گزشتہ دنوں کی بات ہے کہ ایک شیخ صاحب سے ملاقات ہوئی ۔ادھر
اُدھر کی باتوں کے ساتھ بات چل نکلی پرائیویٹ اسکول میں تعلیم کی تو موصوف
چونکہ ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جس کے باعث اپنی بڑائی بیان کرنے
میں انکا کوئی ثانی نہیں جھٹ سے پل باندھنے لگے پرائیویٹ اسکول سسٹم کی
تعریف میں فخر سے بتانے لگے میاں ہم تو اتنی فیس دیتے ہیں ۔موصوف اپنے ساتھ
ایک مشہور اسکول کا فیس چالان بھی لئے ہوئے تھے ۔ جس میں درج کل رقم کسی
پوش علاقے کے بنگلے کے کرائے جیسی محسوس ہوئی۔ آنکھوں پر یقین نہ آیا تو
ساری تفیصل پڑھی جس میں کئی شعبوں کے نام درج تھے گویا پانچویں جماعت کا یہ
طالبعلم اسکول نہیں بلکہ کسی ملک کو فتح کرنے جارہا ہو۔ بستہ اورکتابوں
کاپیوں سیلے کر کلاس روم میں لگے اے سی کا بل بھی بچوں سے وصول کرنا پھر
سالانہ اخراجات لیب ، کمپیوٹرزاسپورٹس اور دیگر شعبوں کی مو میں ہزاروں
روپے ماہانہ اور سالانہ بٹورنا تعلیمی نظام کو کھوکلا کر چکا ہے۔ غریب اپنے
بچے کو نہ پرائیوٹ اسکول میں پرھانے کے قابل رہا نہ گورمنٹ اسکول میں۔ایسے
میں گلی کوچوں میں کھیلنے والے غیر میعاری اسکول مالکان کی چاندی ہوجاتی ہے
جوکم فیس میں بچو ں کے مستقبل کے ساتھ کھیلتے ہیں۔دوسری جانب چاہئیے تو یہ
تھا کہ گورنمنٹ اسکول سسٹم اس قدر معیاری ہوتا کہ ایک عام شہری اپنے بچوں
کی تعلیم کے معاملے سے تو کچھ سکون پاتا لیکن یہاں گنگا الٹی ہی بہہ رہی
ہے۔اب 10 سے 15 ہزار ماہانہ کمانے والے مزدور 40 ہزار بچوں کے اسکول کی فیس
میں دینے سے رہا ایسے میں معاشرے میں امیروغیریب کا فرق بڑھنا بعداز قیاس
نہیں۔تبدیلی کا شور مچا تو گورنر ہاؤسز کو تعلیم کے لئے کھولنا ایک اچھا
اقدام تھا لیکن شاید وہ سب شہرہ حاصل کرنے کا ایک ذریعہ تھا ۔جبکہ پاکستان
کے آئین نے تعلیم و صحت کو ہر شہری کا بنیادی حق قرار دیا ہے مگر ہم نے اس
کو صرف امیر کی جھولی میں ڈال دیا۔ کوئی ہے جو اس تقسیم کو پرکرے ؟ اور
فیسوں کو لگام دے ؟ تعلیم کو کاروبار بنانے والوں کے خلاف کاروائی کرے ؟
اگر میعاری تعلیم کے لیے 30 سے 40 ہزار ماہانہ درکار ہے تو یہ رقم کتنے
فیصد پاکستانی دے سکتے ہیں ؟ اور کیا باقی عوام کو میعاری تعلیم اپنے بچوں
کو مہیا کرنے کا کوئی حق نہیں جبکہ پاکستان کی انتیس فیصد عوام غربت کی شرح
سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں۔ چند روز قبل سندھ ہائی کورٹ میں عرصے سے
چلنے والا کیس کا ایسا فیصلہ آیا کہ نہ اسکول مالکان کا کچھ بھگڑسکا نہ
عوام کو کچھ ریلیف مل سکا۔ ایسے میں عوام نئی حکومت پر نظریں جمائے بیٹھی
ہے لیکن شاید یہ امید پوری نہ ہو پائے کیونکہ اس وقت غالباً تعلیم سے لیکر
صحت تک ہر وزیر فلحال گاڑیاں اور بھینسیں بیچنے میں مصروف ہے۔ |