تحریر: محمد ارسلان
دور جدید میں آج ہر شخص مغربی تہذیب اور طرز زندگی کو اپنانے کا خواہش مند
ہے۔ دنیا میں موجود تمام مذاہب ، سماج کار اور مفکرین نے تمام طبقے کے
لوگوں کو یکساں حقوق فراہم کے نظریات فراہم کیے۔ ان نظریات کو اخبارات ،
میگزین میں شائع کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیلی ویڑن پر ان کے ذریعے حوصلہ شکن
افراد کو ترغیب ( Motivate) کرنے کی کوشش کی گئی۔کبھی کسی مفکر نے یہ نہیں
لکھا یا کہا کہ آپ اخلاقی قدروں کو نظر انداز کر دیں یا اس قدر خود غرض بن
جائیں کہ اپنے مطابق قانون و اصول بنائیں اور پھر اپنی مذہبی اور سماجی
اصولوں کو بھی تبدیل کر دیں۔
آج کل شرح خواندگی زیادہ ہے اور ہماری نوجوان نسل جلد باشعور ہو رہی ہے۔
مگر اس کے اثرات منفی حاصل ہو رہے ہیں۔ دنیا میں غیر مسلم سے زیادہ ہمارے
اپنے مسلمان اسلامی احکامات کے باغی اور متضاد ہیں۔سول سوسائٹی اور لبرل
ہونے کانعرہ لگاتے ہیں۔اسی بنیاد پر غیر ضروری اور غیراخلاقی حقوق کا
مطالبہ کرتے ہیں۔ یورپ کے کئی ممالک نے عورت کے نقاب پر سیکورٹی کی وجہ سے
پابندی لگادی یا صرف اس لیے کہ حجاب سے غیر مسلم خواتین بھی تحفظ محسوس
کرنے لگی تھیں۔ شاید حجاب ان کے سماج کا حصہ بن جاتا۔ صرف ترقی یافتہ بننے
یا یورپین لوگوں کی طرح سوچ اپنانے کے لیے غلط راستہ ہم اختیار کرتے جارہے
ہیں۔ ان کے ہاں شرح جرائم کم اور ہمارے ہاں زیادہ ہے کیوں ؟ اس وجہ سے
ہماری کردار سازی اور ذہن سازی مثبت نہیں ہو پا رہی۔ کردار سے متعلق
’’علامہ محمد اقبال ‘‘ نے فرمایا،
حسن کردار سے نورے مجسم ہوجا
کہ ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلمان ہو جائے
آج مجھ سمیت کئی نوجوان (لڑکے اور لڑکیاں ) قرب الہی سے غافل ہیں۔’’ قرآن و
احادیث‘‘ کی تعلیمات و احکامات سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ہم اپنے اﷲ پاک
اور پیارے رسول کریم ﷺکے بتائے ہوئے دین پر تنقید کرتے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ
ہم جدید ترقی کی لالچ میں تمام مفید اسلامی طریقوں کو بھول چکے ہیں۔ روزانہ
ہماری خواتین کئی غیر اخلاق افعال کا سامنا کرتی اورپریشان نظر آتی ہیں۔
چونکہ ہم مغربی طرز تعلیم اپنانا چاہتے ہیں اس لیے ہم یہ بالکل نہیں سوچتے
کہ نامحرم مرد حضرات کے درمیان ہماری بیٹی غیر محفوظ ہے۔ گزشتہ کئی صدیوں
سے تمام غیر اسلامی ممالک اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں کہ اسلامی تعلیم
خواتین اور جوانوں کے لیے محفوظ راستہ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسلامی ریاستوں
کے قیام کے بعد امن آیا، جرائم کا خاتمہ ہوا اور بیٹی کی عزت محفوظ ہوئی۔
میں مغربی تہذیب کے خلاف بات نہیں کرتا مگر اس بات کے حق میں ہمیشہ رہا ہوں
کہ پیارے نبی پاکﷺ کی سیرت تمام قوموں کے لیے مشعل راہ ہے۔ آج جن ممالک کے
اداروں میں مسلمان خواتین نقاب اور حجاب میں کام کرتی ہیں وہ خو خود کو
محفوظ اور پرمسرت پاتی ہیں۔ میری دعا ہے کہ ہم سب کا ایمان آخری دم تک کلمہ
طیبہ پر قائم رہے اور قیامت کے دن تمام مسلمانوں کو حضور کریم ﷺ کی شفاعت
نصیب ہو۔ آمین
|