تحریر بنت شفیق
امنگیں اور تمنائیں تو سکول جانے سے پہلے ہی انگڑائیاں لینے لگتی ہیں ۔سکول
خواب بننے اور ان کی تکمیل کی جانب بڑھنے کا انتہائی اہم موقع ہوتا ہے بچے
سکول جانے کے ساتھ ہی اپنے مستقبل کے خواب دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ جب ان
سے مستقبل کے متعلق سوال کیا جائے تو وہ اپنے خواب کے مطابق کوئی نہ کوئی
جواب بھی دے دیتے ہیں ۔ان خوابوں کا تعلق صرف بچوں سے ہی نہیں بلکہ ان کے
والدین کے ساتھ بھی ہوتا ہے ۔خواب کی تکمیل کے لیے والدین بچوں کے لیے بہتر
سے بہتر سکول کا انتخاب کرتے ہیں ۔ معیار تعلیم کیسا ہے ،ساتذہ کیسے ہیں ،
ماحول، نصاب ،غرض ایک ایک بات دیکھی جاتی ہے۔ ان سب باتوں کے ساتھ ایک بات
جس کے متعلق کبھی کسی نے سولہ دسمبر سے پہلے سوچا بھی نہیں ہو گا کسی کے
وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ سکول مقتل گاہ بھی بن سکتا ہے کیوں کہ
سکولوں میں اسلحہ بارود اور جنگی ہتھیار نہیں ہوتے بلکہ قلم کتاب جیسے علمی
ہتھیار ہوتے ہیں ہیں جن کی بدولت دشمن کو شکست فاش دی جا سکتی ہے ۔لیکن
16دسمبر سانحہ بنگال کے بعد پاکستان کی تاریخ کا ایک اور سیاہ ترین دیکھا
گیا جہاں بچوں سے خونی کھیل کھیلا گیا۔ یہ محض سکول پر حملہ نہیں تھا بلکہ
بچوں کے مستقبل اور نظریہ پاکستان پر حملہ تھا ۔اس زخم کا مندمل ہو جانا
آسان کام نہیں۔ ان درندوں کا مقصد یہی ہے کہ نسل نو کو ختم کیا جائے تاکہ
ان میں سے کوئی عظیم لیڈر بن کے ان کافروں، خارجیوں اور فرعونیوں کی ناک
میں دم نہ کر دیں لیکن ایسا ممکن نہیں جن ماؤں نے گھٹی میں ہی شہادتوں کے
جام پلائیں ہوں اور شھداء کی داستانیں سنائیں ہوں پھر وہ بیٹے کیسے اپنا
فرض بھول سکتے ہیں۔ تن، من، دھن کی بازی لگا دیتے ہیں، خون میں لت پت ہو کے
لوٹتے ہیں، لیکن وطن عزیز پر آنچ نہیں آنے دیتے۔ سانحہِ پشاور جیسے سانحات
سے قوم و ملت کو بچانے کی خاطر اپنا آرام و سکون حتیٰ کہ جان تک داؤ پر لگا
دیتے ہیں۔ اس سانحے کے بعد عسکری جنونیت کے خلاف ازسر نو سوچنے منصوبہ بندی
کرنے اور اس پر عملدرآمد کی اشد ضرورت ہے۔ اس لا الہ الا اللہ کے نام پر
بننے والی سر زمین پہ دشمنوں کے خلاف ہونے والی سرگرمیوں کو ختم کرنے کے
ساتھ ساتھ یہ بات بھی ضروری ہے کہ ان وجوہات کا پتہ لگایا جائے جن کی بناء
پہ شہریوں کا خون بہایا جاتا ہے کینسر کاٹ پھینکنا کافی نہیں ہے بلکہ اس
موذی مرض کی وجوہات معلوم کرنا بھی ضروری ہے تاکہ دوبارہ نمودار نہ ہو سکے۔
اس سب کے لیے صبر وتحمل اور برداشت کے ساتھ ساتھ بردباری کا مظاہرہ کرنے کی
ضرورت ہے۔ حکومتی سطح پر ننھی جانوں کی حفاظت کے لیے کیے گے اقدامات قابل
تحسین تھے لیکن اس کے ساتھ ضروری ہے کہ اس سوچ کو ختم کیا جائے جو ہاتھوں
میں اسلحہ تھام کر اور جسم پر بارود باندھ کر بے گناہوں کی جان لینے پر
اکساتی ہے۔ ملک کو خونی گرداب سے نکالنے کے لیے رواداری اور انصاف فراہم
کیا جائے۔ پرامن معاشرے کے لیے ناحق خون بہانے والوں کو سر عام سزا دی جائے
تو کبھی بھی کسی کی جان کو خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا۔
پڑھنے والوں سے التماس ہے کہ امن کے قیام کے لیے اپنے حصے کی شمع ضرور
جلاتے جائیں۔ امن کا قیام صرف حکومت یا عسکری اداروں کا کام ہی نہیں بلکہ
ہر شہری کا فرض ہے کہ اپنے حصے کا کردار ادا کریں ۔یوم شھداء پر دیے جلانے
کی بجائے اپنے فرض کا دیا جلایا جائے ۔دیے سے دیا جلے گا تو روشنی ہوگی۔
دوسروں کو انسانی جان اور انسانیت کی اہمیت بتائی جائے شاید کوئی راہ سے
بھٹکا کسی ماں کے لخت جگر کو، کسی بہن کے بھائی کو، کسی بیٹی کے سرتاج کو
اور کسی بچے کے باپ کو نشانہ بنانے کا حکم صادر کرنے والے کو انکار کر کے
کئی زندگیوں کو تحفظ فراہم کر سکے۔
سانحہِ پشاور کو گزرے چار سال کا عرصہ بیت گیا اور ان چار سالوں میں ضرب
عضب اور ردالفسا جیسے آپریشنز نے ملک کو جو آئے روز بم دھماکوں کی زد میں
رہتا تھا بچا لیا ۔الحمدللہ بہت حد تک امن و سکون کی فضاء قائم ہو چکی ہے ۔پاکستان
کا بچہ بچہ افواج پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے اور پاکستان دھمکیاں دینے والوں
سے نبردآزما ہونا اچھی طرح جانتا ہے۔
سلام افواج پاکستان سلام
یہ جو ملک میں امن و سلامتی ہے
اس کے پیچھے وردی والوں کا خون ہے |