تحریر: عامر سلطان فورٹ عباس
محکمہ انہار کی کرپشن اور ٹیل کے کسانوں کا برا حال ،معاونت کر تے وکلاٗاور
عدلیہ کے سٹے آڈار،اب وقت ہے کچھ کرنے کا ،فریاد ہے غریب کسانوں کی ،وفاقی
وزیر برائے آبی وسائل ،سپریم کورٹ ،وزیر اعظم پاکستان،اور پاریلمنٹ سے کہ
قانون پر عمل بھی کروایا جائے،تاکہ پانی کی فراہمی کو برابر سطح پر یقینی
بنایا جائے،آج میں ایک چھوٹی سی نہر کی طر ف تو جہ دلانہ چاہتا ہوں ،جو کہ
ڈسرکٹ بہاولنگر کی تحصیل فورٹ عباس ہاکڑا برانچ رائٹ سے نکلتی ہے جس کا نام
1927 کو لفیٹ ہاکڑا رکھا گیا تھا۔ جس کو آج فلڈ چینل کہتے ہیں ،1927کو اس
نہر پر رقبے الاٹ کئے گئے تھے،مگر چولستان اور دوردراز ہونے کی وجہ سے وہاں
کے لوگوں نے لفیٹ ہاکڑہ سے تبادلے کروا کر ہاکڑا رائٹ پر راقبے لے لیے، اس
طرح لفیٹ ہاکڑا بند کر دی گئی ،اور رقبہ بقایا سر کار ہو گیا ،1964میں پہلی
دفعہ ہندوستان سے فلڈ کی صورت میں سیلاب آیا،جو کہ ہا کڑا رائٹ کے جنوب سے
ہو تا ہوا مغرب کی طرف قلعہ مروٹ تک سیراب کرتا گیا ،بعد میں دوسرے سال
چکنمبر 240ایچ ایل کے قریب سے اونچے ٹیلے کھود کر پانی کا رخ جنو ب مغرب کی
طرف موڑ دیا گیا ۔اس طرح لفیٹ ہاکڑہ جو کہ پہلے ہی خشک پڑی ہوئی تھی،اس کی
پیپڑیاں سیلاب کے پانی میں بہے گئی،بعد میں 1970 کو لفیٹ ہاکڑہ کا رقبہ
چولستانیوں کو ترنی سکیم کے تحت الاٹ کیا گیا ،اور کچھ فوجی جوانوں کو الاٹ
ہو ا اس طرح لفیٹ ہاکڑہ کو دوبارہ بحال کیا گیا ،مگر ہرسال فلڈکا پانی نہر
کے پشتوں کو بہا کر لے جاتا تھا ، جس کی وجہ سے نہر کا رخ موڑنا پڑا،تو
محکمہ انہار نے لفیٹ ہاکڑہ کا نام بدل کر فلڈ چینل سہ ماہی رکھ دیا ،حالانکہ
1927 کو یہ نہر بارہ ما سی تھی. 1985 کو مقامی لوگوں نے ایم پی اے فور ٹ
عباس چوہدری محمد صدیق سے مطالبہ کیا کہ ہماری نہر سہ ماہی ہے جس سے ہماری
کوئی فصل بھی نہیں پکتی۔عوام کے اس مطالبے پر ایم پی صاحب نے اسمبلی ،میں
جا کر آواز اٹھا ئی اس طرح نہر ششماہی کی منظوری لے کر آئے،جو کے آج تک چل
رہی ہے،فوجی جوانوں نے زیادہ تر اپنے رقبے سول لوگوں کو فروخت کر دیے
ہیں۔موجوہ صورت حال کچھ یوں ہے محکمہ انہار کا عملہ اور زمیندارں کا آپس
میں مکمکاہے،عملہ ان کو پانی کے چوری کرنے کے گر سکھاتا ہے موگھا مشین کی
جگہ بڑی سائل کی نال سمیٹ والی لگاؤ،آگے پورے سائز کا ساکٹ لگاؤ ،کچے سمیٹ
سے برابر کر دو،جب پانی آئے تو ساکٹ نکال لو،اگر کوئی شکایات کرے تو عدالت
سے سٹے آرڈرلے آؤ، اس طرح آپ کے خلاف کوئی کاروائی نہ ہو گی نال کا سائز
اور پانی سٹے کی آڑ میں چلتا رہے گا،تاریخ پے تاریخ چلتی رہے گی محکمہ
انہار آپ کی مخالفت نہیں کرے گاآپ نے جو منتھلی طے کی ہے وہ دیتے رہنا ،اسی
طرح وکیل عدلیہ اور محکمہ انہار کسانوں اور ٹیل پر بسنے والے لوگوں کا
احتصال کر تے آ رہے ہیں،محکمہ انہار کا عملہ چند سال پہلے بہت محنتی ہوا کر
تا تھابیلدار کے پاس ایک بالٹی رسی،کسی ،کلہاڑی ہوا کرتی تھی نہروں کی
سڑکیں صاف اور پشتے مظبوط اور جھالیں پل صاف ہوا کرتی تھیں جس سے پانی کی
روانگی میں کوئی رکاوٹ نہ ہوتی تھی،میٹ اپنی جگہ فرائض نبھاتے تھے،اسی طرح
اوورسیر اور SDO اپنی اپنی ڈیوٹی انجام دیتے تھے جس کی وجہ سے کوئی بھی
کسان پانی چوری کرنے کی جرت نہیں کرتا تھا اور ہر ماہ ضلع کا افسر نہروں کا
ویزٹ کرتا تھااور سب کی حاضری یقینی ہوتی تھی جس کی وجہ سے پانی کا نظام
بہت اچھا تھا،اب حال کے دور میں عملہ افسران صرف دفتری اور کاغذی کاروائی
تک محصور ہو کر رہ گئے ہیں،نہروں کا کوئی والی وارث نہ ہے، سڑکیں خراب ،موگھے
ٹوٹے ہوئے ،پل اور جھالوں میں جگہ جگہ رکاوٹیں ،پانی چوری مافیااور عملہ
آپس میں ملے ہوے ہیں جتنا پیسہ دو اتنا پانے لو کی بنا پر کام ہو رہا ہے جس
کی وجہ سے لڑائی جھگڑے معمول بن گئے ہیں،بعد میں مقامی تھانوں کا حال بھی
کچھ اسی طرح ہے ،وہا ں بھی انصاف نہیں ملتا پیسے والا چھوٹ جاتا ہے،کمزور
غریب کسان کے خلاف کاروائی کی جاتی ہے اس کے بعد عدالت میں بھی فوری انصاف
نہیں ملتا انصاف ملتے ملتے بہت دیر ہو جاتی ہے ،حتیٰ کہ گھر کی جمع پونجی
سامان تک بک جاتا ہے جس سے 75 فیصد لوگ جرم ڈکیتی،چوری ،راہ زنی کی طرف
راغب ہو جاتے ہیں ،اس طرح انصاف نہ ملنے پر جرم میں دن بہ دن اضافہ ہوتا
چلا آرہا ہے، اگر محکمے اپنا اپنا کام دیانت داری سے کریں اور عدالتیوں میں
فوری انصاف کو یقینی بنایا جائے تو کرپشن اور جرم کا خاتمہ کیا جا سکتا
ہے،محکمہ انہار نے اپنے ریٹ نافز کیں ہوئے ہیں۔شروع کے موگھا جات کا ریٹ
تین سے پانچ لاکھ ،اور ٹیل کے موگھوں کا ریٹ فی مو گھہ دس سے پندرہ ہزار
ہے۔رقم وصولی کے لیے ٹیمیں بنائی ہو تی ہیں ۔ چک کا نمبر دار ،کو نسلر،یا
اثرو ر ثوق رکھنے والا زمین دار بے دار میٹ اوروسیراور آگے ایس ڈی او
ایکسین تک ملاپ ہو تا ہے۔ اس طر ح یہ ایک چولستانی نہر لیفٹ ہاکڑہ یہنی فلڈ
چینل کی ہے کہانی،2013 کے بعد سیلاب ،دریا گھا گھرا بھی جو ہندوستان سے آ
تا تھا اور چولستانی علاقے کو سیراب کرتا تھا وہ بھی بند ہو گیاہے اب تو
چولستا نی پا نی کیی بوند بوند کو ترس رہیں۔زیادہ تر لو گ نقل مکانی کر گئے
ہیں ۔باقی رہنے والوں کا گزر بسر،مال مویشی پر ہے ، اگر حکومت وقت نہر لیفٹ
ہاکڑہ اور باقی نہروں پر توجہ دیں اور کر پٹ مافیہ کے خلاف بلا تفریق
آپریشن کریں تاکہ ٹیل پر بسنے والے کسانوں کو اپنے حصے کا پانی مل سکے۔اس
طرح چھوٹے کا شتکار بھی دوبارہ اپنے علاقوں میں آباد ہو سکتے ہیں۔حکومت کو
چاہیے کہ رشوت خور عناصر اور پانی مافیا کے خلاف سخت سے سخت کاروائی عمل
میں لائی جائے۔اور محکمہ میں چھپی کالی بھڑوں ،کی نشادہی کر کے نکال بہر
کیا جائے تاکہ کر پشن سے پاک محکمہ بانی کی ترسیل کو یقنیی بنا کر کسانوں
میں برابر کا پانی تقسیم ہوسکے۔ اس طرح کسان خوشحال ہو سکتے ہیں ، اگر کسان
خوشحال تو پاکستان بھی خوشحال ہوگا۔ |