امت مسلمہ اس وقت کڑے دور سے گزر رہی ہے۔
مغربی اقوام غالب ہیں ،ہر جگہ ان کا نیو ورلڈ آرڈر چل رہا ہے۔ مغربی ذرائع
ابلاغ ہیں،معشیت کا میدان ہے،یا تعلیم کا ،ہر جگہ ان کی تہذیب کا جادو سر
چڑھ کر بول رہا ہے۔ قطع نظر اس بات سے کہ ان میں کے کتنے اصول درست ہیں اور
کتنے انسانیت کے لیے تباہ کن ہیں۔ آزادی اظہار کے نام پر شعائر اﷲ اور
انبیاء کرام کی توہین ان کا معمول بن گیا ہے۔ خصوصاً نبی صلی اللہ علیہ
وسلم سے ان کے اشرار کو اﷲ واسطے کا بیر ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے مدینہ کے
یہودیوں کو تھا۔ جو کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی ناپاک سازشیں
کرتے تھے۔ کبھی طرح طرح سے بد نام کر کے اذیتیں دیتے تھے۔ کبھی آپ کے اہل
خانہ پر رقیق الزامات لگاتے تھے۔ آج بھی یہ بد بخت کبھی آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے گستاخانہ خاکے اخبارات میں چھاپتے ہیں کبھی انٹرنیٹ پر مقابلوں کا
اعلان کر کے اپنے لیے روسیاہی کا بندو بست کرتے ہیں ۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان پہلے بھی بلند تھی اور قیامت تک بلند تر رہے
گی۔ کسی کے منہ کی پھونکوں سے اس چراغ کی لو کم نہ ہو گی۔ جس کو روشن کرنے
والا خود مالک کائنات ہے۔ ہاں یہ امتحان اور ابتلاء کا ایک دور ہے۔ امت
مسلمہ کے لیے ۔مسلمانوں کے لیے۔ ہمارے لیے۔ جب یہ سب کچھ قران اولیٰ میں
ہوتا تھا۔ تو اپنی موت آپ مر جا تا تھا۔ آج ہو رہا ہے تو ہوتا چلا جا رہا
ہے ایک کے بعد ایک گستاخ اس فعل کو کرنے کا اعلان کر رہا ہے۔۔۔۔۔اور مسلمان
بے بس ہیں۔؟؟
اتنے کمزور تو شاید اس سے قبل شاید کبھی نہ تھے۔۔ یہود تو اس سے بڑی بڑی
سازشیں بھی کر چکے ہیں۔ وہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد خاکی تک کو
روضہ انور سے نکالنے کی سازش بنا چکے ہیں۔ جسے اس وقت کے باغیرت اور با
حمیت مسلمان حکمران نور الدین زنگی نے ناکام بنایا۔ آج تاریخ کا یہ عجیب
کربناک موڑ ہے کہ مسلمان اربوں کی تعداد میں ہیں اور مسلمان حکومتیں60 سے
زائد ہیں۔ لیکن اس پستی کی حالت میں ہیں کہ۔۔۔۔کفار ،یہود و ہنود شیر بن
چکے ہیں اور جو ان کے جی میں آتا ہے کر گزرتے ہیں۔ کوئی ان کے ہاتھ پکڑنے
والا نہیں، کوئی طارق بن زیاد نہیں، کوئی نور الدین زنگی نہیں، کوئی صلاح
الدین ایوبی نہیں۔ اس وقت مغرب کا سیکولر اور مادر پدر آزاد تمدن ایک طوفان
کی صورت میں دنیا پر چھا گیا ہے ۔اب گھر گھر گانے بج رہے ہیں، نیم عریاں
فلمیں چل رہی ہیں۔ عورت کے ساتھ اب چادر اور چار دیواری کا تصور نہیں آتا
بلکہ اشتہار کا تصور آتا ہے۔ چوک اور چوراہے عورت کے قد آدم پوسٹر وں سے
مزین ہیں۔
ایک عجیب دور ہے جس سے مسلمان ذرائع ابلاغ ہر حوالے سے مسئلے پر بحث کرتے
ہیں۔ رات اور دن تک ٹاک شو ہوتے ہیں ۔ماہرین ہر چیز کو معشیت ،سیاست، ملکی
حالات پر اثر اندازی ،عوام پر اثر اندازی ،معاشرتی اثرات وغیرہ ۔تمام
حوالوں سے بحث کرتے ہیں ۔لیکن اس بات پر گفتگو نہیں ہوتی کہ اس بارے میں اﷲ
و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم کیا ہے؟ اسلام کیا کہتا ہے؟اگر کبھی بحث
ہوتی ہے تو اسلام پر تنقید کے لیے، اس کے اصولوں کو غلط ثابت کرنے کے لیے ۔
حدوداﷲ کی تنسیح کے لیے ،اسلامی قوانین کی تضحیک کے لیے۔ کبھی کوڑوں والی
جعلی ویڈیو کے آڑ میں،کبھی برقعہ ویگنزا کی صورت میں۔ کبھی عورت کے حقوق کے
نام پر،وراثت اور گواہی کے احکام پر تنقید کی جاتی ہے۔ کبھی عورت کی آزادی
کے نام پر ۔اس کو گھر کے میدان سے فرار کی تعلیم دی جاتی ہے۔
آج مسلمان ممالک کی مغرب زدہ عورت اسلامی شعائر پر معذرت خواہانہ رویہ
رکھتی ہے ۔مسلما ن ممالک میں قرآن کو چھوڑ کر ہدایت کے لیے آکسفورڈ اور
ہارورڈ کا نصاب پڑھایا جا رہا ہے۔ کتا ب اﷲ کو قانون بنا کر نافذ کرنے کی
بجائے اس کو صرف تبرکاً اور فوتگیوں پر پڑھنے کے لیے رکھ دیا گیا ہے۔ یہاں
مغرب کے خوف سے مدارس پر پابندی ہے۔جہاد کے معنی بدلے جارہے ہیں۔علماء
مسلکی اختلافات اور گروہ بندی میں مبتلا ہیں۔ حکمران کمزور ، مغرب اور یہود
و نصاری ٰ کے باجگزار ، وظیفہ خوار، ان کے ٹکڑوں پر پلنے والے، ڈالروں کے
عوض قوم کے بیٹوں اور بیٹیوں کو فروخت کرنے والے اور ملکی وقار کو ذاتی
مفاد کے عوض بیچ دینے والے ہیں۔ دین سے اس حد تک بے بہرہ کہ کوئی قرآن پاک
کے پاروں کی تعداد 40 بتاتا ہے اور کوئی سورہ اخلاص تک نہیں پڑھ سکتا۔ بے
غیرتی کا عالم یہ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے ان کے کان پر جوں تک
نہیں رینگتی اور ملعون آسیہ کی رہائی کے لیے جیل میں جا کر ، ملاقاتیں کر
کے مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے چکر میں اﷲ کے عذاب کے پھیر میں آجاتے ہیں۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان تو کب سے مغلوب ہیں۔مغربی تہذیب
پچھلی تین صدیوں سے غالب ہو رہی ہے۔لیکن شعائر اسلام اور ناموس رسالت کی
توہین کی جسارت آج کل کیوں بڑھ گئی ہے؟ کیا اس کی وجہ صرف مسلمانوں کی بے
عملی اور حکمرانوں کی بے حمیتی ہے یا کچھ اور وجوہات بھی ہیں؟کفر اوچھے
ہتکھنڈوں پر اس وقت اترتا ہے جب وہ کھلے میدان میں مسلمانوں کو شکست نہیں
دے سکتا اور اسلام ان کی تمام غارت گری کے باوجود پھیلتا جاتا ہے تو کفار
رقیق حملے شروع کر دیتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ آج اﷲ کی تدبیر اپنا کام دکھا رہی ہے و مکرو ومکر اﷲ وﷲ خیر
الماکرین’’اور خفیہ تدبیریں کرنے لگے جواب میں اﷲ نے خفیہ تدبیر کی اور
ایسی تدبیروں میں اﷲ سب سے بڑھ کر ہے‘‘(سورہ آل عمران 54 )
وہ اپنے منہ کی پھونکوں سے اﷲ کے نور کو تو بجھا نہ سکے جس کی روشنی چار
دانگ عالم میں پھیل رہی ہے لیکن وہ جھاگ اڑارہے ہیں۔ ہذیان بک رہے ہیں ۔
ودو ما عنتم ہ قد بدت البغضاء من افواھھم و ما تخفی صدوروھم اکبر’’تمھیں جس
چیز سے نقصان پہنچے وہی ان کو محبوب ہے ان کے دل کا بغض ان کے منہ سے نکلا
پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے شدید تر
ہے‘‘(سورہ آل عمران118 )
کیونکہ ایک جانب عراق اور افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے باوجود وہ
فتح سے کو سوں دور ہیں اور واضح شکست کو چھپانے کے بہانے تلاش کر رہے ہیں
اور دوسری جانب ان کے اپنے اعدادو شمار کے مطابق اگلے تیس سے پچاس سال میں
امریکہ اور یورپ میں آبادی کا توازن مسلمانوں کے حق میں بدلنے والا ہے ۔
امریکہ میں 1970ء میں مسلمانوں کی تعداد ایک ملین تھی اور2008ء میں 9ملین
سے زائد ہو گئی۔ برطانیہ میں اس وقت مسلمان 2.5ملین ہو چکے ہیں اور5ہزار
سالانہ اسلام قبول کر رہے ہیں ۔ فرانس غیر مسلموں کا fertality rate1.8اور
مسلمانوں کا8.1ہے۔20سال سے کم عمر کے 30%سے زائد بچے مسلمان ہیں ۔ان کی
اپنی sitesبتاتی ہیں کہ39سال بعد انشاء اﷲ فرانس میں مسلمانوں کی تعداد
زیادہ ہو جائے گی ۔ جرمن2050ء میں مسلم stateہو گی ان شاء اﷲ) (German
Fedral statistics officeاسی طرح مساجد کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے ۔
دیکھے یو ٹیوب پرMuslim demographics میں(Its time to wake up)وہ ایک جانب
Wake up callsدے رہے ہیں۔کہ ان کی عورتیں جو اب فیملی لائف سے بہت دور نکل
چکی ہیں واپس بچے پیدا کرنے کی جانب آ جائیں ۔طرح طرح کےIncentivesدئیے جا
رہے ہیں ۔لیکن ان کی واپسی اب محال نظر آ رہی ہے ۔البتہ وہاں کے مسلمان ان
کے Incentives سے بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اسلام قبول کرنے والوں
میں اکثریت عورتوں کی ہے ۔
آج ہم چہرے کے پردے پر شرمندہ نظر آتے ہیں مسلمان علماء رخصتوں کے فتوے دے
رہے ہیں اور کچھ مسلمان علماء چہرے کے پردے کو اسلام کے پھیلاؤ میں رکاوٹ
قرار دے رہے ہیں لیکن وہاں کی نو مسلم خواتین مکمل حجاب کو اپنا رہی ہیں
اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتیں ۔اب سمجھ میں آتا ہے یورپی
ممالک کیوں حجاب پر پابندی کے قوانین بنا رہے ہیں ۔گویا جب ان کے صالحین
دین اسلام کی طرف لپک رہے ہیں تو ان کے اشرار بوکھلا اٹھے ہیں اور کبھی
مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ کا (crusade)ارتکاب کرتے ہیں،کبھی میڈیا کے
ذریعے ناموس رسالتﷺ پر حملہ آور ہوتے ہیں کبھی حکمرانوں کو خریدتے ہیں،
تاجروں کو خریدتے ہیں، NGOs کو میدان میں لاتے ہیں جو اربوں ڈالر کے شوگر
کوٹڈ منصوبے بناتی ہیں اور قوم کی رگوں میں زہر انڈیلتی ہیں،کبھی فیملی
پلاننگ کی ادویات کی صورت میں Aidsسے بچاؤ کی صورت میں، CEDAWکے ایجنڈے کی
صورت میں ،بہبود خواتین کے نام پر ،چائلڈ لیبر کی آڑ میں اور دستوری
تبدیلیوں کی مذموم کوششوں میں مصروف ہیں۔ذرائع ابلاغ سارے کے سارے ان کے
ہیں الا ماشاء اﷲ۔اگرچہ ان حالات میں اﷲ کی مشیت اور اس کی تدبیر اپنا کام
کر رہی ہے لیکن اصل امتحان تو ہمارا ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے ۔ہمیں غور کرنے
کی ضرورت ہے ۔
اے مسلمانوں!نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے لیے کٹ مرنے کے دعوے
کرنے والوں! پورے اخلاص سے سوچو! کیا اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت
پر سچے دل سے تیار ہو ؟انشاء اﷲ ہم تیار ہیں تو آئیے اس کا لائحہ عمل
بنائیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت نعروں اور جلسوں سے نہ ہو گی ہمیں
محنت کرنا ہو گی ۔ہمیں سوچنا ہو گا کہ مسلمان عوام الناس کا رخ کیسے واپس
اﷲ کی طرف موڑا جائے ۔جس دورنگی میں مسلمان مبتلاء ہیں ان کو کیسے نکالا
جائے ۔ایک طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کٹ مرنے کو تیار
ہیں دوسری طرف کرپشن اور بد دیانتی میں بھی سر فہرست ہیں ۔ایمان اﷲ و رسول
صلی اللہ علیہ وسلم پر ہے اور اسلامی قوانین کو ظالمانہ اور غیر منصفانہ
بھی کہتے ہیں ۔
افسوس اور ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ آج مسلمان طوائفیں ہیں ،مسلمان ڈاکو
ہیں،مسلمان ہم جنس پرست ہیں ،شرابی ہیں،چور ہیں،عید میلاد النبی بھی مناتے
ہیں ویلنٹائن ڈے بھی ۔میڈیا میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسے بھی
دکھاتا ہے اور ڈانس و موسیقی بھی ۔مجھے خوف ہے کہ اگر اسلام کی یہ نا قدری
جاری رہی تو اﷲ اور لوگ پیدا کرے گا جو ہم جیسے نہ ہوں گے ۔
و ان تتولوا یستبدل قوما غیرکم ثم لا یکونوا امثالکم’’اگر تم منہ موڑو گے
تو اﷲ تمھاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں
گے‘‘(سورہ محمد37)
الا تنفروا یعذبکم عذابا الیما و یستبدل قوما غیرکم ولا تضروہ شیاء ط و اﷲ
علیٰ کل شیء قدیر ہ
ُُاگر تم نہ اٹھو گے تو خدا تمھیں درد ناک عذاب دے گا،اور تمھاری جگہ کسی
اور گروہ کو اٹھائے گا ،اور تم خدا کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے ،وہ ہر چیز پر
قدرت رکھتا ہے‘‘(سورہ توبہ39)
اس لیے ہم سب مل کر ایک لائحہ عمل بنائیں تجاویز دیں تا کہ ہم ایک جانب
یہود و ہنود کی ان سازشوں کا مقابلہ کر سکیں ۔دوسری جانب اﷲ کے دین اور
اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت کر سکیں ۔*ایک Think Tank،
شوریٰ، یونین یا متحد ہ محاذ تشکیل دیا جائے جو اس طرح کے Issuesپر فوری
پلاننگ کرے اور تمام جماعتوں کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تیار کرے یہ وقت کی
ضرورت ہے ۔آج یورپ ایک یونین ہے ۔نیٹو ہے ۔امریکہ United statesہے ۔بدنصیبی
سے ہم ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ تعالوا الی کلمۃ اﷲ سواء بینناو بینکم۔آئیے
ان نکات پر اکٹھے ہو جائیں جو مختلف دینی جماعتوں کے درمیان مشترک
ہیں۔ٹکڑوں میں بانٹنا شیطان کا حربہ ہے ۔
یاد رکھیں اگر ہم مجتمع نہ ہوئے تو ترکی کے بعد آج عراق ،مصر میں حجاب پر
پابندی لگ چکی ہے ۔بنگلہ دیش پر تول رہا ہے ۔پاکستان کی حکومت کہیں زیادہ
باجگزارہے ۔اس کو کوئی چیز روک سکتی ہے تو ہمارا اتحاد اور مشترکہ لائحہ
عمل ۔تمامNGOs اسلام اور عورت کے اسلامی حقوق کے خلاف متحد ہیں ۔ہم ٹکڑے
ٹکڑے ہیں۔یہ پروگرامات جو پچھلے کچھ عرصے سے جاری ہیں بہت مبارک ہیں ،بہت
مبارک ہیں۔اﷲ شیطان کے حملوں سے محفوظ رکھے ۔آئیے اپنی اپنی جماعت کے اندر
رہتے ہوئے اپنے اپنے مسلک پر قائم رہتے ہوئے قومی اور گلوبلIssuesپر مشترک
تحریک چلانے کے لیے متحد ہو جائیں،ہم میں سے کوئی مکمل نہیں۔سب میں کچھ
خوبیاں ہیں تو کچھ کمزوریاں ہیں۔ہم خوبیوں کو ابھاریں، کمزوریوں سے درگزر
کریں۔ آئیے عہد کریں کہ ایک دوسرے کی تنقیص نہ کریں گے۔بنیان مرصوص بننے کی
کوشش کریں گے۔
* ہم سب مل کر پاکستانی حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ ناموس رسالت قانون اور دیگر
اسلامی شقوں کو چھیڑنے کی جسارت نہ کرے۔
*قوم کو استغفار کی طرف مائل کریں کہ وہ قوم دورنگی چھوڑ کر صبغت اﷲ اور
ادخلوا فی السلم کآفۃ کی طرف آجائے۔
* ہر موقع کے لیے خصوصی پلاننگ کریں۔سبھی ربیع الاول سے قبل ہم بھرپور
طریقے سے ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی مہم چلائیں اور ربیع الاول ،
’رجوع الی اﷲ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عملی پکار کا مہینہ
منائیں۔
* یہ بھی سوچا جائے کی میڈیا پر کام کیسے کیا جائے۔ انٹر نیٹ کے ذریعے دعوت
کیسے ہو؟ جو ایک جانب ان کافروں کو جواب دینے کا ذریعہ بنے اور دوسری جانب
اسلام کی صحیح تصویر پیش کرے۔
* مغرب کا اصل مکروہ چہرہ لوگوں کے سامنے بے نقاب کیا جائے۔ان کی سرمایہ
دارانہ اور سودی معیشت کی تباہ کاریاں واضح کی جائیں۔
* وہاں کی عورت کی حالت زاراعداد وشمار میں پیش کی جائے۔
*جن ناپاک ہاتھوں نے خاکے بنائے ۔ ان کی اشیاء کا بائیکاٹ کیا جائے۔
بائیکاٹ کیسے ہو؟ ۔۔۔ ۔۔ روز مرہ کی اشیاء۔۔۔ فہرست بنے۔
* جن حکمرانوں نے ان کا ساتھ دیا ، ان سے نجات کیسے حاصل کی جائے اس پر غور
کریں۔
* طلباء و طالبات کو بھی اس مہم میں شامل کیا جائے۔ پمفلٹ تیار کیے جائیں۔
* احتجاج آج کا ہتھیار ہے۔ طریقے سوچے جائیں۔
*مغربی تہذیب اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔
یہودیوں کی بڑی بڑی کمپنیاں پوری دنیا میں پنجے گاڑے لوگوں کا خون چوس رہی
ہیں اور افسوس ہمارے حال پر ۔۔۔ہم پیپسی اور کوک کے بغیر جی سکتے ہیں نہ
لکس اور ہیڈ شولڈر کے بغیر طہارت حاصل کر سکتے ہیں ! جب تک ہمارا شعور بیدا
نہ ہو گا وہ ہمارے ہی خون پسینہ سے منافع حاصل کر کے ہمیں ہی باجگزار بنا
کر رکھیں گے اور ان کی یہ بڑی بڑی کمپنیاں اپنے منافعوں سے بڑی رقوم
اسرائیل اور دشمنان اسلام کو دے کر ہمارا قتل عام کراتی رہیں گی ۔میڈیا پر
بیش قیمت اشتہارات کے ذریعے ان پروگراموں کو چلاتی رہیں گی ۔جو دن رات
شعائر اسلام کا مذاق اڑانے میں مصروف ہیں کبھی’’خدا کے لیے‘‘ طرح کی فلموں
کی صورت میں کبھی بر قعہ ویگنزا ،اور دیگر ڈراموں کی صورت میں ،کبھی فیس بک
اور یو ٹیوب پر پیارے نبی ﷺ کے خاکے بنا نے کی صورت میں!
حقیقت یہ ہے کہ’’ بائیکاٹ ‘‘اگر بھر پور طریقے سے کیا جائے تو چند دنوں میں
ان کو ناکوں چنے چبوائے جا سکتے ہیں ۔ڈنمارک کے اخبار نے خاکے بنائے تو عرب
ممالک کے چار دن کے بائیکاٹ میں ان کا ایک ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔face
bookکا بائیکاٹ روزانہ اربوں ڈالر کے خسارے کی صورت میں سامنے
آیا۔Telenorکا رینیو ایک ماہ میں آدھا رہ گیا ۔ایک ارب45کروڑ مسلمانوں میں
سے آدھے بھی بائیکاٹ کر دیں تو ان کے ہوش ٹھکانے آ جائیں۔کیا ہم نبیﷺ کی
نصرت کے لیے کچھ وقت لذتیں ترک کرنے کی ہمت رکھتے ہیں ؟آئیے عہد کریں ہم ان
تعیشات کا بائیکاٹ کریں گے اور اس کے ذریعے اپنے مسلمان مجاہدین کی نصرت کا
ذریعہ بنیں گے۔ خواہ دنیا کے کسی بھی حصے میں ہوں ۔
کی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں |