پاکستان میں بڑھتی ہوئی بے حسی

کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی یافتہ نہیں کہلاتا جب تک اس میں بسنے والے لوگوں کے درمیان تعاون، محبت، احساس اور بھائی چارے جیسے اعلیٰ اوصاف موجود نہ ہوں۔پاکستان کا قیام ایک ایسے معاشرےکے حصول کی کوشش تھا جہاں تمام لوگ آزادی کے ساتھ اپنے اپنے مذہبی رجحانات کے مطابق زندگی بسر کریں۔جہاں خلوص محبت اور تعاون جیسے اوصاف موجود ہوں۔ مگر بدقسمتی سےہم پاکستان کو قائداعظم کا پاکستان بنانے میں ناکام رہے ہیں ایک اصول پسند رہنما کی قوم بے اصول ثابت ہوئی ہے۔

ہم آج ایک حجوم تو ہیں مگر ایک قوم نہیں بن سکے جن کا کوئی نصب العین نہیں ہوسکتا۔جو جہاں لے جاتا چاہیے وہ اس کے پیچھے پیچھے چل پڑتے ہیں یوں تو پاکستانی قوم بہت حد تک ذہنی پسماندگی کا شکار ہوچکی ہے۔جھوٹ، غیبت، بدعنوانی ، دھوکہ دہی جیسے اوصاف ہمارے معاشرے میں پروان چڑھ رہے ہیں۔مگر ہمارے معاشرے میں بےحسی کابڑھتا ہوارجحان سب سے خطرناک ہے۔ہم ایک ایسےنبی کی امت ہیں جو غیر مذاہب کے لوگوں کو تکلیف کو بھی دور کرنے میں کو شاں رہتے تھے۔مگر پھر بھی آج ہم کسی کو تڑپتا ہوا دیکھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں اور اس کے درد کو محسوس تک نہیں کرتے اور ہم ایک ہی جملہ کہتے ہیں کہ"ہمیں کیا "حالانکہ اس جملے کا اثر ہمارے اوپربھی اتنا ہی ہوتا ہے ۔مثلا ً اگر کوئی شخص بس ڈرائیور کی احتیاطی کی وجہ کسی حادثے کا شکار ہوجاتا ہے تو لوگ اسے نظر انداز کر کے ایسے چلے جاتے ہیں جیسے کچھ بھی نہیں ہو ا۔ہم اپنےآپ کو تعلیم یافتہ کہتے ہیں مگر ہمارا رویہ اس کے بالکل مخالف ہے۔ دنیا کا ہر معاشرہ اپنے عمر رسیدہ افراد کی فلاح و بہبود پر کام کرتا ہے۔ مثلاًمفت صحت کی سہولتیں، بس کے کرائے میں کٹوتی، پینشن کا اجراء وغیرہ مگر ہمارے اندر بے حسی کا جذبہ اسطرح پروان چڑرھا ہے کہ ہم کسی بوڑھے شخص کو بس میں اپنی سیٹ بھی فراہم نہیں کرسکتے۔ اس کے علاوہ وہ پہلے جو معاشرے میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھے جاتے ان سے ہمارا سلوک نہایت بے رحمانہ ہے۔ہم انہیں کوئی بھی ریاست دینے کو تیار نہیں ہوتے ہم ان کے ساتھ کھانا کھانے تو کیا بات کرنا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں۔جبکہ اسلام میں مساوات کا سبق دیا ہے۔

آج ہمارے معاشرے میں اولڈ ایج ہوم موجود ہیں جو کہ گھروں میں موجودبزرگان ہمیں اپنی ذاتی زندگی میں مداخلت کرنے والے نظر آتے ہیں آئے دن اخبارات میں ہم ملازمین کے ساتھ برے سلوک کی خبریں پڑھتے رہتے ہیں۔ ہر شخص اپنے آپ کو فرعون وقت سمجھتا ہے اسے دوسروں کے احساسات اور جذبات کی کوئی فکر نہیں صرف اپنے مفاد کو ترجیح دیتا ہے۔ڈاکٹر جن کا دوسرا نام مسیحا ہوتا ہے وہ بھی صرف ان لوگوں پر توجہ دیتے ہیں جو ان کو کئی بھاری بھرکم فیس ادا کر سکیں اور عام لوگ جن کا اسپتال جانا بھی ناممکن میں سے ایک ہوتا ہے وہ ڈاکٹر کے رحم و کر م پر ہوتے ہیں اور ڈاکٹر ان کے علاج میں اکثر بےحسی کامظاہرہ کرتے ہیں۔حالانکہ خدا ان لوگوں سے محبت کرتا ہےجو اس کی مخلوق سے محب کرتا ہے۔
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہربان ہوگا عرش بریں پر
 

Sana Rahat
About the Author: Sana Rahat Read More Articles by Sana Rahat: 4 Articles with 4410 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.