سانحہ جہانیاں تاریخ پاکستان کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے
،میں اسے آخری واقعہ بھی نہیں کہہ سکتا ،کیونکہ جہاں ملک بھر میں چلنے دیگر
اداروں میں تبدیلی کی ضرورت ہے اسی طرح عدلیہ اور وکلاء میں بھی کالی
بھیڑوں کو بے نقاب کرنا ہوگا جو کیس کی بھاری فیسیں تو وصول کرتے ہیں مگر
غریب عوام کو انصاف پھر بھی نہیں ملتا ،کورٹ کچہریوں میں چلے جائیں یا
ہسپتالوں میں ہر دوجگہ پر غریب عوام چیختی چلاتی نظر آتی ہے مگر ان کی
سسکیوں پر کوئی لبیک کہنے والا نہیں ہوتا،ڈاکٹر ڈاکو بنے بیٹھے ہیں ،رہبر
کی شکل رہزنوں سے ہی واسطہ پڑتاہے ،مجھے یاد ہمارے بزرگ جب ہمیں دعاؤں سے
نوازتے ہیں تو پہلی دعا یہی ہوتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ دشمن کو بھی ہسپتال اور
کورٹ کچہری میں نہ لے جائے ،کیونکہ وہاں ذلت ہی ذلت ہے ،شریف آدمی کا کیا
کام کورٹ کچہری میں۔
دنیا بھر میں ہرسال خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتاہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 80 فیصد خواتین زندگی بھر میں کسی نہ کسی
قسم کے تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں ہر 3 میں
سے ایک عورت کو اپنی زندگی میں جسمانی، جنسی یا ذہنی تشدد کا سامنا کرنا
پڑتا ہے جو صرف صنف کی بنیاد پر اس سے روا رکھا جاتا ہے۔
پاکستان میں خواتین پر تشددکیلئے لوگوں نے مختلف بہانے ڈھونڈرکھے ہیں، جیسے
غیرت کے نام پر قتل، تیزاب گردی (جس کے واقعات ملک بھر میں عام ہیں) اور
تعلیم کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کو بھی شامل کیا گیاہے۔مزیدیہ کہ
خاندانی دشمنیاں بھی آئے دن بڑھتی چلی جارہی ہیں ۔ بعض لوگ قانون کے موجود
ہوتے بھی اپنی دلی تسکین کیلئے قانون کو نہ صرف ہاتھ میں لیتے ہیں بلکہ دن
دیہاڑے قانون کی دھجیاں اڑاتے ہیں ۔وہ اس بھیانک انداز میں کہ قانون کے
رکھوالوں کی بھی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں ۔
ظلم بچے جن رہا ہے ہر کوچہ وبازار میں
اب عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہئے
اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق ترقی پذیر اور کم تعلیم یافتہ ممالک، شہروں
اور معاشروں میں گھریلو تشدد ایک عام بات ہے۔ خود خواتین بھی اس کو اپنی
زندگی اور قسمت کا ایک حصہ سمجھ کر قبول کرلیتی ہیں اور اسی کے ساتھ اپنی
ساری زندگی بسر کرتی ہیں۔مگر بعض باہمت خواتین میدان عمل میں نکل کر مردانہ
وار مقابلہ کرتی ہیں اور عدالت کے راستے سے اپنا حق لیناچاہتی ہیں ۔مگر
خونخوار دندے انہیں بھی نہیں بخشتے،قانون ، عدالت،کیس اور سب باتوں کو
بالائے طاق رکھ کر وہ بھری عدالت میں ہی اپنے مطلوبہ شخص کو ابدی نیند سلا
دیتے ہیں ۔
بیٹیاں تو گھر کی رونق ہوتی ہیں۔ گھر کی رونقیں اجاڑ دی گئیں۔
ملک بھر میں پے در پے ایسے واقعات اور مجرموں تک رسائی نہ ہونا بہت تکلیف
دہ امر ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ایک واقعے کے بعد کوئی ٹھوس حکمت عملی
اپنانے کی بجائے ہم لوگ خاموش ہو جاتے ہیں تو دوسرا واقعہ جنم لے لیتا ہے
اور پھر واقعات جنم لیتے رہتے ہیں۔
امام الانبیاء نبی الرحمت حضرت محمدعربی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ
تمہاری جان،مال اور آبرو ایک دوسرے پر حرام ہے۔
ہر آنکھ اشکبار ہے اور ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ پے در پے
ہونیوالے واقعات کی روک تھام کیسے ممکن ہے؟ ہمیں یہ مل کر سوچنا ہے۔
ایک واقعہ ہونے کے بعد دوسرے واقعہ تک ہم پچھلا واقعہ بالکل فراموش کر دیتے
ہیں جس کے نتیجے میں پے در پے واقعات جنم لیتے رہتے ہیں۔ کتنی ماؤں کی کوکھ
اجڑ جاتی ہے۔ کتنے گھرانے دکھ کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ قارئین کرام! یہاں
یہ بات بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ جہاں فرد ریاست بن جائے جمہوریت کے
ساتھ ساتھ ایک خودمختار عدلیہ کا وجود ہو تو ریاست اور فرد کے درمیان
اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔ جب فرد کو عدالتوں میں دولت قارون، صبر ایوب ؑاور
عمر خضرؑ کی ضرورت نہ رہے اور کٹہرے میں انصاف ملے اور مجرموں کو قرار
واقعی سزا ملے تو وہ شہری ریاست کا شکرگزار ہوتا ہے۔
’’پروفیسر فہمیدہ کوثر‘‘ کا کہناہے کہ اس عمل سے وہ خود کو "Subject" کی
بجائے شہری سمجھنے لگتا ہے۔ ایسا شہری کسی بھی بااثر شخص کو قانون کی مدد
سے سزا دلوا سکتا ہے۔ لہٰذا اگر ہم اس قسم کے واقعات میں کمی چاہتے ہیں تو
قانون کا اطلاق‘ مجرموں کو قرار واقعی سزا اور ریاست اور فرد کے درمیان
اعتماد کی فضا کو بحال کرنا ہو گا۔ کیونکہ گزشتہ ستر سالوں میں کسی ایسے
ملک کی مثال نہیں دی جاسکتی کہ جس نے قانون کی بالادستی اور صحیح معنوں میں
جمہوریت کا راستہ جو کہ عوام اور ریاست میں اعتماد قائم کر سکے کا راستہ
اپنایا ہو اور اس ملک نے جرائم پر قابو نہ پایا ہو۔ جب ہم بنیادی حقوق کی
بات کرتے ہیں تو اس میں جان و مال اور عزت کا تحفظ لازمی حیثیت رکھتا ہے۔
اسی نظریہ سے ترقی کے سوتے پھوٹتے ہیں اور یہیں سے شہری پرامن محسوس کرتا
ہے۔ بصورت دیگر جرائم کی شرح کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی جاتی ہے اور شہری
یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ کوآرڈینیٹر ضلع خانیوال پاکستان انٹر نیشنل
ہیومن رائٹس روبینہ اسماعیل قاضی ایڈووکیٹ نے اپنے چیمبر میں صحافیوں سے
گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کچہری کے گیٹ پر دو بے گناہ خواتین کا بہیمانہ قتل
انتہائی افسوسناک امر ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے،ہمارے مذہب میں تو
عورت پر ہاتھ اٹھانے کی بھی ممانعت ہے یہاں دو خواتین کا قتل کس قسم کے
معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ کچہری کے گیٹ پر دو خواتین کے قتل
کی ذمہ داری پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں پر عائد ہوتی ہے جنہیں معطل کیا
جانا چاہیے ،مقام افسوس کہ اہلکاروں کے پاس جدید اسلحہ ہونے کے باوجود
ملزمان آنکھوں کے سامنے فرار ہو گئے،انصاف فراہم کرنے والے ادارے ہی اگر
سائلین کی حفاظت نہیں کرسکتے تو پھر یہاں انصاف کے حصول کیلئے کون آئے گا
؟۔روبینہ اسماعیل قاضی ایڈووکیٹ نے کہا کہ انٹر نیشنل ہیومن رائٹس ،جہانیاں
کے اس اندوہناک واقعہ کی پرزور مذمت کرتی ہے انہوں نے مطالبہ کیا کہ وکلاء
چیمبرز ،چاروں داخلی دروازوں اور پارکنگ اسٹینڈز پر سکیورٹی اہلکار تعینات
کئے جائیں اور کچہری کے باہر سی سی ٹی وی کیمرے بھی نصب کیے جائیں۔
یہ آپ کی عدالتوں کی لاشیں ہیں
یہ آپ کی بیٹیوں کی لاشیں ہیں
میرا جی چاہ رہا ہے کہ آج تمام تر اخلاقیات کو رخصت دے کے ، ان لوگوں پر
لعنت بھیجوں جنہوں نے ملک کو اس حال میں پہنچا دیا کہ آج اس ملک کی بیٹیاں
یوں سڑکوں پر بے گورو کفن پڑی ہیں ۔یہ ماں بیٹی کو لے کے عدالت تاریخ پر
آئی تھی ، اس مظلوم عورت کا باپ اور شوہرپہلی ہی قتل کردیا گیا تھا اور
خاتون اس کی پیروی سے باز نہیں آ رہی تھی ،اسے یقین تھا کہ مجھے انصاف ضرور
ملے گا،اس نے ایک جمہوری وطن میں آنکھ کھولی تھی، اس بیچ انصاف ملنے میں
بہت دیر ہو گئی کیونکہ منصف کبھی ڈیم بنانے کو نکل جاتا کبھی بچے کم کرنے
کے "آلہ جات " کی کمپنیوں کے مشن امپوسیبل کو چلا جاتا اور کبھی ٹی وی
سکرین پر بیٹھ کر فلمیں دیکھنے کی ترغیب دیتا۔ تاخیر ، تاخیر اور تاخیر ……آخر
ماں بیٹی "رل رل" کے انصاف کے لیے اپنے شوہر کے پاس اور بیٹی اپنے والد
وخانودکے پاس پہنچ گئی ۔
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ انصاف کا حصول ہے جو دور دور تک نظر نہیں آتا ۔سینئرتجزیہ
نگار’’عابد محمود عزام‘‘کا کہنا ہے کہ جہانیاں کے علاقے میں یہ بے گور و
کفن لاشے ایک ماں اور بیٹی کے ہیں، جنہیں شوہر اور والد کے قتل کے کیس کی
پیروی کرنے پر درندہ صفت مخالفین نے بے دردی سے قتل کردیا ہے۔ مائیں اور
بیٹیاں تو سانجھی ہوتی ہیں، جو دشمن کی ہوں تو بھی قابل احترام ہوتی ہیں۔
انہیں تو جنگوں میں بھی قتل کرنا عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ عورتوں کو
تو زمانہ جہالیت میں بھی جنگوں کے دوران قتل نہیں کیا جاتا تھا، مگر درندہ
صفت مخالفین نے تمام انسانی حدود کو پامال کرکے انسانیت کو شرمسار کردیا ہے۔
یہ بہت بھیانک جرم ہے اور اس معاشرے میں یہ جرم وقتا فوقتا ہوتا رہتا ہے۔
یہاں عدالتیں بھی ہیں، پولیس بھی ہے، حکومت بھی ہے اور قانون بھی ہے، مگر
کیا کیجیے، سب کچھ ہے، لیکن مجرم پھر بھی آزاد رہتا ہے اور قانون صرف تماشا
دیکھتا ہے۔ اس معاشرے میں طاقتور کی حکمرانی ہے، کمزور طبقہ غلام سمجھا
جاتا ہے۔ طاقتور کو ہر جرم اور ہر ظلم کرنے کا حق حاصل ہے، کمزوروں کو قتل
کرنے کا حق بھی طاقتور کے پاس محفوظ ہے۔ ظالم آزاد اور مظلوم قید ہے۔ ظالم
اپنے ظلم کا کھیل سرعام کھیلتا ہے اور مظلوم انصاف کی بھیک مانگتے در در کی
ٹھوکریں کھاتے زندگی گزار دیتا ہے۔ مجرم اپنے جرائم کی فہرست تھامے دندناتا
پھرتا ہے اور متاثرہ افراد زندگی بچانے کے لیے چھپتے پھرتے ہیں۔ کمزور مار
دیا جاتا ہے اور طاقتور قتل پے قتل کیے جاتا ہے، اسے کوئی خوف نہیں ہوتا،
کیونکہ اس کی سرپرستی بااثر افراد کرتے ہیں، وہی بااثر افراد جو ملک کا
قانون بناتے ہیں اور قانون کو اپنی رکھیل سمجھتے ہیں۔ یہ قانون ظالموں کی
خاطر تو حرکت میں آتا ہے، مگر مظلوموں کے لیے ماں بیٹی کے ان لاشوں کی
مانند ساکت ہوجاتا ہے۔ مظلوموں کو انصاف نہیں ملتا اور ظالموں کو سزا نہیں
ملتی۔ جہانیاں میں بھی یہی ہوگا، قاتل سزا سے محفوظ رہیں گے اور قتل ہونے
والی ماں بیٹی کو انصاف نہیں ملے گا، ان کا کیس بھی چلے گا اور نجانے کب تک
چلتا رہے گا۔ یہاں ماضی میں یہی ہوتا رہا ہے، مستقبل میں بھی اس سے مختلف
ہونے کی توقع نہیں۔
قانون بنانے والوں اور قانون کے رکھوالوں کو سلام عقیدت پیش کرنے کو جی
چاہتا ہے ،جس ملک میں سابق وزیر اعظم بے بھٹو کے قتل کا کیس ابھی تک ردی کی
ٹوکری کا حصہ ہے ،وہاں غریب عوام کو انصاف کون فراہم کرے گا،یہ ایک ایسا
سوال ہے جس کا جواب مجھ سمیت ہرپاکستانی تلاش کررہا ہے مگر جواب نہ دارد |