انعم ثناء
فیشن آج کل کے انسان کے لیے لازمی جز بن گیا ہے۔گھر ہو یا کالج ،آفس ہو یا
یونیورسٹی ،شادی ہو یا فوتگی پارٹی ہو یا میلاد ہر جگہ فیشن کا خاص خیال
رکھا جاتا ہے۔نوجوان نسل میں سجنے سنوارنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔آج ہم
نے اپنی اصل پہچان کو کھو دیا ہے اپنے اوپر فیشن کا خول چڑھا لیا ہے۔نت نئے
اور مہنگے لباس زیب تن کرنا امیری کی نشانی بن چکی ہے۔فیشن ایبل نظر آنے
میں لڑکے بھی لڑکیوں سے پیچھے نہیں ہیں۔وہ جن کے گھر کے مالی حالت ٹھیک
نہیں ہیں وہ لوگ بھی فیشن کی تکمیل کے لیے اپنی ضروریات کو نظر انداز کر
دیتے ہیں لیکن فیشن کو ترک نہیں کرتے ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ ضروریات زندگی
بھی بھڑتی جا رہی ہیں جہاں دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہے وہاں فیشن کو
پورا کرنے کے لیے پیسے نکال ہی لیے جاتے ہیں۔بہت سی لڑکیاں صرف اپنا فیشن
کی تکمیل کے لیے نوکری کررہی ہوتی ہیں۔
آج کل کے دور میں اگر کسی تقریب میں جانا ہو تو مہینے پہلے ہی اس کی تیاری
ذہن میں گھومنے لگتی ہے۔پوری کوشش ہوتی ہے کہ ایسا لباس زیب تن کیا جائے جو
پہلے کسی نے نہ دیکھا ہو ،پھر اس کے ساتھ میچنگ جیولری بھی ہونی چاہیے پھر
جوتے وغیرہ سب کچھ پہلے ہی تیار کر لیے جاتے ہیں۔آج کل مہمان کی خاطرو
تواضع بھی اس کی حیثیت دیکھ کرہی کی جاتی ہے۔برانڈڈ کپڑے پہنا ،برانڈڈ جوتے
پہنا تو اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتا ہے۔کپڑوں،جوتے یا دوسری چیزوں کے لیے
بڑے بڑے اداکاروں کو استعمال کیا جاتا ہے جس سے لوگ ان کی طرف متوجہ ہوتے
ہیں۔
نوجوان نسل ٹی وی پر نظر آنے والے اداکاروں کو دیکھ کر ان کی طرح بننے کی
کوشش کرتے ہیں جب کہ یہ سراسر غلط ہے ۔کوئی بھی انسان کسی دوسرے انسان کی
طرح نہیں بن سکتا ہے ۔ہر انسان کی ایک اپنی الگ پہچان ہوتی ہے جس سے سے وہ
باقی سب سے الگ لگتا ہے لیکن آج کل لوگوں نے نقالی کو اپنا لیا ہے۔پھر لوگ
کہتے ہیں کہ یہ لوگ ایسے کپڑے کیوں پہنتے ہیں ایسے گھر کیوں دکھاتے ہیں تو
اس کا جواب بس اتنا ہے کہ اگر یہ لوگ اچھے کپڑے نہیں پہنیں گے تو لوگ ان کی
طرف متوجہ کیسے ہوں گے اگر یہ خوبصورت جگہ ،گھر نہیں دکھائیں گے تو لوگ
کیوں انہیں دیکھیں گے۔یہ تو ان لوگوں کا کام کا حصہ ہے اور انہیں پیسے ہی
اسی چیز کے ملتے ہیں۔
غریب گھرانے کی لڑکیاں جب اپنی ساتھی لڑکیوں کو روزانہ یوں نت نئے لباس زیب
تن کیے دیکھتی ہیں تو وہ بھی خواہش کرتی ہیں کہ وہ بھی ان جیسی ہوں اور کچھ
لڑکیاں اپنی اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے غلط راہ پر چل پڑتی ہیں اور اپنا
نقصان کروا بیٹھتی ہیں۔اپنے آپ کو سنوارنے کے علاوہ گھروں کو بھی نت نئے
انداز سے سنوارنا بھی ایک ٹرینڈ بنتا جا رہا ہے۔مہنگا فرنیچر ، پردے وغیرہ
گھروں کی آرائش کے لیے استعمال کئے جا رہے ہیں ۔گھروں کی آرائش کے لیے پیسہ
پانی کی طرح بہا جا رہا ہے۔آج کل اپنی چیزوں کی نمائش کرنا عام ہوتا جا رہا
ہے دولت کی حوس اور دوسروں کی نقالی کرنا بھی دن با دن بڑھتا جا رہا ہے۔پھر
لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے چہروں پر نور نہیں ہے تو نور کیسے ہو گا جب ہم نے
اپنے اوپر فیشن کا خول چڑھا رکھا ہے۔
ہم کیسے مسلمان ہیں؟ جو دوسروں کی نقالی کر کے خوش ہو رہے ہیں۔آپﷺ نے تو
ہمیشہ سادگی اپنائی اور اپنی زندگی بھی سادگی سے گزاری ہے۔سادگی کا تعلق تو
ایمان سے ہے۔سادگی بذات خود حسن ہے۔سادگی میں رہنے والا انسان اپنے اوپر
فیشن کا خول چڑھانے والے انسان سے کئی گنا زیادہ بہتر ہے۔تو کیا فائدہ اس
عارضی ،وقتی اور یکلخت ٹوٹ جانے والی چیز پر اپنا وقت ،پیسہ اور قوت صرف
کرنے کا ۔ہاں ! جو پائیدار ہے ،ہمیشہ رہنے والی ،اس کے لیے پیسہ ،وقت اور
توانائی خرچ کرنا عقل مندی ہے۔بس ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ کنول کا پھول
جتنا کیچڑ میں اچھا لگتا ہے اتنا کسی گلدان میں نہیں۔
|