پلے گروپ یا نر سری میں پڑ ھنے والے بچے عموماً شروع کے
دنوں میں اسکول جا نا پسند نہیں کر تے انہیں ماں سے دور جانے کا خوف ہو تا
ہے گھر کے ما حول سے نکل کر سکول جانے تک کا خوف ابتدائی دنوں میں ایک
معمول کی بات ہے لیکن اگر یہ حا لات ایک ہفتے سے زیا دہ بر قرار رہیں تو یہ
ایک خطر نا ک صورت حال کی نشاندہی ہے اور والدین کو معاملا ت کے دوسرے
پہلوؤں پر غور کر نے کی ضرورت ہے۔اسی طر ح سکول نہ جانے کا موڈ ہو نے کا
دوسرا دورانیہ یکم سے جما عت ہشتم تک محیط ہو تا ہے۔ اب بچہ سمجھدار ہے
اوراسکول نہ جانے کا کوئی ممکنہ بہترین بہا نہ تلا ش کر تا ہے اکثر والدین
ان بہا نوں کو سچ مان لیتے ہیں جما عت دہم سے آگے نئے نئے نو جوانی کی
دہلیز پر قدم رکھتے بچے ان کی دو علا مات ہیں یا تو وہ اسقدر پنکچو ئل ہو
جا تے ہیں کہ کسی شدید ضرورت کے تحت بھی چھٹی کر نا پسند نہیں کر تے اور
ضرور اسکول /کالج جانا چاہتے ہیں اسی طر ح بعض اوقات بہانہ بنا دیتے ہیں کہ
آج پر یکٹیکل نہیں ہے فلاں سر یا ٹیچر کی کلاس نہیں ہے تو نہیں جا نا ہے۔
ایک ذمہ دار والدین کی حیثیت سے بچے کے عمر ہر دور میں ہمیں انتہا ئی مہا
رت کے ساتھ بچوں کے معا ملات میں دلچسپی لے کر ان کو ایک کامیاب انسان
بنانے میں مدد دینا ہے ایک کہا وت ہے ایک سے چھ سال کے بچے کے ساتھ با دشاہ
بن جاؤ 13سے 18سال تک اس کے وزیر بن جا ؤ اور 19سال کی عمر کے بعد تا حیات
بچوں کے دوست بن کر رہویعنی ابتدائی عمر کے بچوں کو والدین کا وقت درکار ہو
تا ہے درمیانی عمر میں وہ ان کے احکامات بجا لاتے ہیں (بادشاہ) اس کے بعد
ان سے مشورہ کر کے ان کو درست رائے دی جا تی ہے (وزیر) اور اسکے بعد ان کے
دوست بن جائیں۔ ان کی تمام با توں تمام مسائل مشکلا ت خو شیوں اور جذ بات
کو ان کے ساتھ مل کر شئیر کریں۔
اگر چھو ٹی عمر کا بچہ /بچی سکول سے چھٹی کر نے کی ضد کر رہا ہے تو صرف یہ
سوچ کر چھٹی نہ کر ائیں کہ واقعی اس کے پیٹ یا سر میں درد ہے اور اگر یہ
علا مات بر قرا ر رہیں تو ضروری ہے کہ ایک ماہر معالج سے رابطہ کیا جائے
اور اگر تمام طبی نتا ئج درست ہوں تو آئینے کا دوسرا رخ دیکھنے کی ضرورت ہے
کہ سکول میں ٹیچر، ہم جما عت اور دیگر متعلقہ افراد کا رویہ تو بچے کے ساتھ
درست ہے ؟اس سلسلے میں ٹیچر سے بھی ملا قات کی جا سکتی ہے۔ یہ بات بہت
ضروری ہے کہ معاملا ت کی تہہ تک پہنچا جا ئے ۔ایک دفعہ ایک بچے کا واقعہ ہے
( نامی گرا می نجی ادارے) کہ ماں ورکنگ لیڈی تھی اور باپ بھی مصروف تھا بچہ
روز سکول جانے سے انکار کر تا تھا مگر ا س کا م پر ما مور آیا اور ڈرائیو ر
اسے کسی نہ کسی طر ح سکول پہنچا ہی آتے بعد میں یہ بچہ گارڈ کے ہا تھوں زیا
دتی کا شکا ر ہو ا ۔ بچوں کے معاملے میں ابتدائی عمر سے ہی بہت محتاط رویہ
اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔بچوں کے ساتھ وقت گزاریں ان کے چھو ٹے چھو ٹے
معمولا ت ِ زندگی پر نظر رکھیں اگر ان کے کسی بھی قسم کے جذ بہ اظہار میں
کسی بھی معمو لی قسم کی تبدیلی بھی آئے تو فو راً نو ٹس کر یں یہ معصوم
کلیاں ہی ہیں جنہوں نے کل ایک تنا ور چھا ؤں دینے والا درخت بننا ہے ان کی
دیکھ بھال میں کسی بھی قسم کی کو تا ہی عمر بھر کا پچھتا وا بن سکتی ہے۔
بچوں کو کسی بھی عمر میں طویل ترین لیکچر دینے سے گریز کر یں بات دوٹوک اور
واضح ہو نی چاہیے اور بچوں کے خیا لات جذبا ت اور احسا سات کا بھی بھر پور
خیال رکھنا چاہیے ایسا آج کل کے دور میں با لکل ممکن نہیں ہے کہ بچوں کو
انٹر نیٹ اور کمپیو ٹر کے استعمال سے دور رکھا جا ئے جو والدین فخریہ بیان
کر تے ہیں کہ ان کے گھر میں تو کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کا استعمال بچوں کے
لیے شجر ممنو عہ ہے در حقیقت وہ غلطی پر ہیں ان کو اپنے اس رویے پر نظر ِ
ثانی کر نے کی ضرورت ہے اسی طر ح وہ والدین جن کے گھروں میں چوبیس گھنٹے
وائی فائی مو جود ہے اور بچے کسی بھی وقت استعمال کر سکتے ہیں درست نہیں
ہے۔ ہر دو صو رتحال میں اعتدال کی ضرورت ہے اصل میں انٹر نیٹ ،گیمز اور
کمپیوٹر کا استعمال غلط نہیں ہے بلکہ ان کا بے جا ء ،غلط اور بے تحا شہ
استعمال غلط ہے ۔رات کو دیر تک گیم کھیلنے اورا نٹر نیٹ پر وقت گزارنے والے
بچے بھی صبح سکول جا نے سے گریز کر تے ہیں یہ کام ماں کے ساتھ ساتھ باپ کا
بھی ہے کہ بچوں کے کمپیوٹر اکٹیو ٹی مو ثر انداز میں ما نیٹر کیا جائے جس
طر ح انٹر نیٹ کی ہر وقت دستیا بی مثبت رویہ نہیں ہے ۔اسی طرح انٹر نیٹ کے
استعمال پر مکمل پا بندی بھی بچوں کو با غی بنا سکتی ہے اپنی نگرانی میں ان
کو انٹر نیٹ کا استعمال کرائیں۔ گا ہے بگا ہے ان کو درست اور غلط کا ضرور
بتا تے رہیں ممکنہ حد تک کمپیوٹر لیپ ٹاپ اور ٹیبلٹ کا استعمال مشترکہ
بیٹھنے کی جگہ ٹی وی لا ؤنج کچن ،ڈرائینگ روم وغیرہ میں کیا جائے اگر آپ ہر
وقت بچے کے ساتھ نہ بھی بیٹھ سکتے ہوں تب بھی بچہ زیر ِ نگرانی رہے گا۔بڑ
ھتی عمر کے ساتھ ساتھ بچے کی دوستیاں ضروریات اور جذ بات میں تبدیل آتی
رہتی ہے ۔ ہمیں ما حول سے ہم آہنگ معا شرتی تبدیلیوں کو مثبت انداز سے خو ش
آمدید کر نا ہے۔ یہی کامیابی کی ضما نت ہے۔ ذرا پلٹ کر تا ریخ کی طرف نظر
دوڑائیں تو آج ہما راجو رویہ انٹر نیٹ کے استعمال کے حوالے سے ہے یہی رویہ
پرانے لو گوں کا ٹی وی ریڈیواور دوسرے ذرائع ابلاغ کے متعلق تھا ۔بات ذرائع
ابلاغ کی مو جو دگی کی نہیں ہو ئی درحقیقت ان کا غلط استعمال ان کو صحیح یا
غلط بنا تا ہے ۔اپنے بچوں کو ایک کامیاب با شعور اور ذمہ دار انسان بنانے
کے لیے یہ از حد ضروری ہے کہ ان کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تر بیت کا بھی خیال
رکھا جائے علم تو ابلیس کے پاس بھی مکمل تھا مگر وہ عمل سے محروم تھا اطاعت
کامنکر تھا اپنے بچوں کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ ذہنی معتدل تعلیم کی
فراہمی بھی والدین کی ذمہ داری ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم نہ صرف خود
بھی نماز روزے اور دیگر اسلامی شعائر کی پابندی کر یں بلکہ اپنے بچوں کو
بھی اس بات کا پابند کر یں کہ وہ نما ز کی پابندی کر یں ۔والدین کے عہدے پر
فائز ہو جا نا بہت آسان کام ہے مگر اس عہدے کے فرائض سے عہدہ براء ہو نا
ایک کٹھن اور مستقل امر ہے۔ بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تر بیت کا
کام پو ری زندگی پر محیط ہے اپنے بچوں کی زندگی کے ہر دور کو خوب انجو ائے
کر یں زیا دہ سے زیا دہ وقت ان کے ساتھ گزاریں ان سے باتیں کر یں ان کے
ساتھ گیمز کھیلیں اپنے کا موں میں بھی ان کو شامل کر یں یہ بات سوچ لیں کہ
ہم والدین ہی اپنے بچوں کے رول ماڈل ہیں پہلے خود کر یں پھر بچوں کو وہی
کام کر نے کا کہیں اگر ہم خود بات بے بات غصہ کر یں گے کام چوری کر یں گے
نما ز روزہ میں کو تا ہی کر یں گے تو لامحالہ ہما رے بچے بھی یہی رویہ
اختیار کر یں گے خدا ہم سب کو بہترین والدین بننے کی توفیق عطا فر مائے اور
ہما رے بچوں کو دین و دنیا میں کامرانی و کامیابی عطا کر ے۔کیونکہ یہ اولاد
ایک صادقہ جاریہ بھی ہے جس کی پروراش میں کوئی کوتائی نا کی جائے۔اولاد کے
تناسب سے ایک اشعار
دشمن کو بھی دے خدا نہ اولاد کا داغ جاتا نہیں ہرگز دل ناشاد کا داغ
فرماتے تھے رو کے لاش قاسم پہ حسین اولاد سے کم نہیں ہے داماد کا داغ |