خانہ بدوشوں کی دنیا

خانہ بدوش قبائل بھی قدیم قبائل میں شمار ہوتے ہیں تاہم ان قبائل کو باقائدہ قوم ہونے کا درجہ حاصل نہ ہو سکے ماضی قدیم میں خانہ بدوش کی شاخیں قبل مسیح میں حضرت یقوب ؑ کے دور میں بھی ملتی ہیں جن سے یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں رہ جاتا کہ خانہ بدوش قبائل کی تاریخ کس قدر قدیم ہے یہ قبائل دنیا بھر میں آباد ہیں اور آج بھی روزوال کی طرح سردیوں،گرمیوں،بارش ، آندھیوں میں اپنے دن رات بغیر کسی چار دیورای کے کھلے آسمان تلے گزار رہے ہیں۔

پاکستان میں خانہ بدوشوں کی بڑھتی ہوئی تعداد

خانہ بدوش قبائل بھی قدیم قبائل میں شمار ہوتے ہیں تاہم ان قبائل کو باقائدہ قوم ہونے کا درجہ حاصل نہ ہو سکے ماضی قدیم میں خانہ بدوش کی شاخیں قبل مسیح میں حضرت یقوب ؑ کے دور میں بھی ملتی ہیں جن سے یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں رہ جاتا کہ خانہ بدوش قبائل کی تاریخ کس قدر قدیم ہے یہ قبائل دنیا بھر میں آباد ہیں اور آج بھی روزوال کی طرح سردیوں،گرمیوں،بارش ، آندھیوں میں اپنے دن رات بغیر کسی چار دیورای کے کھلے آسمان تلے گزار رہے ہیں وہی گندگی کے ڈھیر ،گندے پانی کے جوہڑ جن کے قریب یہ اپنے عارضی بنائے جھونپڑوں میں مقیم ہیں یہی ان کی مسکن اور یہی ان کی اساس ہے مقامی سطح پر تقریبا چالیس پینتالیس سال قبل یہ خانہ بدوش قبائل اپنی محنت ،ہنر مندی میں اپنی مثال آپ تھے ان قبائل کی خواتین گھروں میں استعمال ہونے والی بیسوں چیزیں جو تہذیب وتمدن کی عکاسی کرتی تھیں خود اپنے ہاتھوں تیار کرتیں اور مرد حضرات انھیں گلیوں محلوں میں پھیری لگا کر فروخت کرتے ان کے اس کام میں ان کے بچے بھی ان کے بھرپور معاون رہتے اور یوں یہ لوگ اپنی گزراوقات کرتے ایک اور خاص بات جو ان میں انکی ذہانت کا منہ بولتا ثبوت وہ یہ تھی یہ لوگ اپنے جھونپڑوں کے نزدیکی بنگلوں اور متوسط آبادیوں میں جا کر پتلی تماشا کا اہتمام کرتے بلکہ اپنے ان پیش کردہ کھیل خاکوں کے ذریعے بادشاہوں ،بزرگوں اور تاریخی واقعات کو اس طرح پیش کرتے کہ معصوم بچے مہینوں اپنے بزرگوں سے ان کہانیوں ،قصوں اور تاریخی واقعات کے بارے میں معلومات حاصل کر تے رہتے اور اپنی انہی کردار وں اور حوالوں سے قبائل پر عمومی طور پر کسی کو انگشت زنی کا موقع نہ ملتا مگر جو ہم نے سنا ہے کہ انسان اپنی تقدیر خود بدلتاہے اب اگر ماضی اور حال کے تنا ظر میں خانہ بدوش قبائل کاایک تجزیہ کیا جائے تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ موجود حالات میں نظر آنے والے لوگ در حقیقت خانہ بدوش نہیں ہیں کیوں کہ یہ قبیلہ رہن سہن اپنے طور اطوار اور اپنی تہذیب وثقافت کا امین ہوتا ہے جو آج کے دور میں ا ن لو گوں میں نام کو بھی نہیں خانہ بدوش لوگ اپنی تہذیب وتمدن اور ثقافت کے نمونے خود اپنے ہاتھوں تیار کرتی ہیں جن سے ان کے آبائی ہنر کا احساس ہوتا تھا جو آج نام کو بھی نہیں یہ کہنا غلط ہے کہ زمانہ یا سائنس اس قدر ترقی کر چکا ہے کہ آج ان چیزوں کی ضرورت نہیں جو یہ ہاتھ سے تیار کر کے فروخت تھے یا آج ہمارے گلی محلوں میں پتلی تماشوں کی ضرورت نہیں کیوں کہ آج بھی طبقاتی طور پر اگر جائزہ لیں تو جہ چیز یہ لوگ ہاتھ سے تیار کرتے تھے ان کی ضرورت آج بھی اتنی ہی ہے جتنی ماضی میں تھی فرق صرف یہ رہا اب وہی چیز روز مرہ استعمال کے بجائے ہمارے عالیشان بنگلوں کے ڈرائنگ رومز اور دیواروں پر آویزاں کر کے ثقافت اور تہذیب کو دوبالا کرتی ہیں اور لوگ شوق سے خرید کر کے گھروں کی سجاوٹ اور شان میں اضافہ کر تے ہیں دوسری طرف پتلی تماشا کو لیا جائے تو یہ کھیل بلحاظ وقت ایک انتہائی تعلیم یافتہ اور مالدار طبقے میں چلا گیا ہے مگر اس کے باوجود ہمارا یہ مالدار اور تعلیم یافتہ طبقہ اپنے ان پپٹ شوز یا پتلی تماشوں میں اپنی روایت اور اپنی تہذیب کو زندہ رکھنے میں بری طرح ناکام ہے جب کہ وہ غیر قوموں اور غیر تہذیبوں کی نمایندگی کرتانظر آتا ہے ستم ظریفی کی یہ بات ہے کہ ہماری سابق اور موجودہ تمام حکومتوں نے ایسے ہی گروہوں کی پرستی کر کے انہیں مزید مراعات سے نواز کر پرموٹ تو کیا ہے مگر اپنی تہذیب اور ثقافت کے فروغ کے لئے نہیں جب کے اگر یہی مراعات اور چند نوازشات ماضی کے ان آرگنائزڈخانہ بدوش قبیلوں کو بھی دی جاتیں تو یقیناًوہ لوگ اپنے ان پتلی تماشوں میں مزید نکھار پیدا کرتے مگر ہر حکومت نے اپنے منشوراور ایجنڈے کی تکمیل کے لئے ملک سے غربت کے خاتمے کے بجائے غریبوں کے خاتمے کی طرف زیادہ توجہ دی اور انہی امتیازی رویوں کا رزلٹ آج قوم کو دیکھنا اور سہنا پڑ رہا ہے عصر حاضر میں خانہ بدوشوں کی موجودہ زندگی پر اگر ایک بھر پور نگاہ ڈالی جائے تو ماضی اور حال میں واضح فرق کو بہ آسانی محسوس کیا جاسکتا آج کے خانہ بدوش طبقوں میں دور تک ماضی کے رنگ وروپ کی جھلک تک بھی نہیں دیکھی جا سکتی بلکہ ان طبقوں میں علم وہنر اور اخلاقیات کے بجائے چوری چکاری منشیات فروشی اور منشیات کا استعمال،جیب تراشی،ڈکیٹی جب کہ خواتین میں چوری چکاری اور منشیات فروشی کے ساتھ ساتھ جسم فروشی جیسا انتہائی گھناؤنا فعل بھی نوعیت کے زمرے میں شمار ہوتا ہے معاشرتی اعتبار سے ان خانہ بدوشوں کا عام شہریوں سے کوئی خاص تعلق واسطہ رشتہ تو ہوتا نہیں اس لئے معاشرتی قدروں کا انہیں احساس تک نہیں ہوتا اسی لیے یہ بات آج یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اب ماضی کے وہ خانہ بدوش موجود ہی نہیں جنہوں نے اپنی تہذیب ،ثقافت،کو زندہ رکھا ہوا تھا آج تو خانہ بدوش کے نام پر بھکاریوں کی ایک اکثریت موجود ہے جو کہ رمضان المبارک میں ایک شہر سے دوسرے شہر کی جانب ہجرت کرتے ہیں اور شہر کی اہم شاہراہوں ،عمارتوں کے آگے اپنی کٹیا سجا لیتے ہیں جہاں وہ دن کے اوقات میں آرام کرتے ہیں جبکہ رات کے اوقات میں ان کے مرد خواتین اور بچے شہر کے اہم تجارتی مراکز اور گھروں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں اوصاف نے اسی سلسلے کے طور پر سیزن کی کمائی کے لیے آنے والے خانہ بدوشوں اور گداگروں کے عارضی ٹھکانے جو کہ ہر سال ریڈیو پاکستان ،این جے وی اسکول ،کینٹ اسٹیشن ،نیپا چورنگی،ناظم آباد ،لائنز ایریا ٹیلیفون ایکسچینج و دیگر عارضی بستیوں کا ایک سروے کیا تو ان تمام ٹھکانوں پر آنے والوں نے پھٹے پرانے کپڑوں سے اپنے سروں پر چھت بنا رکھی تھی اور ایک ہی چھت کے نیچے ایک ہی بستر پر کئی کئی افراد جن میں خواتین بچے مرد شامل تھے آرام کرتے نظر آئے اور اسی ایک چھت کے نیچے انہوں نے کھانے پکانے اور گندگی غلاظت کے لیے جگا بنا رکھی تھی اوصاف نے جب اس سلسلے میں ان عارضی ٹھکانوں پر لوگوں سے بات چیت کی تو لودھراں سے آنے والے محمد ریاض،محمد فیاض روہڑی سے آنے والے کریشن نواب شاہ اور سکھر سے آنے والے محمد جواد ،رحیم بخش نے اوصاف سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ان کا رکھ رکھاؤ جو کہ خانہ بدوشوں کی طرح نظر آتا ہے اصل میں وہ نہیں کراچی میں آنے والے تما م لوگوں کو روزی روٹی کی مجبوری یہاں کھینچ لائی ہے جو کہ وہ ان علاقوں سے آئے ہیں جہاں ماضی میں سیلاب نے تباہی پھیلائی تھی اور آج تک ان علاقوں میں سیلابی پانی بھی خوش نہیں ہوا اور نہ ہی حکومت کی جانب انہیں کسی قسم کی امداد مل رہی ہے جسے کے باعث وہ فاقوں سے تنگ آکر رمضان المبارک کے پہلے عشرے میں کراچی پہنچے ہیں جہاں مرد حضرات دن میں چائنا کھلونے فروخت کرتے ہیں جبکہ ان کی خواتین خیرات مانگتی ہیں ان کا کہنا یہ تھا کہ گو کہ محنت ،مشقت اور بھیک مانگنے کے باوجود انہیں پوری روٹی میسر نہیں آتی مگر اس کے باوجود وہ خوش ہیں ان کا کہنا یہ بھی تھا کہ یہ بستیاں ان کا عارضی ٹھکانہ ہیں جہاں سے وہ عید کے چوتھے روز ہجرت کر کے دوبارہ اپنے علاقوں کی جانب لوٹ جائیں گے ۔

خانہ بدوش یا سیلاب زدگان
اوصاف کی جانب سے عارضی طور پر خیمہ بستیاں بنا کر رہائش اختیار کرنے والے مرد و خواتین کا کہنا یہ تھا کہ وہ خانہ بدوش نہیں ان کے سندھ کے دیہی علاقوں میں ذاتی گھر اور کھیت تھے جوکہ سیلاب کی تباہی کا شکار ہو گئے اور اسی تباہی اور حکومت کی امداد نہ ملنے کے سبب آج وہ در در کی ٹھوکریں کھا کر خانہ بدوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

خانہ بدوشوں کے جلتے چولہے
خانہ بدوش خواتین جو کہ محنت مشقت میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں دن بھر محنت مشقت اور خیرات کے کام سے واپس آنے کے بعد شہر کراچی کی اہم شاہراہوں پر لکڑی کے چولہے جلا کر اپنے خاندان کا کھانا خود تیار کرتی ہیں جس میں زیادہ تر سبزیاں اور دال پکائی جاتی ہے جسے پورا خاندان ساتھ بیٹھ کر کھاتا ہے ۔

خانہ بدوشوں کی آبادیوں سے مقامی آبادی کو خطرہ
شہر کراچی جہاں اس وقت خانہ بدوشوں نے حساس عمارتوں ،اہم شاہراہوں اوور ہیڈ برج و دیگر مقامات جن میں ریلوے پاکستان ،کینٹ اسٹیشن ،ٹیلیفون ایکسچینج و دیگر جگہوں پر جو ڈیرے ڈال رکھے ہیں ان سے ان اہم اور حساس عمارتوں کو شدید خطرہ لاحق ہے مقامی لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ خانہ بدوشوں کے لیے آبادیوں سے دور جگہیں مخصوص کیے جائیں تا کہ کوئی نا خوشگوار حادثہ رونما نہ سو سکے ۔

Mohsin BIn Rashid
About the Author: Mohsin BIn Rashid Read More Articles by Mohsin BIn Rashid: 3 Articles with 3527 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.