تحریر: عبدالرب
1۔فکری (عقائد، نظریات، عبادات، رسومات، وغیرہ)
2۔عملی (معاشرت، معیشت، سیاست وغیرہ)
پہلی صورت میں سیکولرازم آزادی کا قائل ھے۔۔۔ جبکہ دوسری صورت میں وہ سختی
سے الہامی ہدایات کو مسترد کرنے اور اپنے خود ساختہ قوانین و نظام ھائے
زندگی کو اختیار کرنے پر زور دیتا ہے۔۔۔
اس وقت عالمی سطح پر اسلام اور سیکولرازم کے درمیان جو کشمکش چل رہی ہے اس
کی بنیاد معاشرت یعنی خاندانی نظام ھے۔۔۔ فیمنزم، ھیومنزم، سوشلزم، مارکسزم،
کیپیٹلزم، وغیرہ سب اسی نکتے پر اسلام سے الجھ رھے ھیں کہ عورت کو آزادی
ملے۔۔۔ بچوں سے، خاوند سے، گھر سے، اور وہ مارکیٹ کی پراڈکٹ بنے۔۔۔ پس بچے
پیدا نہ ھوں، بوجھ نہ ھو، وسائل کم نہ ھوں۔۔۔ وغیرہ وغیرہ
گویا معاشی ماھرین اور سیاسی بزرجمہروں کی سوئی بھی اسی نکتے پر اٹکی ھوئی
ھے کہ وہ سب وومن رائٹس، اور فیملی پلاننگ کی تحریکوں کے روح رواں بنے ھوئے
ھیں۔۔۔
لہذا معاشرت کی بنیاد 'خاندانی نظام' سیکولرازم اور اسلام کے درمیان حد
فاصل بن چکا ھے۔۔۔ جس نے یہ گھاٹی پار کرلی وہ جیت گیا۔۔۔
حالیہ خاندانی منصوبہ بندی کا مسئلہ صرف فقہی نہیں بلکہ عقیدے کا مسئلہ ھے۔۔۔
یہ عائلی اور معاشی مسائل کے نام پر اسلامی عقائد پر حملہ ہے۔۔۔ اسی وجہ سے
مذھبی طبقات کی حساسیت فطری ھے۔۔۔ جو کہ اب ویسے ھی کم ھوتی جا رھی ھے۔۔۔
اسلامی معاشرت کی روح اور بنیاد بھی اسلامی عقائد ہی ہوتے ہیں۔۔۔ اسی بناء
پر اسلام ہر اس طرز عمل اور سوچ و فکر کی حوصلہ شکنی کرتا ھے جس کی زد اللہ
کی رزاقیت اور مدبر الامور ھونے پر پڑتی ہو۔۔۔ انسان کی موت و حیات اور رزق
و وسائل کا مالک اور مدبر خالق کائنات ھے۔۔۔
پس اس مسئلہ کو صرف عائلی، فقہی یا معاشی مسئلہ سمجھنے کی بجائے پس پردہ
محرکات بھی سامنے رھنے چاھئیں۔۔۔ اور اسکی چوٹ ھمارے عقیدے اور طرز معاشرت
پر کہاں کہاں پڑتی ھے اسکا بھی پورا ادراک ھونا چاھئے۔۔۔
#مولویات |