عشق ِ مجازی سے عشقِ حقیقی تک کا سفر‘ اگر ہم تاریخ تصوف
کے آسمان پر نظر ڈالیں تو حق تعالیٰ نے ہر دور میں جہالت گمراہی کے گھٹا
ٹوپ اندھیروں میں غرق انسانوں کے ریوڑ کو گمراہی سے نکالنے کے لیے روشنی کے
مینار‘ ایسے لوگ ہر دور میں روشن ستاروں کی طرح آسمان تصوف پر روشن منور کر
تا ہے کہ ان کی روشنی سے کہکشاوں نے بھی روشنی کی بھیک مانگی ‘ ایسے انمول
ستاروں کے وجود میں آنے سے ستاروں کے جھرمٹ میں نور کے دریا بہنے لگے ‘ اِن
ستاروں میں رب ذوالجلال نے مختلف زبانوں علاقوں کے لیے رشد وہدایت کی روشنی
رکھی ہوتی ہے ‘ کچھ ستارے تو اِس شان سے طلوع ہو تے ہیں کہ قیامت تک کے لیے
آسمان ِ تصوف جگمگا اٹھتا ہے کچھ ایسے ستارے بھی معرض وجود میں آئے ہیں جو
کچھ عرصے کے لیے کسی خاص علاقے یا ملک کے زنگ آلود ہ اذہان و قلوب کو اخلاق
حسنہ کی روشنی دے کر ہمیشہ کے لیے غروب ہو جاتے ہیں ‘ کچھ گمنام ستارے ایسے
بھی ہیں جو چند لمحوں کے لیے چمکتے ہیں لیکن ان چند لمحوں میں ہی وہ اجالوں
کی سوغات بانٹ کر چلے جاتے ہیں ‘ ایسے لوگ دھرتی پر اپنے اپنے وقت پر
انسانی شکل میں جنم لیتے ہیں پھر اُس علاقے کے بھاگ جاگ جاتے ہیں ‘ تاریخ
انسانی کے اِن عظیم نفوسِ قدسیہ کا اگر ہم مطالعہ کریں تو یہ دنیا کے چپے
چپے پر اپنے وقت میں آئے ‘ زنگ آلود ذہنوں کے زنگ کو اجالے میں بدلا اور
چلے گئے یہ لوگ بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ گمنام قصبوں میں سورج کی طرح طلوع
ہو تے ہیں کہ اُن کی عظمت اور شان کے پیش نظر خود چاند ستارے سورج اُن کا
طواف کرتے نظر آتے ہیں ‘ ہوائیں فضائیں اِیسے لوگوں کے بوسے لیتی ہیں ‘
ترقی یافتہ شہروں سے سینکڑوں میل دور کچی بستیوں میں اِن ہیرے جواہرات جیسے
لوگوں کو پالا پوسا ‘پتھریلی ‘ٹیٹرھی میڑھی ‘ناہموار پگڈنڈیوں نے لاکھوں
انسانوں کو معرفت کی روشنی عطا کی ‘ وہاں کے ٹنڈ منڈ درختوں نے بہاروں کا
پیغام دیا ‘ شکستہ تنگ و تاریک جھونپڑوں نے رنگ و نور کے چراغ روشن کئے ‘
صحراؤں نے مہذب تہذیبوں کو جنم دیا ‘ گارے مٹی کے حجروں نے شاہی محلوں کو
شرمانے پر مجبور کر دیا ‘ اگر آپ قدرت کے رازوں کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت
کھل کر سامنے آتی ہے کہ میلوں پر پھیلے کروڑوں انسانوں کے شہر ‘برقی
فانوسوں سے روشن سڑکیں ‘ فلک بوس عمارتیں ‘ بین الاقوامی تجارتی منڈیاں ‘
یونیورسٹیاں ‘ مدرسے و خوشحال اور علم و دولت میں غرق انسان علم کے زعم اور
دولت کی چکا چوند میں غرق ایسے مادی جانور پیدا کر تے رہے جبکہ کام کے آدمی
جو پیدا ہو ئے وہ کسی دور افتادہ گاؤں بلند بوس پہاڑوں کے دامن میں گھاس
پھونس کی جھونپڑیوں خاک اڑاتی بستیوں اونچے نیچے ناہموار کچے راستوں بے آب
و گیاہ صحراؤں گارے کی مٹی کے حجروں بدویانہ ماحول سر کنڈے کیکر کے درختوں
بڑے شہروں سے گھنٹوں کی پیدل مسافت پر جہاں نہ بجلی نہ سکول نہ بنیادی
سہولتیں وہاں پیدا ہوتے ہیں ‘ قدرت اپنے عظیم پلان کے تحت ایسے انسانوں کو
دھرتی کے بنجر بے آب گیاہ علاقوں میں بھی پیدا کر تی ہے ‘ ایسے انسان ایسے
ستارے جو اُن بستیوں کے تاریک اندھیرے دورکرتے ہیں ۔ قدرت کا یہ عجیب انداز
ہے کہ کھردرے علاقوں سے نفیس انسان پیدا کر تی ہے دور دراز بنجر خطوں سے
دلوں کو اخلاق کے اجالے دینے والے آدمی لاتی ہے ‘ بنجر زمینوں سے شاداب
جاندار انسان نمودار کرتی ہے ۔گمنام ویران قصبوں سے شہرت یافتہ انسان
پیداکرتی ہے ‘ ایسا ہی ایک خاص بچہ آج سے پچاس سال قبل مظفر آباد (کشمیر )
سے میلوں دوردھنی نو سری سے بلگراں موضع جبڑا کلگراں میں پیدا ہوا ‘ اِس
بچے نے غربت کے ظلمت کدے میں آنکھ کھولی ایسا بچہ جس کی تخلیق میں عشق کی
مٹی کو استعمال کیا گیا جو پھر عمر بھر گیلی لکڑی کی طرح سلگتا رہا ‘ جس کی
رگوں میں خون نہیں بلکہ خون کی ایک ایک بوند میں عشق تھا جس کی زندگی ہر
لمحہ عشق عشق الٰہی تھا جو عشق کی بھٹی میں سلگتا رہا ۔جس کے وجود میں
کثافت کی بجائے لطافت تھی جس کی روح تلاش حق کے لیے بھاگتی رہی روح کی تلاش
نے اُسے ساری عمر مضطرب رکھا ‘ اِسی باطنی اضطراب نے ساری زندگی اُسے چین
سے بیٹھنے نہیں دیا ‘ اندر کا یہ اضطراب بے قراری اُس کے جسم کے انگ انگ سے
چھلکتی تھی ‘ قدرت نے اِس عاشق کے لیے جو علا قہ چنا وہ آج پچاس سال بعد
بھی سڑک تک سے محروم ہے ‘ جہاں پر آج بھی جانے کے یے دو گھنٹے پیدل سفر
کرنا پڑتا ہے تو پچاس سال پہلے اِس علاقے کا کیا حال ہو گا ‘ غربت کی آغوش
میں آنکھ کھولنے والے اِس بچے کانام عزیز الحسن ناصر رکھا گیا جو بعد میں
جا کر ناصر کشمیری کے نام سے بزمِ جہاں میں معروف ہوا ‘ جس گھرانے میں بچے
نے آنکھ کھو لی وہ خاندان صدیوں سے جانوروں کی طرح بے یار و مددگار زندگی
گزار رہا تھا جس گھر پر سالوں سے فاقوں کا راج تھا ماہ و سال کی حرکت سے
بچہ پانچ سال کا ہو اتھا تو کئی میل دور پرائمری سکول میں داخل کرا دیا گیا
غربت کی چکی میں پستے ہوئے یہ بچہ پانچ جماعتیں پاس کر گیا ‘ قدرت نے اِس
کے آگے کا سبب اِسطرح پید اکیا کہ مظفر آبا د میں انسا ن دوست سکول ٹیچر کے
گھرمیں پہنچ گیا ‘ اُس اچھے انسان کی زندگی کا مقصد یہ تھاکہ تعلیم کے نور
کو عام کیا جائے اِس مشن کے لیے وہ بے سہارا بچوں کو سکول میں داخل کرا تا
پھر اُن کے سارے اخراجات برداشت کر تا تھا پھر یہ بچہ زندگی کے زینے چڑھنے
لگا یہاں پر وہ گھر کے کام کاج کے ساتھ تعلیم کے سلسلے کو بھی چلاتا چلا
گیا ‘ اب یہی بچہ میڑک کر لیتا ہے تو پھر قدرت نے اِس بچے کے لیے جس شہر کا
انتخاب کیا ہو تا ہے اُس شہر کو ہ مری میں لے جاتی ہے ‘ ناصر نے یہاں تک
آنے کے لیے زندگی کے ہر سانس کی بھر پور قیمت ادا کی تھی ‘ محنت مزدوری گھر
کے کام کاج دوسروں کے ٹکڑوں سے پیٹ کے دوزخ کو بھرتا رہا کیونکہ بچپن سے ہی
گھر والوں کے لاڈ پیار سے محروم ہو چکا تھا ‘ دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنے کی
وجہ سے زندگی کا اصل چہرہ دیکھ چکا تھا ‘ فطری خصوصیات کے ساتھ دوسروں سے
محبت و تعاون ناصر کی زندگی کا حصہ بن چکا تھا ۔ مری میں ناصر بھی کسی نیک
اور مخیر انسان کے گھر آگیا تھا اب اس شہر میں زندگی اپنی تلخ حقیقتوں کے
ساتھ دستانے پہنے اُس کی منتظر تھی ‘ اب یہاں اُس نے زندگی کے دن پورے کر
نے کے لیے پھرمحنت مزدوری کا سفر شروع کیا ‘ دس سال کی عمر میں گھر سے
نکلنے والا بچہ اب نوجوانی کی دہلیز پرآپہنچا تھا ‘ ناصر کی تخلیق میں عشق
کی مٹی تھی عشق بے قرار ہو تا ہے اسی بے قراری نے اُسے چین سے نہ بیٹھنے
دیا‘ اب وہ ایک کام سے دوسرا کام کر تا چلا جارہا تھا ‘ بچپن سے مختلف
لوگوں اور گھروں میں رہنے کی وجہ سے ناصر کو اٹھنا بیٹھنا بو لنے کا ڈھنگ
آگیا تھا ‘ فطری ذہانت بھی اُس کے ساتھ ساتھ تھی ، زندگی کے کچے دھاگے کو
قائم رکھنے کے لیے وہ محنت اور مزدوری کر تا‘ پلمبر یا الیکڑیشن کا کام
کرتا‘ رولنگ سٹون ہونے کی وجہ سے وہ بہت سارے کام سیکھ چکا تھا ‘ فطری
شرافت رگوں میں دوڑتا صوفی عشقیہ خون جس کی وجہ سے وہ ہر قسم کی برائی سے
دامن بچاتا آرہا تھا ‘ بچپن سے ماں باپ کے جھولے سے کیا گرا کہ پردیسی ہو
کر رہ گیا ‘ عشقیہ مزاج اِس لیے جس سے بھی ملتا اُسے خوب عزت اور محبت دیتا
خو دبھی محبت کا بھو کا تھا جو خاندان اُس کو پیار کے دو لفظ بو ل دیتا اُس
کا بے دام غلام بن جاتا ‘ صوفی روح کی وجہ سے استغنیٰ کی چاشنی میں رنگا
ہوا تھا ‘ بے نیازی اُس کی رگ رگ میں بھری ہو ئی تھی اُس کے کردار گفتگو سے
بے نیازی چھلکتی تھی ہر انسان کے کام آنا دوسروں کی زندگی میں خوشیوں کے
رنگ بھرنا اُ س کی فطرت کا خاص رنگ تھا ‘ قدرت ناصر کو اُس کام کی طرف لانا
چاہ رہی تھی جس کے لیے اُسے پیدا کیا گیا تھا اب ناصر اپنی زندگی کے خاص
حصے میں داخل ہو نے والا تھا جہاں سے اُس کی اصل زندگی کا آغاز ہو نا تھا
اِس مشیت کے تحت چند سال بعد جب ناصر جوانی کے دور میں داخل ہوا تو مری
آرٹس کونسل میں بھرتی ہوگیا اب وہ ایک خوبصورت سمارٹ جوان تھا جیسے بولنے ‘
اچھا لباس پہننے کا آرٹ آگیاتھا ‘ پینٹ شرٹ میں وہ ایک خوبرو جوان تھا جو
دیکھتا اُس سے متاثر ہو ئے بنانہ رہ سکتا ‘ مری آرٹس کونسل میں اُس کی
نوکری کا دور جاری تھا کہ وہ لمحہ اُس کی زندگی میں آگیا جس نے اُس کی
زندگی کو بدل کر رکھ دینا تھا ناصر جوان تھا تھوڑا پڑھا لکھا بھی تھا اچھا
لباس پہنتا اور بولتا بھی اچھا تھایہاں پر اُسے عشق مجاز کے پل صراط سے گزر
کر عشق ِ حقیقی کی پر خار وادی میں ننگے پاؤں چلنا تھا ‘ یہاں پر ایک لڑکی
کو یہ دل دے بیٹھا اور لڑکی اِس کی شخصیت کے سحر میں گرفتار ہو گئی ‘ ناصر
کے خمیر میں عشق تھا دبی چنگاری سلگ کر آگ کا بھانبھڑ بن گئی ‘ رگوں میں
خون کی جگہ عشق کی بوندیں رقص کر نے لگیں ۔
عشق و گداز کی مٹی میں گندھے ہو ئے نوجوان ناصر کشمیری کو عشقِ مجاز کی
ٹھوکر لگ چکی تھی ‘ جسم کا رواں رواں عشقِ مجاز کی آنچ میں سلگنے لگا ‘
ویران بنجر زندگی میں قوس وقزح کے رنگوں کی دھنک ظاہری باطنی طور پر برسنے
لگی جسم کے خمیر اور باطن میں دبی چنگاری عشق کی چنگاری سے سلگ اٹھی جو چند
دن بعد دہکتے ہو ئے آگ کے آلاؤ میں بدل گئی اب ناصر کشمیری سراپا عشق مجاز
تھا پیدائش سے لے کر جوانی تک بے بسی مجبوری محرومی غربت مظلومی کے جلتے
سلگتے آگ برساتے ریگستان میں ننگے پاؤں ننگے سر چل چل کر اتر کر فطری
پیدائشی عاشق مزاج ناصر عشقِ مجاز کے نخلستان میں آدھمکا تھا ‘ برسوں کی
محرومی تشنگی بے بسی لاچاری کے سیاہ اندھیرے رنگوں اجالوں میں بدلنے لگے
محبت کا نغمہ باطن کے نہاں خانوں میں آبشاروں کے ترنم کے سر بکھیرنے لگا ‘
عشق مجاز کے گلشن میں آکر ناصر کشمیری کو زندگی خوبصورت لگنے لگی ‘ غربت
محرومی تشنگی ناکامی اور زندگی کے تلخ حقائق کے تھور نے جو جسم کی ہڈیوں تک
کو چاٹ رہا تھا اب اُس کی جگہ زندگی بھر پور رنگوں کے ساتھ انگڑائیاں لینے
لگی ‘ عشقِ مجاز کا رنگ جسم کے انگ انگ سے چھلکنے لگا ‘ آنکھوں کی روشنی
تیز ہو گئی چہرے ہونٹوں پر مستقل تبسم رقص کرنے لگا زندگی اتنی زیادہ
خوبصورت ہو گی اِس کے بارے میں نوجوان ناصر نے کبھی سوچا ہی نہ تھا عشق کے
بھی انوکھے اصول و ضوابط ہیں اِس میدان میں اگر آپ کسی سے محبت کریں اور
آپکا محبوب آپ کو مثبت جواب دے یعنی وہ بھی آپ کے عشق میں مبتلا ہو جائے تو
دھرتی پر ہی بہشت آباد ہو جاتی ہے ‘ ناصر کشمیری نے جس کو چاہا اُ س کے
اندر بھی عشق ِ مجاز کی آنچ سلگنے لگی ‘ کسی کے چاہے جانے کا نشہ دنیا کا
سب سے بڑا نشہ ہے جو لوگ اِس نشے کی کیفیت سے گزرے ہیں وہی اِس لافانی نشے
کی لذت اور سرشاری کو سمجھ سکتے ہیں ‘ ناصر کشمیری بھی اب عشق مجاز کے جھو
لے پر سوار دنیا ومافیا سے بے خبر محبوب کی زلف گیرہ گیر کا قیدی بن چکا
تھا ‘ محبوب کی شکل میں ناصر کے لیے جنت دھرتی پر اُتر آئی تھی ‘ محبوب کے
ناز وادا کے رنگ گھنٹوں محبوب سے باتیں ‘ محبوب کی ادائیں ابروئے چشم پر ہر
وقت غلاموں کی طرح حاضری ‘ جوانی اور عشق مجاز کا رنگ سر چڑھ کر بو لنے لگا
ابتدائی باتوں وعدوں ملاقاتوں کے بعد اب مستقبل کے سہانے خوابوں کے رنگ
ناصر کی آنکھوں میں تیرنے لگے ‘ دن رات باتیں ‘پھر کارڈ اور عشقیہ خط اور
شاعری کیسٹوں میں محبوب کو اپنے دلی جذبات پہچانے لے لیے سریلے گلو کاروں
کے شوخ محبت بھرے نغموں کے تبادلے ‘ ناصر کو محبوب کی ایک ایک ادا میں
ہزاروں جلوے نظر آتے ‘ وہ چھوٹی سے چھوٹی ادا پر مر مٹتا ‘ ناصر تہذیب و
تمدن سے دور زندگی کے ہنگاموں ‘ رعنایوں سے دور جانورو ں کے دیس سے شہر آیا
تھا اُس نے بچپن سے جوانی تک غربت بے بسی محتاجی سوکھے خشک پہاڑ مٹی گارے
کا بنا گھر ٹیڑھے میڑھے ناہموار راستوں پر ننگے پاؤں سفر کیاتھا یہاں اُس
کا واسطہ تہذیب و تمدن معاشرے کے ماڈرن طبقے میں پروان چڑھنے والی خوبرو
دوشیزہ سے پڑا تھا ناصر کو یہ سب کچھ سہا نا خواب لگ رہا تھا اُس نے خواب
میں بھی کبھی اسطرح کی رنگوں محبتوں محبوب کی اداؤں کی قوس قزح نہیں دیکھی
تھی یہاں پر چاروں طرف بہاروں کے قافلے تھے خوشبوؤں کے بسیر ے تھے ‘ ظاہر
باطن میں نشاط انگیز سر مستیاں تھیں جسم کے انگ انگ سے سر شاری مستی مسرت و
انسباط کے چشمے پھوٹ رہے تھے زندگی محبوب عشق کے رنگ اور سرمستیاں اہنے
جوبن پر تھیں ‘ ناصر کی پور پور عشقِ مجاز کے سمندر میں غوطے کھا رہی تھی ‘
تہذیب و تمدن ‘ شہری معاشرت سے دور پہاڑوں کے پیچھے غربت کی سیڑھی چڑھنے
والا ناصر زندگی کے شوخ رنگوں میں رنگ چکا تھا ۔کوہ مری کا موسم بادلوں کا
آسمان اور زمین پر رقص ‘ گرمیوں میں بارش کی بوندا باندی سردیوں میں برف
باری کے حسین نظارے ‘ چاروں طرف پھیلے خو ش رنگ ہزاروں قسم کے جنگلی پھولوں
اور سبزے ریشمی نرم و گداز قطعے رات کے سناٹوں میں آبشاروں کا ترنم ٹھنڈی
خنک ہواؤں کی مستیاں رات کو صاف آسمان پر چاند کی روشنی ستاروں کے جھرمٹ
مری کے گھنے جنگلات صدیوں پرانے دیو ہیکل درختوں کی لمبی قطاریں اِن گھنے
جنگلوں میں دو پیار بھرے جوان دل جو آنے والے خدشات سے بے فکر آنے والے
حسین دنوں کے جھولے جھول رہے تھے ‘ ناصر تہذیب اور شہری معاشرت سے کوسوں
دور پلا بڑھا تھا ‘ شہر کی لڑکی نے اُسے زندگی کے مہذب اصول و ضوابط
اخلاقیات کی آگاہی دی ‘ زندگی اِس قدر خوبصورت ہو گی یہ ناصر نے کبھی خواب
میں بھی نہ دیکھا تھا کسی خوبرو دوشیزہ نے جب دل و جان سے ناصر کو چاہا تو
اُس کی شخصیت کی بہت ساری محرومیاں کمزوریا ں بھی دور ہونے لگیں اب ایک
مستقل مسکراہٹ اور شوخی اُس کے چہرے کا حصہ بن چکی تھی اُس کی آنکھوں کی
جھیل میں سہانے خواب ہلکورے لیتے ‘ آنکھوں کی روشنی تصورِ جاناں سے ہر وقت
چمکتی دمکتی رہتی تھی ۔ ناصر جو پہلے اپنے آبائی گاؤں کبھی کبھار چلا جاتا
تھا اب وہا ں جانا تقریبا ختم کر دیا ‘ اُس کی کیفیت اب یہ تھی تیرے نام پہ
شروع تیرے نام پہ ختم‘ محبوب کا تصور اُس کی ادائیں محبت بھری سرگوشیاں بات
کرنا ملنے کے بہانے ڈھونڈنا اب ناصر کا اوڑھنا بچھونا بن چکا تھا جب بھی
کسی کو کسی سے محبت ہو جاتی ہے تو پہلے تو راز داری چلتی ہے لیکن پھر دونوں
کی اداؤں باتوں بلکہ جسم کے انگ انگ سے محبت کی خوشبو پھوٹنے لگتی ہے یہی
حال اب ان دونوں کا تھا ‘ شروع میں راز داری چلتی رہی دونوں دنیا جہاں سے
بے خبر ایک دوسرے کے خیال میں مست تھے دنیا کیا کہتی ہے دنیا کے تقاضے کیا
ہیں اِن اٹل حقیقتوں سے بے خبر پیار کے دو کبوتر عشق کے آسمان پر پرواز کر
تے جا رہے تھے جس طرح خوشبو چھپائے نہیں چھپتی اسی طرح عشق کی بو کبھی بند
کواڑوں سے بازاروں اور محلوں کا رخ کر تی ہے ابتدائی ملاقاتوں باتوں وعدوں
کا رنگ خوب چڑھا اور پھر برسا بھی ‘ اب اِس رنگ میں ایک دوسرے کو پانے کا
رنگ غالب آنے لگا جس طرح دنیا کے ہر عاشق جوڑے کوپھر یہ فکر دامن گیر ہو تی
ہے کہ اب اِس رشتے کو مستقل شکل دی جائے ‘ ناصر اور اُس کی محبوبہ کو بھی
یہ فکر اب ستانے لگی کہ اب ایک دوسرے کے ہونے کے لیے کو شش کی جائے اِس کو
شش کے لیے اب دونوں کی آنکھوں پر چڑھی خوابوں اور عشق کی پٹی سرکنے لگی اور
زمانے کے حقائق سامنے آنے لگے تو سب سے بڑی مشکل اور رکاوٹ سامنے آئی کہ
ناصر اور اُس لڑکی کے خاندانوں میں زمین آسمان کا فرق تھا ‘ زمینی حقائق کے
مطابق ناصر زمین تھا محبوبہ آسمان کا چمکتا ستارہ ‘ اب زمین آسمان کیسے مل
سکتے ہیں اب دونوں دن رات اس سوچ میں مستغرق کہ کس طرح راستے کی رکاوٹوں کو
دو ر کیا جاسکے ‘ بہت سوچ بچار کے بعد لڑکی نے کہا کہ وہ پہلے اپنی ماں سے
بات کرے گی جب ماں مان جائے گی تو پھرماں باپ سے بات کر کے باپ کو جب منائے
گی تو پھر ناصر رشتہ لے کر گھر آئے گااورپھر جب لڑکی نے گھرمیں بات کی تو
گھر میں بھونچال آگیا ماں بولی تم پاگل ہو وہ تو ہمارے ملازموں جیسا ہے تو
ہماری بڑی بیٹی ہے ‘ تمہارے لیے معاشرے کے بلند ترین رشتے قطاروں میں کھڑے
ہیں اگر تم نے ناصر سے شادی کی ضد کی تو تمہارا باپ تمہیں اور مجھے ایک
سیکنڈ سے پہلے قتل کر دے گا۔ عشق کے سمندرمیں غرق دونوں پریشان ہو گئے
دونوں کے سہانے دن رخصت ہو نے والے تھے ۔ ناصر بیچارہ بچپن سے محرومی کی
سولی پر لٹکتا آیا تھا ایک بار پھر اُس کی آنکھوں میں محبت کے رنگوں کی جگہ
پریشانی غربت محرومی کے سائے لرزنے لگے اب اُس نے ہمیشہ کی طرح محبوبہ کے
ما ں باپ کو منا نے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کر دئیے ‘ اب اُس نے اِس
کام کے لیے ملنگوں اور بابوں کے پاس جانا شروع کر دیا ہر در سے ناکامی مل
رہی تھی انہی دنوں مری میں ایک درویش کا جادو سر چڑھ کر بو ل رہا تھا جس کے
پاس ہزاروں لوگ آتے ‘ یہیں سے اُس کی زندگی کا اصل باب شروع ہو نا تھا جس
کے لیے خالق نے اُس کی تخلیق کی تھی آخر کار ناصر نے اُس درویش کے پاس جانے
کا فیصلہ کر لیا ۔
سنگلاخ چٹانوں سے آیا نوجوان ناصر محبوب کے عشق میں گرفتار ہونے کے بعد اب
اُسے پانے کے جنون میں مبتلا ہو چکا تھا ‘ عشق مجاز کے کھٹولے پر سوار ناصر
مری کامرس کالج کے پروفیسر درویش کے پاس جا رہا تھا جس کی شہرت مری کے قرب
و جوار میں آگ کی طرح پھیلتی جارہی تھی ‘ محبوب کے ساتھ سہانے مستقبل کے
خواب آنکھوں میں سجائے ناصر درویش کے گھر کے قریب پہنچتا ہے تو وہاں کا
منظر دیکھ کر بت کی مورتی میں ڈھل جاتا ہے کیونکہ وہ تو محبوب کو پانے کا
راز درویش سے تنہائی میں کرنا چاہتا تھا لیکن وہاں پر تو تین چار ہزار
انسانوں کا سیلاب آیا ہوا تھا ‘ وہ پہاڑ کی چوٹی سے نیچے جاتی سڑک کو دیکھ
رہا تھا جس کے ا طراف میں ہزاروں لوگ بیٹھے اپنی اپنی باری کا کا انتظار کر
رہے تھے سڑک کے ملحقہ چھوٹے سے میدان میں درویش بیٹھا زائرین میں فیض
بانٹنے میں مصروف تھا ‘ ہزاروں انسانوں کے مجمعے نے جوان عاشق کے قدم روک
لیے وہ شش و پنج کے ہچکولے کھانے لگاایک طرف محبوب کو پانے کی تمنا دوسری
طرف محبوب کے راز فاش ہونے کا خوف اِسی دوران وہاں پر اُسے جاننے والا مل
جاتا ہے تو پوچھنا ہے کہ تم یہاں کس لیے آئے ہو تو عاشق بہانا بنا دیتا ہے
ساتھ ہی سوال کر تا ہے کہ اِس درویش میں کو ئی کرنٹ وغیرہ ہے یا ویسے ہی
لوگوں کو پاگل بنایا ہوا ہے تو وہاں پر پھیلی ہوئی مبالغہ آمیزی کی باتیں
اُس آدمی نے بھی دہرا دیں کہ درویش دل کی باتیں جان لیتا ہے سب کے سامنے دل
کے راز کھول دیتا ہے ‘ یہ سننا تھا کہ عاشق کادل سہم گیا محبوب کی عزت اُسے
اپنی جان سے بھی پیاری تھی لوگوں کے سامنے محبوب کا ذکر آئے یہ اُسے کسی
بھی صورت میں گوارہ نہ تھا ۔ لہذا دل میں ہزاروں حسرتیں لیے ناصر وہاں سے
واپس آگیا ۔ تین چار دن اِسی خوف میں گزر گئے کہ درویش اُس کے دل کی باتیں
پڑھ لے گا ۔کبھی جانے کا ارادہ کر تا لیکن پھر تر ک کر دیتا پھر اُس نے
ادھر اُدھر بابوں کے پاس جاکر اپنی دولت لٹانی شروع کر دی ذ ہر بابا ملنگ
اُسے آسمان پربیٹھا دیتا کہ چند دنوں میں محبوب کے والدین مان جائیں گے خو
دتمہیں بلا کر رشتہ دیں گے ‘ ان وعدوں لاروں پر بیچارہ ایک در سے دوسرے در
پردھکے کھاتا رہا اِس دوران اُس کی توجہ کام سے بھی ہٹنے لگی تو اُس کے باس
نے بلا کر اُس کی وجہ پو چھی اور ساتھ ہی وہ اُس کے عشق کی خوشبو سونگھ چکا
تھا اُس کا ذکر کر دیا ‘ ناصربیچارہ مدد طلب نظروں سے دیکھ رہا تھا اُس سے
اپنا راز شیئر کر دیا اورمدد مانگی ‘ باس جو اُس کے ساتھ مہربان تھا ہمیشہ
اُسے اولاد کی طرح چاہا بولا یہ تم کس چکر میں پڑ گئے ہو تم اُس لڑکی کے
اخراجات برداشت کر سکتے ہو ‘ جتنی تمہاری پو ری مہینے کی تنخواہ ہے اتنا
اُس کا ایک دن کا خرچہ ہے فوری طور پر اپنا عشق کا بھوت سر سے اتارو ‘ یہ
کام تمہارے بس کا نہیں ہے لہذا فوری عشق سے باز آجاؤ ‘ باس کی یہ نصیحت
ناصرکو بالکل بھی پسند نہ آئی جس کے خمیر میں عشق ہو جس کی پور پور عشق میں
گندھی ہو ئی ہو وہ کیسے عشق سے دور ہو سکتا تھا ‘ بچپن سے کشمیری جوان کی
زندگی دوسروں کے رحم و کرم پر ہی گزری تھی ‘ معاشرے کا پسا ہوا نوجوان جو
دوسروں کے ٹکڑوں پر پلتا آیا تھا کسی نے اُسے لائق توجہ بھی نہیں سمجھا تھا
اِس لیے کسی نے بھی ناصر کو اِس قابل نہ سمجھا کہ اُس سے دوستی کرے یاپھر
محنت مزدوری نے اُسے دوستی تعلقات بنانے کا موقع ہی نہیں دیا جب سے وہ عشق
کی خار دار وادی میں کودا تھا خو د ہی اپنی محدود سوچ عقل و شعور پر اپنے
مسائل اور عشق کو پروان چڑھانے کا جذبہ اور پلاننگ کرتا آیاتھا کہ اُسے
سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کس طرح معاشرے کی طبقاتی تضاد اونچ نیچ کی خلیج کو
پاٹ سکے وہ کیا کرے کہ محبوب کے گھر والے مان جائیں اورپھر وہ اپنے محبوب
کے سنگ زندگی کا سہانا سفر شروع کر سکے ‘ ناصر بچپن سے غربت بے بسی لاچارگی
کی چکی میں پستا آرہا تھا گھر سے وہ خشک پتے کی طرح ٹوٹ کر تند و تیز
آندھیوں کے دوش پر ایک در سے دوسرے در تک اڑتا پھر رہا تھا ہ ایسی کٹی پتنگ
تھا جس کی ڈور کب سے ٹوٹ چکی تھی اب مقدر کی ہوا اُسے جدھر لے جاتی وہ ادھر
چلا جاتا ‘ امیر طاقتور بااثر خاندان والدین ہوتے تو ناصر اُن سے ضد کر کے
اپنی زندگی کی سب سے قیمتی خواہش منوانے کی کو شش کر تا لیکن اپنے والدین
کے حالات اور اُن کی کسمپرسی سے ناصر اچھی طرح واقف تھا ‘ اب عشق مجازی کا
یہ کے ٹو اُسے اکیلے ہی اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا کر بے آب و گیاہ صحرا
میں دہکتے کوئلوں پر ننگے پاؤں چلنا تھا ‘ مری شہر میں اُس کا اپنا تو کوئی
بھی نہ تھا وہ اس شہرمیں پردیسی تھا ‘ سانسوں کی کچی ڈور کے قائم رکھنے کے
لیے وہ دن رات محنت مزدوری کرتا آرہاتھا اُس کے پاس گھر تو دور کی بات ہے
ایک مرلہ زمین نہیں تھی گاڑی تو دور کی بات ہے ایک سائیکل تک نہ تھی اور نہ
ہی خاندانی وجاہت تھی جسکے سہارے وہ بات کرنے کے قابل ہو تا اگر وہ غور
کرتا تو دماغ کاعرق نُچڑ جاتالیکن کوئی راستہ اُسے نظر نہ آتا ‘ زندگی کے
سمندر کی طوفانی موجوں میں وہ تنہا ہاتھ پاؤں مار ہا تھا‘ سیا ہ اندھیرے
میں اِدھر اُدھر ہاتھ مار رہا تھا لیکن روشنی کی ہلکی سی کرن بھی نظر نہیں
آرہی تھی ۔ اسے جب کوئی راستہ نظر نہ آیا تو راولپنڈی کے بابوں روحانی
لوگوں کے پاس جاناشروع کر دیا ‘ اب پھر وہ جو کما تا اُن فراڈی بابوں کی
جیبوں میں ڈال آتا چند دن گزرنے کے بعد جب کامیابی کا کو ئی راستہ نظر نہ
آیا تو پھر مایوسی کے سیا ہ اندھیرے جو دن رات اُسے نگل رہے تھے ‘ عشقِ
مجازی اور باطنی اضطراب عروج پر تھا ‘ بے کلی بے قراری میں وہ ادھر اُدھر
سارا دن پھرتا اُسے کسی پل قرار نہ تھا اِسی آوارہ گردی میں وہ پھر ایک دن
پروفیسر درویش کے علاقے سے گزرتا ہے وہاں پر پھر وہ ہزاروں کارش دیکھ ٹھٹک
کر رک جاتا ہے پھر امید کی تلاش میں اُس کے قدم مقناطیسی کشش کے تحت درویش
کے مجمعے کی طرف اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں ‘ ہزاروں کا مجمع دور دراز تک سڑک
کنارے پھیلا ہوا تھا آج اُس نے فیصلہ کیا کہ اِس درویش سے ملتا ہوں ‘ شاید
یہ میری مدد کر دے رش کے قریب پہنچا تو دو چار جاننے والے اُسے مل گئے ‘ یہ
ڈر تاڈرتا پھر اُن لوگوں سے درویش کے بارے میں پوچھنے لگاکہ یہ کون ہے کہاں
سے آیا ہے اور یہاں پر اِس کا طریقہ واردات کیا ہے ‘ یہاں پر لوگوں کے کام
بھی ہوتے ہیں یا نہیں جب لوگوں نے درویش کے بارے میں اچھی رائے دی کہ پیسے
وغیرہ بلکل بھی نہیں لیتا ‘ فی سبیل اﷲ اﷲ کی رضاکے لیے یہ درویش یہاں
لوگوں کی خدمت کر رہاہے ۔اُس دن ناصر کئی گھنٹے اُس رش کے اردگرد گزار کر
درویش کی کارروائی کو بغور دیکھتا ہے لیکن درویش کے گردرش کی وجہ سے کئی
بار قریب جاکرپھر پیچھے ہو جاتا ‘ آج کافی وقت درویش کے پاس گزارنے کے بعد
اس کے دل کو کچھ سکون مل رہا تھا ۔اُسے درویش کا اِس طرح اﷲ کے لیے ڈیوٹی
دینا بہت اچھا لگ رہا تھا اُس کے باطن میں صوفی روح کو یہ منظر بہت اچھا لگ
رہا تھا ۔لیکن عشق کاراز فاش نہ ہوجائے اِس لیے کئی بار قریب جاکر بھی بات
نہ کی اور پھر ملے بغیر ہی واپس آگیا اور پھر ناصر اِس کوشش میں لگ گیا کہ
کسی طرح درویش سے اکیلے میں ملا جائے اور پھر جلد ہی اُسے وہ موقع مل گیا ‘
درویش کی عمر تیس سال سے کم تھی جوان درویش نے شفیق نظروں سے ناصر کو دیکھا
‘ اُس کے باطن کا مرض پڑھا اور بولا یہ عشق کا درد بندے کی جان لے لیتا ہے
‘ خدا دشمن کو بھی یہ سزا نہ دے درویش کی بات ناصر کے دل میں اُتر تی چلی
گئی ‘ درویش کے ہاتھ پکڑ کہ چومے پھر آنکھوں کے چھپڑ کھول دئیے خوب رویا غم
کا سمندر سارا نکال دیا ۔
سر کے بالوں سے پاؤں کے ناخنوں تک عشق مجازی کے سمندر میں غرق جوان ناصر
درویش کی بات سن کر بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہا تھا ‘ آج پہلی بار عاشق
کا آشنا ملا تھا جس نے اُس کے روگ کو پہچان لیا تھا ‘ ناصر کی گریہ زاری
دیکھ کر درویش کی آنکھوں میں بھی ساون بھادوں کروٹ لینے لگا ‘ درویش بھی تو
پچھلے کئی سالوں سے عشق حقیقی کی آگ میں جل رہا تھا ‘ درویش حق تعالی کے
عشق میں ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر موت سے مل کر زندگی کی طرف آیا تھا‘ اُس نے
بھی تو عشق روگ میں راتیں جاگ کر گزاری تھیں ‘ درویش کی آنکھوں سے بھی اِسی
روگ کے نتیجے میں آبشار ابلتے رہتے تھے ‘ ایک روگی ہی دوسرے کے روگ کو بہتر
جان سکتا ہے ‘ دو سوختہ دل ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے تھے ایک دوسرے کے درد
کو جانتے ہوئے درویش نے جوان عاشق کی کمر پر محبت سے ہاتھ پھیرنا شروع
کردیا ‘ اِس طرح درویش جوان کو حوصلہ دے رہا تھا ‘ درویش کی روحانی آنکھ
جوان عاشق کو دیکھ رہی تھی کہ کل کو اِس جوان نے اُس عشق مجازی کے پل صراط
سے گزر کر عشق ِ حقیقی کا جام پینا ہے ‘ جس طرح چرسی کے پاس چرسی ‘ کبوتر
باز کے پاس کبوتر باز ‘ مخنث کے پاس مخنث جاتا ہے اُسی طرح قدرت کے عظیم
پلان اور جوان عاشق کی تربیت کے لیے اُسے دوسرے عاشق کے پاس پہنچا دیا ‘ وہ
درویش جس نے آگے جاکر اُس کا مرشد بننا تھا جس کے عشق میں فنا فی شیخ کی
بھٹی سے گزر کر خدا کے عشق میں فنا کا لازوال مقام پانا تھا ‘ درویش جوان
عاشق کے ظاہر باطن کو دیکھ کر فیصلہ کر چکا تھا کہ اِس جوان عاشق کے ساتھ
کیا برتاؤ کر نا ہے اور کس طرح اِسے عشق الٰہی کے میدان میں لے کر جانا ہے
اب مرشد نے اپنے منصوبے کے پہلے مرحلے پر کام شروع کیا شفیق محبت بھرے لہجے
میں عاشق سے کہا بتاؤ یہ روگ کب سے لگا اور میں اِس میں تمہاری کیا مدد کر
سکتا ہوں اور تم بے فکر ہو جاؤ آج کے بعد تم نے بلکل بھی پریشان نہیں ہونا
‘ میں تمہارا مکمل ساتھ دوں گا اور تمہارا کام اﷲ کی مدد سے ضرور کروں گا ‘
درویش کا شفیق لہجہ دیکھ کر ناصر پر اعتماد ہو گیا پھر الف سے ے تک ساری
داستان عشق سنا دی درویش نے عاشق کی ساری داستان بہت توجہ اور پیار سے سنی
‘ دونوں کے اند ر عشق کی آگ زوروں پر جل رہی تھی اِ س لیے دو دیوانوں نے
خوب کھل کر بات چیت کی ‘ درویش نے جوان عاشق کو مصروف کر نے کے لیے چند
تعویز اور وظائف دئیے کہ جاکر یہ کرو ‘ جلدی تمہارا کام ہو جائے گا ‘ جوان
عاشق کو امید کا چراغ روشن ہوتا نظر آیا جاکر پوری تو جہ سے وظائف شروع کر
دئیے درویش نے چالاکی سے کہا تھا کہ دو تین مہینے لگ جائیں گے لیکن تمہارا
کام بن جائے گا تم بس جاکر وظائف کرو ‘ اب جوان عاشق نئے جوش اور ولولے سے
وظائف کر رہا تھا اِس دوران اُس کا جب دل کرتا جاکر درویش سے مل آتا ‘ اپنے
محبوب کی باتیں کرتا بار بار ایک ہی سوال کرتا مجھے میرا محبوب مل جائے گا
نا تو درویش ہر بار اُسے حوصلہ تسلی دے کر بھیج دیتا کہ تم فکر نہ کروبہت
جلد تم اپنی منز ل پالو گے ‘ درویش کی نظر میں اُس کی منزل عشق ِ حقیقی تھی
جبکہ عاشق کی نظر میں اُس کی منزل اُس کا محبوب تھا ‘ ناصر نے اب ریگو لر
درویش کے پاس جانا شروع کر دیا تھا جوان عاشق کو بچپن سے آج تک کسی نے
حقیقی عزت اور احترام نہیں دیا تھا وہ جب بھی درویش کے پاس جاتا وہ اُسے
خوب پیار محبت احترام سے ملتا ‘ گھنٹوں اُس کے محبوب کی باتیں کرتا ‘ درویش
کی شہرت مری سے نکل کر ملک کے دوسرے حصوں میں بھی پھیل چکی تھی پو رے ملک
سے لوگ درویش سے ملنے آتے تھے وہ کسی کو بھی لفٹ نہ کرا تا ‘ درویش اپنی بے
نیازی مستی میں غرق رہتا تھا کوئی آئے نہ آئے کون وزیر صدر آیا امیر آیا
اُسے اِن چیزوں کی کوئی پرواہ نہ تھی اور نہ ہی وہ کسی کو لفٹ کراتا تھا
لیکن ناصر جب بھی ملنے جاتا درویش اُس کو خوب لفٹ بھی کراتا اُس سے ڈھیروں
باتیں بھی کرتا ‘ درویش کا والہانہ پن شفقت محبت اب ناصر کے دل میں اُترنا
شروع ہو گئی تھی اِسی دوران ناصر کی زندگی میں ایک اور طوفان آگیا جب درویش
کی ٹرانسفر مری سے لاہور ہو گئی یہ حادثہ ناصر کے لیے جان لیوا تھا اب تو
اُس کی منزل چند قدم کے فاصلے پر تھی کہ درویش صاحب اب لاہور چلے گئے ہیں
جوان عاشق درویش کی جدائی سے ٹوٹ کر رہ گیا اُس کا وجود ریزہ ریزہ ہو کر
بکھر گیا تھا کیونکہ اُسے درویش سے محبت بھی ہو چکی تھی اب درویش اسے بہت
اچھا لگتا تھا درویش کے قریب رہ کر اُسے درویش کی بہت ساری خوبیوں کااحساس
ہو چکا تھا درویش کا عشق خدا ‘ خدمت خلق اور اُس کی محبت اِن چیزوں کی وجہ
سے جوان عاشق درویش کے بہت قریب ہوگیا تھا لیکن پھر اِس اداسی کاحل اُس نے
یہ نکالا کہ اب وہ ریگولر تھوڑے تھوڑے وقفے سے لاہور جاتا اور جاکر اپنے دل
کا غبار نکال آتا ‘ اِس دوران اُس نے اپنی محبوب کو بھی درویش سے جاکر ملا
دیا‘ ناصر کی محبوب سے مل کر درویش نے اُس لڑکی کو اچھی طرح سمجھایا کہ جب
تم اچھی طرح جانتی ہو کہ تمہارا باپ تمہارا رشتہ کبھی بھی ناصر کو نہیں دے
گا تو پھر تم نے اُسے لارا کیوں لگایا ہوا ہے جب یہ کام ممکن ہی نہیں ہے تو
آہستہ آہستہ اُس سے دور ہونے کی کوشش کرو ورنہ وہ دیوانہ عاشق تمہارے عشق
میں اندھا ہو کر کسی دن تمہیں نہ پاکر جان دے جائے گا اور تم ساری عمر
پچھتاتی رہو گی پھر لڑکی چلی گئی اِس کے بعد درویش نے جان بوجھ کر ناصر سے
محبت بھرے تعلقات قائم کر لیے کیونکہ ناصر کے وجود کی تخلیق عشق کی مٹی سے
ہوئی تھی اُس کو ہر حال میں ایک محبوب چاہیے تھا جس کی ذات میں فنا ہو کر
وہ حق تعالیٰ کے دربار میں کھڑا ہو سکے اب لڑکی محبوب کے متوازی اُس کو
درویش سے بھی عشق ہو گیا تھا بلکہ اب اُس نے درویش کو اپنا مرشد ماننا شروع
کر دیا تھا ‘ جیسے جیسے مرشد کا عشق بڑھتا جارہا تھا ویسے ویسے مجازی عشق
کی آگ ٹھنڈی پڑتی جا رہی تھی ۔ اب ایک طرف مجازی عشق تھا دوسری طرف مرشد کا
عشق تھا جو اب روز بروز بڑھتا جا رہا تھا ۔ اب جب عشق مجاز کا رنگ پھیکا
پڑنا شروع ہوا تو تھوڑ ی تھوڑی دونوں میں لڑائی بھی شروع ہو گئی ‘ اب ناصر
کا زیادہ جھکاؤ اپنے مرشد کی طرف ہو تا جا رہا تھا ‘ مرشد کے عشق کی خوبی
یہ تھی کہ یہاں پر نہ پانے کا خطرہ بلکل بھی نہیں تھا اِسی راستے سے ہو کر
عشق حقیقی کا دریا تھا مرشد نے اب ناصر کو ایسے اذکار بھی شروع کرادیے جو
عشق ِ حقیقی کی منزل کی طرف لے جاتے ہیں ‘ شروع میں تو ناصر کو عامل بننے
کا شوق تھا لیکن جب مرشد نے کہا تم پیدائشی فقیر ہو اور تمہاری منزل عشق
الٰہی ہے تو ناصر نے اِس بات پر غور کرنا شروع کر دیا ‘ روح میں عشق حقیقی
کے تمام اجزا پیدائشی طور پر تھے اِسے مرشد کی باتوں پر یقین آنا شروع ہو
گیا اب ناصر کو ایسے ورد کرائے جارہے تھے جس سے روحانی خواب آتے ہیں حجاب
اٹھ جاتے ہیں ‘ سالک عالم ارواح باطن کی پھر آسمانوں کی سیر کر تا ہے پھر
ایک رات ناصر کو بہت بڑی ہستی کی زیارت ہوئی تو خوشی خوشی مرشد کے پاس جاکر
بتا یا کہ آپ ہی اب میری منزل ہیں تو مرشد نے ناصر سے کہا کیا تم اپنی
محبوب کو چھوڑ سکتے ہو تو ناصر نے روتے ہوئے کہا آپ کا اشارہ سمجھ گیا ہوں
آج کے بعد آپ اُس لڑکی کا نام نہیں سنیں گے اب میرے محبوب میرے مرشد آپ ہیں
مجھے صرف آپ چاہئیں میری منزل اب آپ ہیں ۔
عشقِ مجازی کا کھلاڑی اب اپنے اصل میدان عشقِ حقیقی کی طرف بڑھ رہا تھا ‘
مرشد کے حکم پر ناصر نے اپنے مجازی عشق کی قربانی اِس شان سے دی کہ پھر
کبھی مڑ کر مجاز کی گلیوں میں نہ بھٹکا ‘ کو چہ مجاز سے کو چہ حقیقت کا سفر
شروع ہو گیا کیونکہ تخلیق ہی عشق کے لیے ہو ئی تھی رگوں میں خون کی جگہ عشق
کی بوندیں دیوانہ وار رقص کرتی تھیں اِیسے لوگوں کو ہر حال میں ایک محبوب
چاہیے ہوتا ہے پھر مجازی محبوب کی خامیوں کو دیکھ کر احساس ہو تا ہے کہ
میرا محبوب تو خامیوں سے پاک ہے اِس لیے دنیاوی محبوبوں کی بے وفائیاں دیکھ
کر پیدائشی عاشق پھر عشقِ حقیقی حق تعالیٰ کے عشق میں ڈوب جاتے ہیں اب ناصر
نے اپنا نیا محبوب اپنا مرشد بنا لیا تھا کیونکہ اُس کی تخلیق ہی عشق کی کے
لیے ہو ئی تھی اُس کی پور پور میں عشق تھا مرشد سے عشق کیا تو ساری حدیں
کراس کر گیا ‘ اب ناصر کی سانسوں اور رگوں میں خون کی بجائے مرشد کا عشق
دوڑتا تھا اُس کا اول آخر اُس کا مرشد بن چکاتھا ۔ اب مرشد نے ناصر کو راہ
حق کے وظائف اور چلے شروع کروا دئیے جو سالک کی روحانی ترقی کے لیے بہت
ضروری ہو تے ہیں ‘ عبادت ریاضت تزکیہ نفس مراقبہ جات ساری ساری رات کے
وظائف کلمے شریف کی ضربیں حبس دم کی مشقیں پرہیزی کھانے مرشد حکم کرتا گیا
ناصر سر تسلیم خم کر کے مانتا گیا ‘ کثرت عبادت اور مجاہدوں کے طفیل ناصر
میں روحانی تبدیلیاں رونما ہو نا شروع ہو گئیں تھیں ‘ پہلے خوابوں کا سلسلہ
شروع ہوا پھر جب حجابات اٹھنا شروع ہوئے تو باطن کے نظارے شروع ہو گئے کثرت
ذکر عبادات اور مجاہدوں کے نتیجے میں اب جسم لاغر اور روح طاقتور ہو نا
شروع ہو گئی ‘ باطن میں دبی نور کی چنگاریاں سلگ اٹھیں کثافت لطافت میں
ڈھلنے لگی تو عبادت اور نو رکی شدت سے ناصر پر حالت جذب و سکر طار ی رہنے
لگی مشاہدات شروع ہو گئے نور کی شدت مٹی کا جسم برداشت نہ کرتا اب جذب و
سکر ہیجان اضطرابی حالت طاری رہنے لگی جس میں جلال کا رنگ بھی شامل ہو گیا
تھا نیک ہستیوں کی زیارات شروع ہو گئیں مشاہدات سے مرشد پر یقین بڑھتا چلا
گیا اب روح کی سیر بھی شروع ہو گئی روح کی بیداری اور کثر ت عبادت سے اب
ناصر دن رات مری کی سڑکوں پر جنگلوں میں دیوانہ وار پھرتا مری کا ایک ایک
راستہ درخت پتے جڑی بوٹیاں ندیاں نالے آبشاریں ناصر کی دیوانگی اور ذکر کے
گواہ ہیں اُسے جو بھی ملتا اُس کو رات کو جنگل میں لے جاتا ‘ گھنٹوں خدا
اور اپنے مرشد کی باتیں کرتا ‘ انوارات کی تجلیاں اُس پر پڑتیں کثافت لطافت
میں ڈھلتی تو اُس کا جنون اور بھی بڑھ جاتا ‘ مرشد نے اُسے جس راستوں پر
لگایا تھا یہ اُس کی منزل تھی اب مچھلی سمندر میں آگئی تھی جو اُ سکی منزل
تھی ۔ مرشد کے عشق میں اُس نے اپنی ذات فنا کر دی تھی اُس کے لیے اول آخر
اُس کا مرشد تھا ‘ مرشد سے عشق کے بعد اُس کی دیوانگی کی حد یہ تھی کہ مرشد
کے خاندان کو اپنا خاندان مرشد کے باقی چاہنے والوں کو اپناپیر بھائی اگر
کو ئی بھی کبھی مری مرشد کے حوالے سے چلا جاتا تو اِس طرح غلاموں کی طرح
خدمت کر تا کہ مہمان پریشان ہو جاتے کہ ناصر ہم تمہارے مرشد نہیں ہیں تم
ہماری اتنی مہمان داری عزت نہ کرو تو وہ معصومیت سے جواب دیتا مجھے آپ سے
مرشد کی خوشبو آتی ہے سارا دن بازاروں میں گھومتا مرشد کے لیے انگوٹھیاں
تسبیحاں مرشد کے خاندان بچوں کے لیے اُن کی پسند کی چیزیں تلاش کرتا ‘ مرشد
کے قریبی لوگوں کے لیے تحفے بھیجنا سوشل میڈیا کا دور آیا تو اُس پر مرشد
کے نعرے اُس کا دل کر تا تھا پوری کائنات اور اربوں انسان اُس کے مرشد کے
نعرے لگائیں باقی لوگوں کو فون کر کے کہتا کہ مرشد کا احترام اسطرح کیا کرو
اور اگر کبھی مرشد مری جاتا تو وہ پروانوں کی طرح مرشد کے اردگرد دھمال
ڈالتا نظر آتا ‘ اُسے حفظ ہو گیا تھا مرشد کو نسا پھل چیز شوق سے کھاتا ہے
کونسی دوائی لیتا ہے اُس کے لیے ہر بار نیا تولیہ رضائی صابن شیمپو بر ش
لیتا مرشد کے آنے سے پہلے جا کر اُس گھر یا کمرے کو چیک کرتا اور پھر جب
مرشد نے آنا تومرشد کے پاؤں میں سر جھکائے بیٹھے رہنا‘ رات کو مرشد نے جب
سو جانا تو قدموں میں سر رکھ کر سو جانا ‘ بار بارایک فقرہ سرکار میری
کروڑوں جانیں ہوں تو ہر پل آپ پر وارتا چلا جاؤں ‘ بلھے شاہ کو پڑھا تو
پاؤں میں گھنگھرو باندھ کر مرشد کے سامنے آگیا ‘ رانجھے کا قصہ پڑھا تو گلے
میں زنجیریں ڈال کر ہاتھ میں کشکول تھامے مرشد کے سامنے آکھڑا ہوا ۔ مرشد
حج پر جانے لگا تو بڑی رقم لے کر حاضر ہو نا کہ آپ کا بیٹا ہو ں تو میرا حق
بنتا ہے آپ میرے پیسوں سے حج کریں ‘ مرشد کو باپ اورمرشد کی بیوی کو ماں کا
مقام دیا اور پھر ساری زندگی اِس کو کر کے دکھایا کیونکہ مرشد اور اُس کی
بیگم بر ملا کہتے تھے کہ جتنی عزت ہماری ناصر کر تا ہے اتنی تو ہماری اولاد
بھی نہیں کر ے گی ‘ مظفرآباد کے خوفناک زلزلے میں جب ماں بہن حادثے کا شکار
ہوئے ‘ پھر بعد میں باپ بھی نہ رہا تو پرسکون لہجے میں کہتا میرے ماں باپ
تو لاہور میں مرشد اور اُس کاخاندان ہے ‘ مرشد سے عشق کا یہ لیول کہ جو
مرشد کا دوست وہ ناصر کا دوست جو مرشد کو ناپسند کر تا تھا اُس سے ساری عمر
کے لیے قطع تعلقی ‘ تیرے نام سے شروع تیرے نام پر ختم والی بات مرشد تو کئی
سال پہلے مری چھوڑ گیا تھا لیکن مرشد کے چاہنے والوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر
پکڑتا انہیں ہوٹل میں لے جا کر کھانا کھلاتا چائے پلاتا پھر کہتا آؤ مرشد
کی باتیں کرتے ہیں کسی کو جنگل لے جاتا اور کہتا مرشد کی باتیں کرتے ہیں
لاہو رسے جانے والے مہمانوں سے بھی گھنٹوں مرشد کی باتیں کرتا جہاں پر مرشد
بیٹھ کر لوگوں سے ملتا تھا اکثر وہاں جاکر بیٹھ جاتے ‘ گھنٹوں مرشد کی
یادوں کو تازہ کر تا ‘ مرشد کے لیے تو سارا سال چیزیں تلاش کر تا ہی تھا
اُس کے بچوں کے لیے بھی یہی دیوانگی جاری تھی اگر کو ئی شخص غلطی سے بھی
مرشد کی شان میں ایک لفظ بھی بول دیتا تو ساری عمر کے لیے وہ اگر معافیاں
بھی مانگتا تو بات نہ کرتا اُس کی سانسوں کی ڈور چلتی ہی مرشد کے عشق سے
تھی ‘ بلھے شاؒ ہ عنایت قادری کا واقعہ پڑھا تو ناصر نے نیا نعرہ مارا کہ
اب میں رانا ناصر نہیں ہوں بلکہ میرا نام ناصر عبداﷲ بھٹی ہے جو اُس کے
مرشد کا نام تھا خاندان اور دوستوں نے بہت مذاق اڑایا کہ تم یہ کیا کر رہے
ہو تو کہتا میں اب مرشد کا بیٹا ہوں ‘ خاندان والوں نے اعتراض کیا تو بولا
جو میرے مرشد کو مانے گا وہ میرا رشتہ دار ہے جو مرشد کو نہیں تو وہ میرا
کچھ نہیں لگتا ‘ مرشد سے عشق و ادب کا یہ مقام کہ مرشد سے بات کرتے ہوئے
شدت ادب احترام سے جسم لرزنے لگتا ‘ زبان لڑکھڑانے لگتی مرشد کے اشاروں کو
سمجھتا اگر کسی دوسرے سے پتہ لگتا کہ مزاج مرشد یہ ہے تو جان کی بازی لگا
کر پوری کر تا ‘ اولیا کرام سے محبت کا یہ عالم کہ آوارہ گردی میں مری کے
اطراف میں کوئی دربار قبر شکستہ نظر آتی تو ٹائلیں لگواتا ‘ جاکر مرشد کے
غریب مریدوں کی مالی مدد اِس خاموشی سے کرتا کہ مرشد کو بھی پتہ نہ چلنے
دیتا ‘ مرشد کی زندگی میں ہزاروں عاشق آچکے ہیں لیکن ایک بھی مرید ایسا
نہیں جس نے مرشد کے کہنے پر مجازی محبوب چھوڑ دیا ہو اور پھر ساری عمر اُس
کانام تک نہ لیا ہو ‘ یہ اعزاز صرف اور صرف ناصر کشمیری کو حاصل ہے کہ مرشد
کے عشق میں وہ اپنی ذات فنا کر تا چلاگیااور پھر مرید کو ہر طرف مرشد ہی
نظر آتا تھا پھر مریدکی زندگی کا ایک ہی مقصد کے مرشد کی ایک ایک ادا پر
جان کس طرح قربان کرنی ہے پھر حق تعالیٰ نے ناصر کی عبادات اور فنا فی
الشیخ کے بعد اُس کے سارے حجابات اٹھا دئیے پھر اُس کو ظاہری حالت میں
اولیا ء کرام نبیوں کی زیارات کرائیں اورپھر اپنے نور کا بھی مشاہدہ کرا یا
پھر مرید مشاہدہ حق کی منازل طے کرتا چلا گیا جہاں خدا کا نور تھا اور
دیوانے مجذوب کشمیری کے غوطے پھر اس عظیم جانباز ناصر کشمیری نے جائے نماز
پر خدا کے ذکر کے دوران ہی حالت جذب و سکر میں اپنی جان حق تعالی کے سپر د
کر کے عشق حقیقی کا حق ادا کر دیا ‘ مرشد دیوانے مرید کے جنازے میں وادی
نیلم موضع چیڑا کلگراں پہنچا جہاں سارا وقت اُس کی آنکھوں کے کنارے بھیگتے
رہے لیکن لاہور واپس جاکر آنکھوں کے چھپڑ کھول کر کئی دریا دیوانے مرید کے
لیے بہا چکا ہے ‘ مرشد کی اداسی غم جدائی نقطہ عروج پر ہے اور وہ یہ شعر
گلو گیر لہجے میں سارا دن پڑھتا ہے ۔
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اِس گھر کی نگہبانی کرے |