خصوصی افرد کا عالمی دن اقوام عالم کے ساتھ ساتھ ہم بھی
بھرپور طریقے سے مناتے ہیں ۔ سرکاری و نجی سطح پر ہر سال مختلف تقاریب
منعقد ہوتی ہیں جن میں خصوصی افراد کے حقوق پر بات کی جاتی ہے اور اس ضمن
میں معاشرے میں شعور اجاگر کرنے کے حوالے سے بھی مختلف سرگرمیاں ہوتی ہیں ۔
یہ سب کچھ اس دفعہ بھی ہوا …… دوسری جانب اس روز کی اہمیت کے پیش نظر خصوصی
افراد بھی اپنے اپنے مطالبات لئے سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور اپنی حق تلفی
اور استحصال پر شدید احتجاج کرتے ہیں …… ایسا سب کچھ بھی اس سال بھی ہوا ……
حکومتوں کی سطح پربیانات ہر سال جاری ہوتے ہیں ، اس مرتبہ بھی مختلف مدات
میں ’’عزم‘‘ کا اظہار کیا گیا …… دن گزر جاتا ہے اور بات آئی گئی ہو جاتی
ہے ، لیکن کیا اب کی بار بھی ایسا ہی ہوگا؟ …… کیا ’’نئے پاکستان‘‘ میں
خصوصی افراد کیلئے موثر قانون سازی اور اس پر واقعتا عملدرآمد بھی ہوگا یا
اس پر کسی نئے اعلان کیلئے آئندہ سال کا انتظار کیا جائے گا ؟ …… ملک پر
باری باری حکومت کرنے والوں نے خصوصی افراد سے کتنے ہی وعدے کئے ، لیکن ان
کے حالات سنوارنے کیلئے کوئی عملی اقدام نہ اٹھائے ۔
اگرچہ یہ بات درست ہے کہ 3 دسمبر منانے کا مقصد خصوصی افراد کے معاشی اور
سماجی حقوق سے متعلق لوگوں میں آگاہی پیدا کرنا ہے لیکن ذرا گنتی تو کیجئے
کہ ہم کتنے عرصہ سے یہ دن منا رہے ہیں؟ غالباً 1993 سے عالمی سطح پر خصوصی
افراد کا دن منایا جا رہا ہے ۔ یعنی ہمیں یہ دن مناتے کم و بیش 25 سال ہو
چکے ہیں ۔ اس عرصہ میں ہر سال پہلے سے شدت کے ساتھ خصوصی افراد کو قومی
دھارے میں لانے کی بات دہرائی جاتی ہے لیکن مسائل تاحال جوں کے توں ہیں ۔
آج بھی خصوصی افراد اپنے حقوق کیلئے احتجاج پر مجبور ہیں ۔ آج بھی وہ تعلیم
، ملازمت ، توجہ اور دیگر ضروری سہولیات اور بنیادی حقوق سے محروم ہیں ۔
ایسا نہیں ہے کہ معاشرے کو ان کے حقوق بارے آگاہی نہیں ہے …… لوگ پوری طرح
ان سے آشنا ہیں ، لیکن وہ کیا ہے کہ ، ہم بنیادی طور پر ایک بے حس اور مفاد
پرست معاشرے کا حصہ ہیں ۔ اس نفسا نفسی کے دور میں ہم خصوصی افراد کو خود
سے اور وسائل سے دور رکھنے کی شعوری کوشش کر رہے ہیں ۔ ایسے میں جو خصوصی
افراد اپنے حقوق کیلئے احتجاج کرتے ہیں ، ہم ان سے اظہار ہمدردی تو کرتے
ہیں ، لیکن ان کا دکھ ’’سمجھ‘‘ کر اس پر صرف اظہار افسوس تک محدود رہتے ہیں
۔ دل میں ان کی آسانی کیلئے دعا کرتے ہیں ، لیکن آسانی کیلئے کوئی اقدام
نہیں اٹھاتے …… یعنی ہمارا معاشرہ اور ہمارے رویے ان کی مجبوری اور معذوری
کو بڑھاتے ہیں اور ہمیں اس کا ادراک نہیں ہے ۔
البتہ یہ امر خوش آئند ہے کہ ہم ایسے اداروں کی حوصلہ افزائی ضرور کرتے ہیں
جو خصوصی افراد اور بالخصوص سپیشل بچوں کیلئے کام کر رہے ہیں ۔ مجھے اس
عالمی دن کے موقع پر کچھ تقاریب میں جانے کا اتفاق ہوا ۔ سب سے زیادہ
پُراثر تقریب لاہور کے نواح میں واقع ’’مہربان انسٹیٹیوٹ‘‘ کے زیر اہتمام
منعقد ہونے والا فیملی میلہ تھا ۔ یہ ادارہ خصوصی اور عمومی دونوں قسم کے
بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہے …… اسی طرح نائس ویلفئیر
سوسائٹی نامی ایک ادارے نے بھی ’’سپیشل چلڈرن میلہ‘‘ کے نام سے ایک تقریب
کا انعقاد کر رکھا تھا جس میں خصوصی بچوں کی صلاحیتوں کو ابھارنے اور ان کی
جھجھک دور کرنے کیلئے مختلف سرگرمیاں ہوئیں ۔ یہ دونوں ادارے چند لوگوں کے
خلوص اور احساس کا عملی مظہر ہیں …… مٹھی بھر دوستوں نے ملکر یہ ادارے
بنائے ہیں اور معاشرے کی فلاح میں اپنا عملی حصہ ڈال رہے ہیں ۔ ایسے ادارے
حوصلہ افزاء ہیں جو خصوصی بچوں اور خصوصی افراد کو ہنر مند بنا اور معاشرے
میں گھلنے ملنے کی جانب مائل کر رہے ہیں …… یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ
والدین اور سرپرستوں کی وفات کے بعد ، اپنے زورِ بازو پر انحصار ہی انہیں
بے یارومددگار ہونے سے بچا سکتا ہے …… اور یہی امر انہیں جینا سکھائے گا ۔
بلاشبہ ان بچوں کو تعلیم دینا ایک مشکل کام ہے لیکن یہی حقیقت ہے کہ ایک
خواندہ اور ہنرمند خصوصی فرد معاشرے کا کارآمد شہری ثابت ہو سکتا ہے ۔
ملک میں مجموعی طور پر 32 لاکھ 86 ہزار 630 افراد مختلف اقسام کی معذوری کا
شکار ہیں …… ذہنی معذور افراد کا تناسب 7.60 فیصد ، نابینا 8.06 فیصد ،
چلنے پھرنے سے معذور افراد کا تناسب 18.93 فیصد ، گونگے اور بہرے 7.43 فیصد
ہیں ۔ اگرچہ سرکاری اور نجی سطح پر ان افراد کی فلاح و بہبود کیلئے کام ہو
رہا ہے ، لیکن یہ کام ڈھونڈے سے ہی دیکھے جاسکتے ہیں ۔ نجی سطح پر مہربان
انسٹیٹیوٹ ، نائس ویلفیئر سوسائٹی ، غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ ، سعدیہ کیمپس
جیسے ادارے ایسے باہمت بچوں کو مستحکم زندگی فراہم کرنے کیلئے کوشاں ہیں ……
جبکہ حکومتی سطح پر بھی کہیں کہیں اس پر کام ہو رہا ہے ۔ لیکن اسے وسیع تر
کرنے کی ضرورت ہے …… کیونکہ پورے پاکستان میں اس وقت صرف 744 سپیشل
ایجوکیشن کے ادارے ہیں جو معذور افراد کی مذکورہ تعداد کے پیش نظر نہ ہونے
کے برابر ہیں …… جبکہ ضروری سہولیات اور وسائل کی بھی کی کا شکار ہیں ۔
خصوصی افراد کو مساوی حقوق دینے کیلئے جہاں اس امر کی ضرورت ہے کہ غریب اور
پسماندہ علاقوں میں قائم مہربان انسٹیٹیوٹ ، نائس ویلفیئر سکولوں ، غزالی
ٹرسٹ جیسے اداروں کی ہر ممکن سپورٹ کی جائے …… مانا کہ ہم وسائل کی کمی کا
شکار ہیں ، لیکن مسئلے کا محدود حل بھی تو نکالا جاسکتا ہے ۔ اس وقت خصوصی
بچوں کو قومی دھارے میں لانے کا سب سے آسان اور قابل عمل نسخہ شاملاتی نظام
تعلیم ہے ۔ عموماً نارمل تعلیمی اداروں میں خصوصی بچوں کو داخل نہیں کیا
جاتا …… لیکن اگر ہر تعلیمی ادارے کو پابند کر دیا جائے کہ وہ کم از کم 20
خصوصی بچوں کو اپنے سکول میں جگہ دے گا تو حالات نسبتاً بدل سکتے ہیں …… ہر
کلاس میں نارمل بچوں کے ساتھ کوئی خصوصی بچہ ہوگا تو اسے سیکھنے اور بحالی
کے زیادہ مواقع میسر آئیں گے ۔ الگ تھلگ تعلیمی ادارے اور ماحول ان کے
احساس محرومی میں کمی نہیں لا سکیں گے …… اگر ملازمتوں میں خصوصی افراد کا
کوٹہ رکھا جا سکتا ہے تو تعلیمی اداروں میں اسے قابل عمل کیوں نہیں گردانا
جا سکتا ؟ …… عمومی تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو اس ضمن میں مناسب پیشہ
ورانہ تربیت دے کر اس بڑے چیلنج سے بخوبی نبرد آزما ہوا جا سکتا ہے …… عملاً
سپیشل ایجوکیشن کے شعبے پر عام تعلیم کے برابر کام کرنے کی ضرورت ہے …… اس
ضمن میں ایک ڈس ایبلٹی ایکٹ کا قیام اشد ضروری ہے جس کی رو سے انہیں برابری
کی بنیاد پر معاشرے کے تمام پہلوؤں تک رسائی دی جائے۔
کسی معاشرے کے حُسن کا اندازہ اس امر سے لگایاجاسکتا ہے کہ وہاں کمزور
لوگوں سے کیسا سلوک کیا جاتا ہے بالخصوص وہ لوگ جو نہ صرف خود سے جدا ہوں
بلکہ انہیں وقت بھی بہت پیچھے چھوڑ گیا ہو ۔ ایسے لوگوں کے آنسو پونجھنا ،
انہیں منزل کی خبر دینا ، ان کے ہاتھ میں ہاتھ دینا ہی دراصل حقیقی معاشرہ
ہے …… اشفاق احمد مرحوم کہا کرتے تھے کہ ’’ خوشی کسی فقیر کو محض دو چار
آنے دے دینے سے نہیں بلکہ تب ملتی ہے جب آپ اپنی خوشیوں سے وقت نکال کران
دکھی لوگوں کو دیتے ہیں جن سے آپکو کوئی دنیاوی مطلب نہیں ہوتا ۔ آپ اپنی
خوشیوں کا گلہ گھونٹ کر جب پریشان حالوں کی مدد کرتے ہیں تو خوشی خودبخود
آپ کی طرف سفر شروع کردیتی ہے ۔ کوئی چیز آپ کو اتنی خوشی نہیں دے سکتی جو
آپ کو کسی روتے ہوئے کی مسکراہٹ دے سکتی ہے ‘‘ …… بلاشبہ یہی وہ معاشرہ ہے
جس کی ترغیب نبیؐ نے دی تھی ۔ آپؐ کی تمام زندگی کا دارومدار یہی تھا کہ
کسی مجبور یا معذور کو زندگی کی نعمتوں سے سرشار کریں اور انہیں اپنے سینے
سے لگائیں ۔ زندگی دکھ کا سمند ہے اسے سکھ کے چھوٹے چھوٹے جزیروں میں تبدیل
کرنا ہے ، جس روز ایسا ہوگیا تو دکھ خود بخود ختم ہوجائیں گے ۔
تو پھر آئیے ! فیصلہ کرلیجئے کہ ہم نے ارد گرد موجود مایوس اور حق سے محروم
لوگوں کو اپنے حصے میں سے خوشیاں دینی اور انہیں اس قابل بنانا ہے کہ وہ
دنیا میں معاشرتی رویوں اور تبدیلیوں کو قبول کرتے ہوئے اپنے لئے خود تگ و
دو کے قابل ہو سکیں۔
|