جو لوگ موت کو ظالم قرار دیتے ہیں
خدا ملائے انھیں زندگی کے ماروں سے
زندگی کیا ہے؟ کچھ کہتے ہیں کہ زندگی پیار ہے، کچھ کہتے ہیں اسرار ہے، کچھ
کے لئے جزا ہے تو کچھ کے لئے سزا۔ کیا زندگی جذبات کا اک دھندلا سفر ہے
جسکا ہر انسان دنیا کے پر پیچ راستوں پر سامنا کرتا ہے. زندگی کو استاد
کہنا شاید مناسب نہیں ہوگا کیونکہ استاد سبق دے کر امتحان لیتا ہے، مگر یہ
سالی زندگی امتحان لے کر درس دیتی ہے۔ یہ وہ سوال تھے جن کا جواب تلاش کرنے
کی خاطر کاظم پچھلے ایک گھنٹے میں دس سگریٹ پھونک چکا تھا، وہ شاید سگریٹ
کے دھویں میں زندگی کے فلسفے کو پھونکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ دو روز گزرنے
کے باوجود اس کی آنکھوں کے سامنے ہسپتال کے سٹریچر پر آڑا ، ٹیڑھا پڑا ہوا
وہ مردہ وجود تھا، جو نیم باز آنکھوں سے کاظم کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا
کیوں نہ مسکراتا آج شاید اسے زندگی کی بھاگ دوڑ سے چھٹکارا جو مل گیا تھا
اب وہ آرام سے اپنی تمام تھکن اتار سکتا تھا۔
اس سے کاظم کی ملاقات کوئی سال بھر پہلے ہوئی تھی، وہ اس کے دفتر میں ایک
ادنیٰ سا ملازم تھا۔ اس کی زندگی دفتر ، شراب خانے، گھر اور پھر دفتر پر
مشتمل تھی، کاظم کو اس کی حالت جاننے میں صرف چند روز لگے کہ وہ کسی گمبھیر
مسئلے کا شکار ہے۔ کاظم نے اسے اپنے دفتر بلایا اور اسے اس کی پیشہ ورانہ
ذمہ داریوں کا احساس دلانے کے بعد ، اس سے یہ جاننے کی ناکام کوشش کی کہ
آخر وہ کیوں ہر وقت شراب کے نشہ میں گم رہنا چاہتا ہے اس نے مسکرا کر صرف
اتنا کہا وہ آئندہ خیال رکھے گا اور بغیر کچھ کہے دروازہ کھول کر باہر نکل
گیا۔ کاظم کو اس کا یہ انداز بہت پر اسرار لگا، اس کے بعد کچھ دن تک تو اس
نے اپنی بات کی لاج رکھی مگر پھر وہی پرانی روش کہتے ہیں نا کہ
چھٹتی نہیں ہے منہ سے، یہ کافر لگی ہوئی
کچھ ماہ تک یہی سلسلہ چلتا رہا، وہ روز صبح آتا اور نا جانے کیوں اپنی کرسی
میں دھنس کر سامنے رکھے میز کے نیچے چھپنے کی ناکام کوشش کرتا رہتا وہ شاید
خود سے چھپنا چاہتا تھا۔ کاظم کے بار بار منع کرنے کے باوجود اس نے اپنا
طرزِ عمل تبدیل نہیں کیا، آخر ایک روز کاظم نے اس کے سپروائزر کو بلا کر اس
کے اس طرزِ عمل کی وجہ جاننا چاہی۔ وجہ جان کر کاظم حیران رہ گیا کہ آخر یہ
شخص زندہ کیسے ہے، دراصل وہ کئی سال سے شراب کی آڑ میں اپنی پریشانیوں کو
پینے کی ناکام کوشش کر رہا تھا یہ جانے بغیر کہ شراب اس کی پریشانیوں کو
نہیں دراصل اس کے وجود کو پی رہی ہے۔
وہ اپنے بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر پر تھا والد کے مرنے اور بڑے بھائیوں
کے گھر چھوڑنے کے بعد روزی روٹی کی ذمہ داری اسے ہی نبھانا تھی، اس نے
تعلیم ادھوری چھوڑ کر یہ بیڑا اٹھایا اور محنت مزدوری کرکے اپنی ماں اور
سات چھوٹے بہن بھائیوں کی کفالت کی اس دوران میں اس کے اپنے بھی دو بچے
پیدا ہو گئے اب ایک کمانے والا اور دس کھانے والے۔ وہ پینتیس سال کی عمر
میں پچپن سال کا لگنے لگا تھا، شاید اس کی مجبوریاں اس کی عمر کھا گئی
تھیں۔ اپنے مسائل کو حل کرنے کی خاطر اس نے متعدد کاروبار کئے مگر شاید
قسمت کی دیوی بھی اس سے خار کھائے بیٹھی تھی، تمام کاروبار ناکام ثابت ہوئے
اور وہ شخص مختلف اداروں کا مقروض ہو گیا۔ اب ایک طرف گھر میں بھوک اور
افلاس دوسری جانب لین داروں کے تقاضوں نے اسے پریشان کر کے ۔ رکھ دیا اس
مشکل وقت میں اس نے شراب کے نشے میں اپنی بقا ڈھونڈنی چاہی ، یہ سمجھے بغیر
کہ یہ مسائل کا حل نہیں بلکہ خود اُم ا ل مسائل ہے۔ شراب کے زیادہ استعمال
نے اس مزید مقروض کردیا، اور اب وہ اسی ڈپریشن کا شکار تھا کہ جہاں گھر میں
کھانے کے لالے ہوں اور اوپر سے لاکھوں کا قرض کاظم کو یہ سن کر افسوس ہوا
مگر اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے مجبور ہو کر اس نے ایک مرتبہ پھر اسے
بلایا اور سمجھانے کی کوشش کی۔
اس مرتبہ اس نے کاظم۔ کو پھر یقین دلایا کہ آئندہ وہ شکایت کا کوئی موقع
نہیں فراہم کرے گا، اس دوران اس کی آنکھیں کاظم سے بار بار یہ سوال کر رہی
تھیں کیا کاظم کے پاس اس کے مسائل کا شراب سے بہتر کوئی حل موجود ہے۔ وہ
کاظم کو بتانا چاہ رہا تھا کہ وہ شراب نہیں اپنے مسائل پیتا ہے، ہر روز اس
امید پر اور اس جزبے کے ساتھ کہ شاید اگلی صبح تک یہ ختم ہو چکے ہونگے۔ وہ
شاید یہ کہنا چاہ رہا تھا
مجھے زندگی کی دعا دینے والے
ہنسی آرہی ہے تیری سادگی پر
تجھے کیا معلوم میرے مسائل کا حل کیا ہے، ان مسائل کا حل صرف وہی بتا سکتا
ہے جو ان سے گزرا ہو۔ لیکن مسائل کو مسائل سے نہیں تدبیر سے حل کیا جاتا
ہے، اسے شاید اس کا ادراک نہیں تھا اور وہ نشے کو زندگی کے مسائل کا حل
سمجھ بیٹھا تھا، یہ جانے بغیر کہ وہ خود کو دھوکہ دے رہا ہے یہ زندگی نہیں
موت ہے اور وہ روز بروز اس سے قریب ہوتا جارہا ہے یا شاید اسے موت زندگی سے
زیادہ دلفریب نظر آرہی تھی کہ مرنے کے بعد بھی اس کی آنکھوں میں اک پراسرار
سا سکون تھا شاید اسے زندگی کی تھکن سے نجات مل چکی تھی اور شاید یہ تھکن
اب اس کے چھوٹے بہن بھائیوں اور بچوں کا مقدر بن چکی تھی۔ ۔۔۔۔۔ایک جبرِ
مسلسل کا کبھی نا ختم ہونے والا سلسلہ |