کسی کو غلط کام کی اجازت دے کر اس کے عوض رقم وصول کرنا
ٹیکس نہیں بلکہ رشوت کہلاتا ہے ۔ ریاستی اداروں کا بچکانہ پن اسی دن سامنے
آگیا تھا جب ایک وزیر کو ایک شہری کو تھپڑ مارنے کے جرم میں تیس لاکھ روپے
ڈیم فنڈ میں جمع کروانے کو کہا گیا تھا ۔ یہ بھی ممکن تھا کہ وزیر کو بھی
تھپڑ کی سزا دے دی جاتی ۔ مگر پھر ملک کیسے چلتا ؟ لکشمی کیسے آتی چھنانن
چھنانن ؟
سگریٹ کی کمپینوں پر پابندی لگانا بھی ناممکنات میں سے ہے ۔ یہ بات میں نے
اس وقت بھی واضح کی تھی جس دن پہلی بار ہیلمٹ کی پابندی پر ہونے والے
چالانوں پر اعتراضی پوسٹ لکھی تھی ۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہم سب پھنس گئے ہیں ۔
حکومت کو پیسے چاہیئں اور ہم نے گندی عادتیں لگا رکھی ہیں ۔ اب اگر گندی
عادتوں پر پابندی کے بجائے ان پر ٹیکس لگا دیا جائے تو دونوں کا مسئلہ حل
ہوتا ہے ۔ یا تو لوگ سگریٹ پینا چھوڑ دیں گے یا ٹیکس بھریں گے ۔
لوگ سگریٹ پینا چھوڑ دیں گے تو حکومت کو فرق نہیں پڑتا ۔ تم لوگوں کی کوئی
ایک گندی عادت تھوڑی ہے ۔ جس طرح ایک ہیلمٹ کے بعد دوسرے ہیلمٹ کی پابندی
لگ گئی ہے اور چالانوں کا سلسلہ ہنوز برقرار ہے اسی طرح حکومت آپ کا کوئی
اور گناہ ڈھونڈ کر اس پر ٹیکس لگا کر پیسے کما لے گی ۔
تم لوگ رج کر گناہ گار ہو اور حکومت کو ڈھیر سارے پیسوں کی ضرورت ہے ۔ اب
تمہارے سارے گناہ حکومت کیش کروائے گی ۔
اس کو کہتے ہیں ویژن ۔
پہلی مدینے کی ریاست میں یہ خامی تھی کہ وہاں جسمانی سزاؤں کا رواج تھا ۔
پتہ نہیں وہ لوگ پیسے کیسے کماتے تھے ؟ ملک کیسے چلاتے تھے ؟
اب دوسری مدینے کی ریاست میں یہ غلطی نہیں ہو گی ۔
آئندہ قوانین کچھ اس قسم کے ہوں گے ۔
سگریٹ پی ہے تو ٹیکس دے دو ۔
چرس پی ہے تو ٹیکس دے دو ۔
ہیروئنچی ہو ؟ چلو ٹیکس دو ۔
شراب پی لی ہے ؟ چوری تو نہیں کی ہے نا ؟ ٹیکس دے دو ۔ مٹی پاؤ ۔
چوری بھی کی ہے ؟ یہ تو بہت بری بات ہے ۔ چلو پھر ٹیکس دو ۔
ڈاکہ ڈالا ہے ؟ حکومت کا حصہ کہاں ہے ؟ چلو ٹیکس دو ۔
زنا کیا ہے ؟ گندے بچے !! ایسا کرتے ہیں کیا ؟ تمہاری امی نے تمہیں تمیز
نہیں سکھائی ؟ چلو ٹیکس بھرو ۔
ریپ کیا ہے ؟ ریاست کی ملکیت لڑکی کے ساتھ زیادتی ؟ توبہ توبہ توبہ ۔ چلو
پھر ڈیم فنڈ میں ایک کروڑ جمع کرواؤ اور لڑکی سے معافی مانگو ۔ کان پکڑو
توبہ کرو کہ آئندہ ایسا نہیں کرو گے ۔ چلیں بی بی !! چھوڑیں اب آپ بھی معاف
کر دیں ۔ جو ہونا تھا سو ہو گیا ۔ بیچارہ شرمندہ ہے ۔
قتل کر دیا ؟ ذلیل کمینے ؟ اتنا کریہہ فعل ؟ اتنا بڑا جرم ؟ دس کروڑ روپے
جرمانہ ۔ مگر جناب !! میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں ۔ کوئی بات نہیں ۔ قسطیں
کروا لو ۔ کچھ تو کرتے ہی ہو گے نا ۔ جو کماؤ اس کا آدھا حکومت کے خزانے
میں جمع کرواتے رہو ۔ اللہ نے چاہا تو بیس پچیس سال میں سارا قرضہ اتر جائے
گا اور دیکھو !! آئندہ قتل مت کرنا ۔ ایک شخص کا قتل پوری انسانیت کا قتل
ہوتا ہے ۔ اور دیکھیں بابا جی !! آپ کے بیٹے کا ٹائم پورا ہو چکا تھا ۔ آپ
کو تو پتہ ہے موت کا ایک دن مقرر ہے اور وہ اللہ نے مقرر کر رکھا ہے ۔ اللہ
نہ چاہے تو کوئی کسی کو کیسے مار سکتا ہے ؟ اب ہم آپ کے بیٹے کے بدلے ایک
اور بندہ مار دیں تو فائدہ کیا ہو گا ؟ جب مرا ہوا ہاتھی سوا لاکھ کا ہوتا
ہے تو سوچیں زندہ کتنے کا ہو گا ؟ اب آپ بھی اسے اللہ کی رضا جانتے ہوئے فی
سبیل اللہ معاف کر دیں ۔ جزاک اللہ ۔ |