فی زمانہ بہت سارے امور کو چلاتے ہوئے ہم لوگ یکسر بھلا
دیتے ہیں کہ بچے جو ہمارا آج ہیں اور یقیناً "کل" بھی ہوں گے ان کی بہتر
تعلیم و تربیت کرنا والدین کی ذمہ داری ہے جو کہ وہ کسی اور کے "سر" ڈال کر
خود کو اس سے بری الذمہ کرلیتے ہیں، دیکھا گیا ہے کہ دینی گھرانوں میں دینی
تربیت کا خیال رکھ کر، عصری تعلیم سے دور اور دنیاوی قسم کے گھرانوں میں
دین سے دور رکھ کر بچوں کی دوڑ عصری تعلیم کی طرف لگوائی جاتی ہے. یہ دونوں
اِنتہائیں ہیں جن کا نتیجہ اکثر تو توقعات کے برعکس ہی نکلتا ہے.
میں نے اپنے کافی سارے دوستوں جن کے بچے بھی ہیں اسی دوغلی پالیسی پر عمل
پیرا ہوتے دیکھا ہے، وہ کہتے ہیں کہ بچوں کو ایک اچھا انسان ہونا چاہیے، ان
کی تربیت اچھی ہو، یہ اچھا مسلمان بنیں، اور اسی طرح بہت کچھ،چونکہ عمومی
ایسے گھرانوں سے ملاقات ہوتی ہے جہاں دین کو البتہ اہمیت دی جاتی ہے، یہ
اور بات ہے کہ یہ صرف باتوں میں ہوتا ہے.
یہ دوغلی پالیسی میں نے اس لیے کہا ہے کہ والدین سے جب بھی بچوں کے امور پر
بات چیت ہوئی. انھوں نے خواہش تو اچھا مسلمان کی کی، مگر ان کی شکایات صرف
یہی تھیں، بات نہیں مانتے، پڑھتے نہیں ہیں،تنگ کرتے ہیں، گریڈ بہت کم حاصل
کیا ہے، ہوم ورک، مدرسہ، بس ان کی ذمہ داری حصول تعلیم ہی تو ہے. وہ بھی
ٹھیک سے نہیں ادا کرتے تو کیا بنے گا ان کا وغیرہ وغیرہ
یہ بات یاد رہے کہ تربیت مستقل سیکھنے کی چیز ہے بہت سارے مسائل، امور،
باتیں، تجربہ اور وقت سکھاتا ہے، البتہ ہمیں کوشش ہر دم اور خواہش ہر لمحہ
کرنی چاہیے کہ ہمارے بچے اچھی تربیت کے حامل ہوں.
تربیت اولاد کے حوالہ سے ہمیں کن کن امور کا خیا رکھنا چاہیے... کچھ نکات
میری طرف سے.
نمبر1. تربیت کا مطلب لیکچر، جھاڑ، یوں کرو، ووں نہ کرو، وغیرہ یعنی صرف
بولنے اور سمجھا دینے کا نام نہیں ہے، ہر وہ امر جو بچہ دیکھ رہا ہے،سن رہا
ہے،اور مشاہدہ کے ذریعے محسوس کر رہا ہے. گھر ہو یا ادارہ، ماحول، کھیل
کود، کاروبار، غرض روزمرہ زندگی کے تمام معاملات، آپس کی گفتگو، اخبارات،
ٹی وی، کمپیوٹر، موبائل، گھریلو استعمال کی اشیاء، بچے کی چاہے وہ کسی بھی
عمر کا ہو اپنا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں تو چاہیے کہ اپنے ان تمام امور
میں تربیت کا اچھا انداز شامل کرلیں، احسان کریں، عدل کریں. آپ کے لیے یہ
یقیناً تھوڑا مشکل کام ہوگا مگر ہے تو قابل عمل.
نمبر2. تربیت کا مطلب یہ ہے کہ جو آپ چاہ رہے ہیں وہ آپ کی موجودگی میں تو
ہوتا ہی ہے. غیر موجودگی میں بھی ہو، یعنی ایک اچھی عادت کا بچوں اور بڑوں
میں یکساں مقبول ہوجانا یعنی کہ اگر آپ کبھی کسی الگ سی مصروفیت کی وجہ سے
کسی وقت کوئی کام بھول جائیں تو بچے اسے یاد کروا دیں. اس کے لیے کسی بھی
کام کو مستقل بنیادوں پر کرنا چاہیے. بھلے وہ کوئی بھی کام ہو.
نمبر3. تربیت کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ یہ بڑے ہوکر کرنے کا کام ہے یعنی
بچہ کو صرف کھیل کود میں لگا کر اس کا بچپن لاڈ و پیار میں لگا کر یہ بھول
جاتے ہیں کہ تربیت کے سنہری دن تو یہ ہیں. سمجھانے، سکھانے، اور خود کرکے
دکھانے کے کام کو پہلے اندر پختہ کریں. اس کے بعد جیسے ہی کوئی پھول اللہ
تعالیٰ عطا فرمائیں. اسی دن ہی سے تربیتی امور کو سرانجام دینے کی ہر سعی
کریں.
کیونکہ اگر آپ نے یہ دن ضائع کردیئے تو بعد میں تو صرف لکیر حدید کو ختم
کرنے والی بات ہوگی.
نمبر 4.تربیت کی ذمہ داری والدین پر ہے. والدین کا مطلب صرف والد جا صرف
والدہ نہیں یہ بچہ ان دونوں کے ملن سے ہی اس دنیا میں آیا ہے تو تربیت کا
ذمہ دار ایک فرد کیسے ہوسکتا ہے؟
سو والدین کو مل کر ہی یہ فریضہ انجام دینا چاہیے. کہا جاتا ہے کہ بچے کی
پہلی درسگاہ اس کی والدہ کی گود ہوتی ہے. اس کے باوجود والد کا بچوں پر نظر
رکھنا اود انھیں معاشرے کے امور سکھانا، ادب و آداب کی عملی مشق کروانا بہر
صورت بذمہ والد ہے.
نمبر 5. والدین کو صرف زبانی کلامی پریشان نہیں ہونا چاہیئے جبکہ پریشانی
در پریشانی یہ ہے کہ والدین اپنی خامی کو مانے بنا شور مچا ڈالتے ہیں کہ تم
لوگ کسی قابل نہیں ہو، کچھ کرتے ہی نہیں، تمھیں آتا کچھ نہیں ہے. حالانکہ
وہ بچہ وہیں پیدا ہوا ہے اور وہی ساری تربیت پا رہا ہے.
یاد رکھیے بچوں کو دوران تربیت جوش نہیں چاہیے. انھیں Hyper parenting کی
نہیں بلکہ effective parenting کی ضرورت ہوتی ہے. انتہائی نرم مزاج یا
انتہائی تند مزاج بننے کی بجائے درمیانی راہ یا وہ طریقہ اختیار کیجیے جو
مؤثر ہو یعنی اگر ایک معاملہ آسانی سے سلجھ سکتا ہے تو اسے سختی سے الجھانا
نہیں چاہیے.
میری آخری بات دنیا میں ہر اچھی بات کہی جاچکی ہے... بس اس پر عمل کرنا
باقی ہے.
امید ہے تربیت کے لیے یہ 5 امور آپ کے معاون و مددگار ہوں گے. اللہ ہم سب
کا حامی و ناصر ہو.
ابو حنظلہ |