۔۔۔ مگرپاکستان ان چندممالک میں
شامل ہے۔۔۔ جس نے دہشتگردی کے خلاف جنگ کی بھاری قیمت چکائی ۔۔۔ لاکھوں
افرادشہیدہوئے۔۔۔ معیشت کوناقابل تلافی نقصان پہنچا۔۔ ہمارے کھیلوں کے
میدان ویران ہوگئے۔۔۔ سرمایہ کاربوریابسترسمیٹ کرچلتے بنے۔۔۔
معاشرے میں بڑؑھتی انتہاپسندی کارجحان ۔۔۔ اسی دہشتگردی کاشاخسانہ ہے۔۔۔۔
جنگلوں پہاڑوں میں پروان چڑھتایہ رجحان ۔۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے شہروں
اوردیہات میں جڑیں پکڑنے لگا۔۔۔۔ خود کش حملے۔۔۔ بم دھماکے۔۔۔۔ اورنہ جانے
کیسے کیسے روپ دھارکراس نے ہمیں نقصان پہنچایا۔۔
یوں توپوری قوم ہی اس کانشانہ بنی ۔۔۔ مگراس رجحان نے فوکس ہماری نئی نسل
کوکیا۔۔۔ دشمن نے کبھی آرمی پبلک اسکول میں خون کی ہولی کھیلی ۔۔۔ توکبھی
کسی دوسری درسگاہ کونشانہ بنایا۔۔۔ مگرقوم کے حوصلے کوپست نہ کرسکا۔۔۔۔
کبھی اس کاسامناہمارے شیرجوانوں سے ہوا۔۔۔ توکبھی بارہ سالہ اعزازاحسن اس
کی راہ کی دیوارثابت ہوا۔۔۔
رفتہ رفتہ ہماری درسگاہوں میں انتہاپسندی کوفروغ ملنے لگا۔۔۔ کئی بڑی
کارروائیوں میں پکڑے جانے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادنکلے ۔۔۔ پڑھے لکھے
نوجوانوں میں دہشتگردی کارجحان ویک اپ کال تھی ۔۔۔ جس نے ہمارے معاشرے
کوجھنجھوڑکررکھ دیا۔۔۔
دہستگردی کے خلاف جاری کامیاب آپریشن نے دہشتگردوں کی کمرتوتوڑدی ہے۔۔۔ ان
کی کارروائیاں بھی محدودہوچکی ہیں ۔۔۔ جس زمین پریہ لوگ فساد برپاکرتے تھے
۔۔۔ آج اسی زمین پرانہیں چھپنے کی جگہ تک میسرنہیں ۔۔۔ پھربھی دہشتگردی کی
سوچ موجود ہے۔۔۔ انتہاپسندانہ نظریہ اب بھی زندہ ہے۔۔۔ یہ رجحان
وقتافوقتااپنارنگ دکھاتارہتاہے۔۔
والدین کواپناکردارنبھاناہوگا۔۔۔ اپنی نسل کواس کینسرسے بچاناہوگا۔۔۔
یادرکھئے ۔۔۔نوجوان نسل وہ کوراکاغذ ہے۔۔۔ جس پرکوئی کچھ
بھی لکھ سکتاہے۔۔۔ اس کاغذ پرانتہاپسندی کالفظ تحریرہونے سے بچاناوالدین کی
ذمہ داری ہے۔۔۔
اسی میں دہشتگردوں کی ہارہے۔۔۔ اسی میں انتہاپسندی کی شکست ہے۔۔۔ اوریہی اس
خطرناک مرض کاموثرعلاج بھی ہے
|