اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے
انسان کو کسی نہ کسی مقصد کیلئے تخلیق کیا ہے۔ انسان کو اشرف المخلوقات کا
درجہ اسی لئے دیا کیوں کہ انسان سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے، ایک
دوسرے کے ساتھ احساس کا تعلق رکھتا ہے، اچھے بُرے میں تمیز رکھتا ہے۔
لیکن! افسوس اس بات کا ہے آج بدقسمتی سے ہم نے سارے احساسات اور اپنے سوچنے
سمجھنے کی صلاحیت کو کھو دیا ہے، اپنی سوچ کو محدود کردیا ہے، ہم نے اپنے
آپ کو دنیا کا سب سے اچھا مسلمان اور قابل انسان سمجھنا شروع کردیا ہے۔ ہم
اپنی ذمہ داریوں کو اپنے فرائض کو پورا کرنے کے بجائےدوسروں کی غلطیاں تلاش
کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں، اگر کسی کی ایک بھی غلطی نظر آجائے تو اس کی
ساری اچھائیوں کو نظر انداز کرکے اسے بدنام کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔
ہم میں سے اکثر لوگ تو اپنی عبادات تک کے متعلق قصّے لوگوں کو بڑے فخر کے
ساتھ بیان کرتے ہیں اور اپنی غلطیوں کو کبھی دیکھ ہی نہیں پاتے۔ انسان سب
سے زیادہ دھوکہ اپنی ذات کے بارے میں ہی کھاتا ہے۔ انسان اپنے گناہوں کو کو
اپنی غفلت کے باعث نظر انداز کرتا ہے اور اپنی اصلاح کرنےکے بجائے ہمیشہ
بدگمانی میں مبتلا رہتا ہے اور دوسروں کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔ ہم اپنی
انا ، اپنی خود غرضی کی بدولت معاشرے میں برائیاں پیدا کرتے ہیں۔ اپنے آپ
کو دوسروں کے مقابلے میں اچھا بنانے، ان سے اونچا بننے کی جستجو میں اچھے
بُرے کی تمیز ، جھوٹ، غیبت اور چغلی جیسے گناہوں کو عام کر لیتے ہیں۔ ہر وہ
کام کرتے ہیں جس سے ہم دوسرے کو نیچا دکھا کر خود کو منواسکیں۔ انسان یہ
سمجھتا ہے کہ اگر ہم نے دوسروں کے سامنے غلطی مان لی یا کسی کی بتائی ہوئی
اچھی بات کو مان لیا تو ہماری بے عزتی ہوگی۔ لیکن ہمیں اپنی یہ سوچ بدلنا
ہوگی۔ اب بھی وقت ہے ہمیں ٹھیک ہونے میں وقت نہیں لگے گا۔ بس ہمیں اپنی
اصلاح کرنی ہوگی۔ جھوٹ بولنا، کسی کی بے عزتی کرنا، نا انصافی کرنا، کسی
کیلئے بھی نازیبا الفاظ استعمال کرنا، یہ سب کچھ چھوڑنا ہوگا۔
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ:
"جس نے اپنے آپ کو پہچانا اُس نے اپنے رب کو پہچانا"
ہم تب ہی ٹھیک ہو سکتے ہیں جب ہم اللہ تبارک و تعالیٰ کی پاک ذات پر پختہ
یقین اور قرآن مجید کی تعلیم پر عمل کریں گے، نماز قائم کریں گے، اپنی
اصلاح کریں گے، دوسروں کے عیب ڈھونڈنے کے بجائے اپنے عیبوں پر دھیان دیں
گے۔ اگر ہم میں سے ہر ایک فرد انفرادی طور پر اپنے آپ کو درست کرے گا اور
اصلاح کا عمل شروع کرے گا، تو اسی صورت میں معاشرہ درست ہوگا اور ہم ایک
دوسرے سے بغض رکھنے اور دوسرے کو کمتر سمجھنے کے بجائے اپنی سوچ کو، اپنے
احساسات کو اچھے انداز میں تشکیل دیں گے، تب ہی ہمارا معاشرہ اچھا بن سکے
گا |