سیرت واخلاق کی تعمیر میں حدیث کا کردار
خدائے وحدہ لاشریک نے قرآن مقدس میں ارشادفرمایاکہ!’’ان الدین عنداللّٰہ
الاسلام-الخ‘‘بیشک اﷲ کے یہاں اسلام ہی دین ہے‘‘(آل عمران ،آیت،۹)یعنی
زندگی کاوہی طوروطریقہ قابل قبول ہے جواسلام نے بتایاہے،ایک دوسری آیت
مبارکہ میں ارشادفرمایاہے کہ’’ ومن یبتغ غیرالاسلام دینافلن یقبل منہ وھوفی
الآخرۃ من الخٰسرین‘‘اسلام کے سواکوئی دین چاہے گا وہ ہرگز اسے قبول نہیں
کیاجائیگااوروہ آخرت میں زیاں کاروں سے ہے ‘‘(ترجمہ:کنزالایمان-آل
عمران،آیت،۸۵)یعنی جوشخص اسلام کے بتائے ہوئے طریقوں کے علاوہ دوسرے طریقوں
کواختیارکرے گاتووہ منظورنہیں کیاجائے گا۔اوراسلام کابتایاہواطورطریقہ وہ
طورطریقہ ہے جوہم کوقرآن مجیدسے پیغمبراعظم،نبی آخرالزماں،حضورتاجدارمدینہ
،سرورقلب وسینہ محمدرسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے برتے اوربتائے ہوئے
احکام اورعمل سے پہنچاہے اوروہ اﷲ تبارک وتعالیٰ کوخدائے واحدمان کراس کی
مرضی اوراس کے حکم کے مطابق طریقۂ زندگی اختیارکرناہے،دوسرے معنوں میں اپنے
کوخدائے وحدہ لاشریک کے حکموں اورمرضیات کے حوالے کردیناہے،اوریہی اسلام کے
لفظی معنی ہیں اورمسلمان سے یہی مطلوب بھی ہے،کہ وہ خودکواپنے پروردگارکے
حوالے کردے یعنی اپنی مرضی کواس کی مرضی کے تابع کردے۔
یہ بات اسلا م کے علاوہ کسی مذہب میں نہیں ہے،اسلام کے علاوہ دیگرمذاہب میں
مذہب کامطلب ایک یاکئی خداؤں کومانتے ہوئے صرف ایک متعین طریقہ سے ان کی
عبادت کرلیناہے،ان کے یہاں مذہب زندگی کے دوسرے پہلوؤں کے لئے کوئی متعین
احکام نہیں رکھتاہے۔لیکن اسلام میں ایک محدودعقیدہ اورکچھ متعینہ شکلوں کی
عبادت ہی نہیں بلکہ عقیدہ وعباد ت کے ساتھ ساتھ معاملات ومعاشرت اوراخلاق
کے لئے خصوصی ہدایات اوررہنمائیاں ہیں،اس میں عدل وانصاف،اخلاق کی درستگی
اورنیکی ،دوسروں کے ساتھ حسن سلوک،ظلم وزیادتی سے گریز،بے حیائی اورگندی
باتوں سے پرہیز،شرافت وانسانی خوبیوں کواختیارکرناہے۔یہ تمام باتیں اسلام
میں دین کے اندرہی داخل ہیں،چنانچہ قرآن کریم میں جگہ جگہ انبیاء علیھم
الصلوٰۃ والسلام کے تذکرہ میں آتاہے کہ وہ اپنی قوم کوصرف اﷲ تعالیٰ کی
عبادت کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ
کرو،کہیں آتاہے کہ ناپ وتول میں بے ایمانی نہ کرو،اورکہیں آتاہے کہ
نمازپڑھواورزکوٰۃ دو،اسی طرح اسلا م نے دین کوپوری انسانی زندگی
پرپھیلادیاہے اورزندگی کواس کاپابند بنایاہے،جس کابیان قرآن کریم میں مختلف
جگہوں پرآیاہے۔اورحضورپاک صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے احادیث مبارکہ میں
تفصیل کے ساتھ بیان فرمایاہے۔اس طرح اسلام نے زندگی کے تمام پہلوؤں کودین
کے احاطہ میں کردیاہے،چنانچہ حدیث شریف میں آتاہے کہ(۱)’’عن عبداﷲ بن عمرعن
النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ
والمھاجرمن ھجرمانھی اللّٰہ عنہ‘‘حضرت عبداﷲ ابن عمرسے روایت ہے وہ نبی
اکرم ﷺسے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایاکہ کامل مسلمان وہ ہے کہ جس کی
زبان اورہاتھ سے مسلمان محفوظ رہے،اورکامل مہاجروہ ہے کہ جس نے اﷲ تعالیٰ
کی منہیات کوچھوڑدیا۔
(بخاری شریف،ج۱،ص۶،کتاب الایمان)،
(۲)’’عن مالک بلغہ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعثت لا تمم حسن
الاخلاق‘‘حضرت مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم علیہ
الصلوٰۃ والتسلیم نے فرمایاکہ میں حسن اخلاق کے(قدروں)کی تکمیل کے لئے
بھیجاگیاہوں‘‘(مؤطا ،مشکوٰۃ)‘‘(۳)’’عن ابی ھریرۃقال قال رسول اﷲ صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ وسلم اکمل المؤمنین ایمانا احسنھم خلقا‘‘حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ نے کہا کہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشادفرمایاکہ مسلمانوں
میں کامل الایمان وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں (ابوداؤد)
اسی طرح اسلام کے ماننے والے کے لئے ضروری ہوجاتاہے کہ وہ یہ معلوم کرے کہ
زندگی کے مختلف پہلوؤں میں اﷲ تعالیٰ اوراس کے رسولﷺکاکیاحکم اورکیاطریقۂ
کارضروری اورمفیدہے،اس کی تفصیل ہم کورسول اکرم نورمجسم سیدعالم صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ وسلم کی ہدایات اوراحکامات میں ملتی ہیں اوریہ احکامات حضورپاک
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی احادیث طیبہ میں پھیلے ہوئے ہیں،حضوراکرم ﷺ کی
نبوی زندگی تئیس سال ہوئی،تیرہ سال مکہ مکرمہ میں جوآپ نے دین کی دعوت
وتبلیغ میں صرف کی اوراس کے سلسلہ میں لوگوں کی بے اعتنائی،ایذارسانی
ارودھمکیوں کوبرداشت کرنے میں گزاری،آپ نے یہ سب برداشت کیا،کوئی جواب نہیں
دیا،بلکہ قرآن کریم کے حکم کے مطابق عمل کرتے رہے جواس مرحلہ کے لئے
دیاگیاتھا،کہ نماز(عبادت الٰہی)کواداکرواوراپنے ہاتھوں کوروکے رکھو،یعنی
کسی کی شرارت اورایذارسانی کا جواب نہ دو،انتقام نہ لو،حتیٰ کہ ہجرت
فرماکرمدینہ منورہ تشریف لائے،پھردس سال مدینہ منورہ میں لوگوں کودین اسلام
کی طرف متوجہ کرنے اوردین اسلام کی تفصیلات بتانے اوران پرعمل کروانے میں
گزرے۔مدینہ منورہ پہنچ کرکفارکی زیادتیوں کاجواب دینے کی اجازت ملی
اورکفارنے جب مسلمانوں پرحملے کئے اورجنگیں کیں تب آپ نے اپنے رفقاء
وجانثاروں کے ساتھ ان حملوں اورجنگوں کامقابلہ کیا۔اوربہادری اورغیرت دینی
اوراسلام کوسربلندرکھنے والے جذبہ سے کام لیا،اورجنگوں میں بھی اعلیٰ
انسانی اقدارکالحاظ رکھا،یہ سب آپ کے رفقاء اورساتھ دینے والوں(صحابۂ کرام
رضی اﷲ تعالیٰ عنھم) نے اپنی آنکھوں سے دیکھا،کانوں سے سنااوران سب پرمکمل
طورسے عمل بھی کیا،اوراپنے بعدوالوں کوسنایا،بتایا،پھران کے سننے اوردیکھنے
والوں نے اپنے بعدکے لوگوں کوبتایااورسنایا،اوریہ سب حدیث شریف کے ذخیروں
میں محفوظ ہوگیا،حدیث کے معنی گفتگواورباتوں کے ہیں ،حدیث رسول کامطلب رسول
اکرم ﷺ کی باتیں(فرمودات)اورگفتگوکے ہوئے،اوریہ سب گفتگواورباتیں دین اسلام
کی باتیں ہوئیں۔
حضوراکرم سیدعالم ﷺ کے ارشادات وہدایات میں وہ ذخیرہ موجودہے جن سے دین
اسلام اپنے تمام پہلوؤں کے ساتھ سامنے آتاہے اورمعلوم ہوتاہے،اس طرح حدیث
شریف،اﷲ تعالیٰ کے کلام ’’قرآن مجید‘‘کے ساتھ اسلام کی تمام باتوں کاذخیرہ
اورخزانہ ہے ، اسی لئے مسلمانوں کواپنی زندگی کودین اسلام کے مطابق کرنے کے
لئے حدیث مصطفی ﷺ کو سننا،پڑھنااورمعلوم کرناضروری ہوتاہے۔قرآن مجیداورحدیث
مصطفیﷺ اصلا عربی زبان میں ہے۔حدیث مصطفٰی ﷺمیں ایک حصہ توحضوراکرم نورمجسم
سیدعالم ﷺ کی ان ہدایات اوررہنمائی کاہے جن کاتعلق زیادہ ترمذہب کے عبادتی
اورمعاملاتی پہلوسے ہے، اوریہ زیادہ ترفقہ کے نام سے اورمسائل عبادات
واحکام الٰہی کے جاننے کے لئے باقاعدہ پڑھایاجاتاہے۔
حدیث شریف میں دوسراحصہ اخلاق وسیرت سازی سے تعلق رکھتاہے،اوران کااخلاق کی
درستگی اورسیرت سازی میں اورانسان کی زندگی وطورطریقے کوبہتربنانے اورترقی
دینے میں بڑااہم کردارہے۔حدیث شریف کے مسائل عبادات واحکام فقہ توکوئی بھی
عالم دین حسب ضرورت وطلب بتاسکتاہے اورمدرسہ میں پڑھ سکتاہے اوریہ سلسلہ
الحمدﷲ دوراول کے بعدہی سے قائم چلاآرہاہے ،لیکن دوسراپہلوجواخلاق کی
درستگی اورسیرت سازی کاہے اس کے لئے حضوراکرم نورمجسم سید عالمﷺکی احادیث
طیبہ کاگہری نظرسے مطالعہ کرناضروری ہے کیوں کہ اصلاح باطن ،تقویٰ اورخوف
خدا،خوف آخرت سے پیداہوتاہے اوراس کے لئے حدیث شرف میں بڑاذریعہ اوراس کے
مضامین کاایک عظیم ذخیرہ موجودہے۔ |