جیسا کہ میرے عنوان کا نام ـ" میری ڈگری جلا دو " اس کو
پڑھ کر ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ ڈگری صرف ایک ردی پیپر ہے۔ جیسا کہ
پاکستان کا حال دیکھا جا رہا ہے ۔ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں کہ ایک بچہ
تین سال کی عمر میں اسکول جانا شروع کرتا ہے اور تقریباً پچیس سال کی عمر
میں وہ اپنی پڑھائی کو نتیجہ خیز تک پہنچا تا ہے اس دوران اس بچے کے والدین
نے اسکی تعلیم و تربیت کے لیئے بہت تکلیفیں کاٹی ہوتی ہیں اور بہت سارا
پیسہ خرچ کیا ہوتا ہے۔ اپنی آنکھوں میں بہت سارے خواب سجا ئے ہوتے ہیں کہ
بیٹا پڑھ لکھ کر بڑا افسر بنے گا انجینئر بنے گا ڈاکٹر بنے گا وغیرہ وغیرہ۔
لیکن بہت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوتا کیونکہ جب
اپنی ڈگری لے کر کسی اچھے ادارے میں نوکری کی تلاش میں جاتا ہے تو سوائے
مایوسی کے کچھ نہیں ملتا۔ کیونکہ وہاں سب سے پہلے سوال یہ کیا جاتا ہے کہ
تجربہ کتنا ہے ؟ کوئی شفارش ہے؟ کیونکہ ہمارے معاشرے میں مروجہ بات آم ہے
کہ جس کی سفارش ہوتی ہے یا رشوت دینے کی ہمت ہوتی ہے اسی کو نوکری دی جاتی
ہے ۔ باقی ہونہار پڑھے لکھے طلبہ و طلبات کی ڈگریوں کو پسے پشت ڈال دیا
جاتا ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ آپ کی قابلیت اور ڈگریوں کی ہماری نظر
میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔
میں انتہائی افسوس کے ساتھ کہہ رہی ہوں کہ پاکستانی قوم صرف اور صرف رشوت
پر انحصار کرتی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستانی قوم دوسری قوموں سے کمتر ہے
کیونکہ اگر دوسری قوموں کی بات کی جائے تو وہاں پر صرف انسان کی قابلیت کی
اہمیت ہوتی ہے لیکن پاکستان میں قابلیت کا کوئی مول نہیں اسی لیئے میں کہتی
ہوں کہ ـ
" میری ڈگریاں جلا دوـ"
"کھڑا ہوں آ ج بھی روٹی کے چار حرف لئے
سوال یہ ہے کہ کتابوں نے کیا دیا مجھ کوـ" |