کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے یہ
جملہ قائد کا ہے لیکن حقیقت ، وقت کی ہے کہ اسکے بغیر نہ تو پاکستان کا نام
نہ اس نقشہ مکمل ہے۔ یوں تو بھارت میں بہت سے مسلم اکثریتی علاقے ہیں لیکن
کشمیر کا مسئلہ مختلف یوں ہے کہ یہ قدرتی طور پر پاکستان کا حصہ ہے اور
پاکستان کے ساتھ متصل ہے۔ پاکستان کے بیشتر دریا کشمیر سے نکلتے ہیں یعنی
ان کے منبے کشمیر میں ہیں یوں پاکستان کی رگوں میں دوڑتا لہو کشمیر سے آتا
ہے دوسری طرف پاکستان کشمیر کیلئے اتنا ہی اہم ہے ایک تو مذہبی رشتہ اور
دوسرے ہندوستان جیسے پڑوسی کی موجودگی میں اس کے تحفظ کی ضمانت اسی میں ہے
کہ وہ پاکستان کا حصہ بنے۔ پاکستانی اور کشمیری عوام کبھی ایک دوسرے کو الگ
سوچ بھی نہیں سکتے اور یہی وجہ ہے کہ بھارت گزشتہ تریسٹھ سال سے جو مظالم
ڈھا رہا ہے اس پر پاکستانی عوام ہمیشہ دکھ کا شکار بھی ہوتے ہیں اور غم و
غصے کا بھی۔ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ کہنے والوں نے کبھی کشمیریوں کے
دکھ پر دکھ کا اظہار نہیں کیا ۔ کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کو دہشت گردی
قرار دینے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ آزادی دنیا کے ہر انسان کی طرح
کشمیریوں کا بھی حق ہے۔ جس کیلئے وہ لوگ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے
ہیں۔ جبکہ بھارت سرکار اس جذبہ آزادی کو کچلنے کیلئے ایک سے بڑھ کر ایک
کالا قانون آزما چکی ہے فوج کو لامحدود اختیارات حاصل ہیں جس کی رو سے وہ
کسی بھی کشمیری پر صرف شبہے کی بنیاد پر بھی گولی چلا دیتی ہے اور کسی
کشمیری کا خون بہہ جانا بھارتی فوج کیلئے کسی پریشانی یا پشیمانی کا باعث
نہیں ہوتا۔ نہ ان کیلئے یہ اہم یا سوچنے کی بات ہے کہ ان کی گولی کا نشانہ
بننے والا نوجوان ہے بوڑھا ہے یا بچہ ، اگر عورت بھی اس گولی کا نشانہ بن
جائے تو بھی کوئی خاص بات نہیں۔ کشمیر میں بھارتی فوج نے ہر طرح سے انسانیت
کی دھجیاں بکھیر دی ہیں جس طرح کسی کشمیری کی جان محفوظ نہیں ہے اسی طرح
کسی عورت کی عزت محفوظ نہیں ہے۔ صرف 2010 کے اعدادوشمار لیں تو بھارت کی
عظیم جمہوریت کا پول کھل جاتا ہے۔ صرف اس ایک سال میں 447کشمیری مسلمان
بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہوئے جبکہ 6076عام شہری زخمی ہوئے۔ گھروں کی
تلاشی بھی بھارتی فوج کا ایک پسندیدہ مشغلہ ہے اور اسی شغل کو جاری رکھتے
ہوئے 132گھروں کی تلاشی لی گئی اور ان ساری کاروائیوں کے دوران 2188کشمیری
گرفتار ہوئے۔ ان گرفتار شدگان میں سے گیارہ زیرِ حراست افراد غائب کر دیئے
گئے۔ عورتوں اور بچوں کا اس صورت حال میں متاثر ہونا ایک قدرتی امر ہے
لہٰذا عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہو گئے لیکن اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ امر
وہ ہوتا ہے جب عورتوں کی آبروریزی کی جاتی ہے اور کشمیر میں بھارتی فوجی
مسلسل اس مکروہ فعل میں ملوث ہے صرف سال 2010میں 87خواتین کی بے حرمتی کی
گئی۔ صرف دسمبر کے مہینے میں دس لوگوں کی شہادت کے ساتھ تین خواتین کی بے
حرمتی کی گئی ہے۔ 78کو تشدد کا نشانہ بنا کر شدید زخمی کیا گیا ہے۔ اگر یہ
ایک سال کے اعداد و شمار ہیں تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مجموعی طور پر
کیا صورتِ حال ہوگی۔ 2010میں کشمیر میں بد ترین کرفیو نافذ رہا۔ بین
الاقوامی میڈیا کے کشمیر میں داخلے پر پابندی لگائی گئی تا کہ کشمیر کے
حالات کو دنیا کی نظر سے اوجھل رکھا جا سکے اگرچہ یہ کرفیو اور پابندی ہی
دنیا کو جگانے کو کافی تھے تاہم انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اس طرح سے
کبھی بھی نہ چیخیں جیسے وہ کسی ایک انسان کے ساتھ زیادتی پربھی چیخ اٹھتی
ہیں درست ہے کہ ایک انسان پر بھی ظلم نہ ہو لیکن یہاں تو پورے خطے پر ظلم
ہو رہا ہے۔ فوج کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے وہ جب چاہے جہاں چاہے کسی کشمیری
مسلمان کو مشکوک قرار دے کر بھون ڈالے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ انسانی حقوق
کی تنظیمیں خاموش اس لیے ہیں کہ یہ سب کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے ۔
اقوامِ متحدہ نے قرار دادیں تو منظور کر لیں لیکن ان پر عمل درآمد کیلئے
کسی قسم کا عملی کام نہ کیا اور یوں لگتا ہے کہ جب کشمیریوں کی نسل کشی
مکمل ہو جائے گی تو اقوامِ متحدہ مسلمانوں سے خالی خطہ کشمیر کے حق کیلئے
بولے گا۔ دوسری جانب امریکہ کسی مسلمان ملک میں ہنگاموں اور ہڑتالوں پر بھی
بولتا ہے اور حکومت کو عوامی رائے کے احترام کا درس دیتا ہے۔ مصر ہی کی
مثال لیجئے کہ حکومت مخالف مظاہروں پر جان کیری نے فوراً حکومت کو عوامی
رائے کے احترام کا حکم دیا۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ ایسا ضروری ہے لیکن یہی
فارمولا کشمیر پر کیوں لاگو نہیں کیا جاتا جہاں کے عوام اپنی نسلوں کی
نسلیں قربان کر چکے ہیں جو روز سڑکوں پر ایک ہی مطالبہ لے کر نکلتے ہیں اور
آزادی ، آزادی کے نعرے لگاتے لگاتے ایک غیر مذہب ، غاصب حکومت اور بے رحم
فوج کی گولیوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور اگلے دن ان شہدا کی جگہ کئی اور
غازی آزادی کا مطالبہ لے کر سڑکوں پر آ جاتے ہیں یہ سلسلہ گزشتہ چھ دہائیوں
سے جاری ہے لیکن نہ عالمی طاقتوں کے کان پر جوں رینگ رہی ہے نہ بھارت کوئی
ارادہ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ کشمیریوں کو آزادی دے گا۔ بلکہ کشمیر پر تو
پاکستان کو جو مضبوط، مؤثر اور ٹھوس مؤقف اختیار کرنا چاہیئے اس میں بھی
اکثر لچک پیدا کر دی جاتی ہے لچک پیدا کرنا غلط نہیں لیکن قومی مفاد پر زد
تو بڑی بات ہے اس میں بال بھی آ جائے تو یہ غلط ترین ہے۔ اس وقت کشمیریوں
کو ہماری اخلاقی مدد کی ضرورت ہے اور ہمیں بین الاقوامی سطح پر مسئلہئ
کشمیر کو زیادہ مؤثر انداز میں اور زیادہ زور و شور سے اجاگر کرنا ہوگا۔
بھارت سے ہر قسم کے تعلقات کو اسی مسئلے سے منسلک کر دینا چاہیئے اور اس سے
ہر بات چیت کیلئے پہلی شرط مسئلہ کشمیر کو بنا دینا چاہیئے۔ پڑوسیوں کے
ساتھ امن سے رہنا ہر ملک تو ملک انسان کی بھی خواہش ہوتی ہے ملکوں کے
تعلقات تو پوری قوم کے حال اور مستقبل پر اثر انداز ہوتے ہیں اس لیے ان
تعلقات کا خوشگوار ہونا بہت اہم اور ضروری ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری
قومی وقار اور ملکی مفاد ہے۔ کشمیر جس پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تین
کھلی جنگیں ہو چکی ہیں اور سرحدی جھڑپیں تو ایک معمول ہے۔ اس مسئلے کا حل
ہونا نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت اور پوری دنیا کے حق میں ہے ۔ دو ایٹمی
قوتوں کے درمیان تنازعات کے نتائج سے دنیا کا محفوظ ہونا ضروری ہے ۔پاکستان
اور بھارت کے درمیان بنیادی تنازعہ کشمیر ہی ہے باقی تمام مسائل اسی مسئلے
سے جڑے ہوئے ہیں کیونکہ پاکستان اور پاکستانیوں کا مطالبہ انتہائی منطقی
اور جائز ہے کہ وہ اپنے مسلمان کشمیری بھائیوں کے حقِ خود ارادی کیلئے ان
کی مدد کرنا چاہتے ہیں جن کے دل مسلمان ہونے کے ناطے ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔
بین الاقوامی برادری کو اس سلسلے میں پاکستان اور کشمیریوں کے مطالبات
ماننے کیلئے بھارت کو مجبور کرنا ہوگا۔ |