دینی مدارس ۔۔ایک دلخراش رخ
تحریر: سلیم صافی
یہی گناہگار ہے جس نے ملٹری کورٹس کے دائرہ اختیار کو صرف مذہبی اور مسلکی
دہشت گردوں تک محدود کرنے کے خلاف لکھا اور بولا۔ اسی گناہگار نے مدارس کو
تمام برائیوں کی جڑ قرار دینے کی رائے سے اختلاف کیا اور اپنے ’’جرگہ‘‘ میں
مثالوں کا انبار لگا دیا کہ القاعدہ کے رہنمائوں سے لے کر بلوچستان اور
کراچی میں دہشت گردی کرنے والوں کی اکثریت کا مدارس سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ
عاجز ہی ہے جو مدارس کے حوالے سے حکومتی یا لبرل طبقات کی تشخیص سے اور
علاج دونوں سے اختلاف کی جسارت کررہا ہے لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ
مدارس کی طرف سب اچھا ہے ‘ والا معاملہ ہے ۔
جو خامیاں مجھے بعض اہل علم کی تحریروں اور تقریروں سے سمجھ آئی تھیں یا
پھر جو خود مدارس کے مشاہدے کے نتیجے میں ذہن میں بیٹھ گئی تھیں‘ ان کا
اظہار ’’جرگہ‘‘ میں کر دیا لیکن افسوس کہ حسب عادت مذہب کے بعض ٹھیکیدار اس
پر سیخ پا ہوگئے ۔ ان کے اعتراضات کے جواب میں عرض یہ ہے کہ تنقید عموماً
عموم سے متعلق کی جاتی ہے ‘ مستثنیات سے متعلق نہیں ۔ مجھے معلوم ہے کہ
دارلعلوم کراچی اور جامعہ بنوریہ جیسے مدارس صفائی اور حسن انتظام کے لحاظ
سے اپنی مثال آپ ہیں ۔ بعض مدارس میں عصری علوم بھی نہایت بہتر انداز میں
پڑھائی جاتے ہیں بلکہ وہاں عام ا سکولوں اور کالجوں سے بھی عصری علوم
پڑھانے کا بہتر انتظام ہے ۔ لیکن جو تنقید ہوتی ہے ‘ وہ عموم سے متعلق ہوتی
ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ جواب دینے والے عموماً پھر مستثنیات کا سہارا
لیتے ہیں ۔ ایک تنقید مجھ پر یہ ہورہی ہے کہ میں خود مدرسے کا پڑھا ہوا ہوں
اور نہ مدرسے کے اندرون سے واقف ہوں لیکن پھر بھی مدارس کے حوالے سے زبان
یا قلم چلاتا ہوں۔ میں نے کبھی بھی اس حوالے سے اتھارٹی ہونے کا دعویٰ نہیں
کیا۔ گزشتہ کالموں میں بھی اپنے تجزئیے کی بجائے ‘ ایک ایسے شخص کا تجزیہ
پیش کیا جو دینی مدرسے کے اندر سے نکلے ہیں اور جو ایک عالم اور صوفی کے
بیٹے ہیں ۔ آج کے کالم میں بعض مدارس کے اساتذہ سے متعلق ایک اور دلخراش
پہلو کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں لیکن اپنی رائے کی بجائے میں ایک ایسے قاری
کے خط کا سہارا لے رہا ہوں جو مدرسے سے فارغ التحصیل ہونے کے ساتھ ساتھ اس
کے بڑے خیرخواہ بھی ہیں ۔
یہ ایک خط ہے جو امیر جان حقانی صاحب نے وفاق المدارس کے ناظم اعلیٰ قاری
محمد حنیف جالندھری صاحب کو بھیجا ہے ۔وہ لکھتے ہیں کہ :
بسم اللہ الرحمان الرحیم
فضیلۃ الشیخ صدرالوفاق ،ناظم اعلیٰ قاری حنیف جالندھری صاحب،و دیگراکابرین
وفاق،دامت فیوضہم و برکاتہم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
امید ہے مزاج بخیر ہون گے۔ چند اہم گزارشات کے عرض کرنے سے پہلے اپنا مختصر
تعارف کروانا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ آپ اکابراس فقیر کی صدا کو سنجیدگی سے
لیں گے۔میرا مختصر تعارف یہ ہے۔میرانام حافظ امیرجان حقانی ہے۔پاکستان کے
سب سے پسماندہ ضلع دیامر کا باسی ہوں۔کراچی سے حفظ قرآن اور درس نظامی
(2010ء جامعہ فاروقیہ) کے ساتھ جامعہ کراچی سے ایم اے سیاسیات (2009ء)
اوروفاقی اردو یونیورسٹی سے ایم اے صحافت (2011ء) کی ڈگری حاصل کی ہے۔
2011ء سے ڈگری کالج گلگت میں بطور سیاسیات کے لیکچرار اور ایک دینی جامعہ
میں درس نظامی کی تدریس سے منسلک ہوں۔
الحمد للہ! عقائد و نظریات میں اپنے اکابر علمائے دیوبند کی تحقیقات و
تدقیقات پر اندھا اعتماد ہے اور یہ سبق استاد المحدثین شیخ سلیم اللہ خان
مدظلہ سے ملا ہے۔ رہی بات عارضی پالیسیوں سے اختلاف اگر مستحسن نہیں تو
کوئی غلط بھی نہیں، اور یہاں تو آپ اکابر کے دربار میں ایک اجنبی کی فریاد
ہے ۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مجھے دینی مدارس و جامعات میں تعلیم حاصل کرنے
اور قریب سے نظام و نصاب کو دیکھنے کے ساتھ عصری تعلیم گاہوں سے پڑھنے اور
کافی عرصہ پڑھانے کا موقع ملا ہے۔ اس لئے اس قابل ہوا ہوں کہ آپ کے مقدس و
محترم فورم میں فریاد و گزارش بلکہ ایک درمندانہ اپیل دائر کروں تاکہ مجھے
اور مجھ جیسے ہزاروں لوگوں کی تسکین و طمانیت کا کوئی راستہ نکل آئے اور
انصاف مل سکے۔
آج آپ بزرگوں سے بعض دینی مدارس و جامعا ت کے اساتذہ جو ریڑھ کی ہڈی کا
درجہ رکھتے ہیں کے لئے بھیک مانگنے لگا ہوں، کیا آپ اپنے کسی شاگرد، تربیت
یافتہ کو یہ بھیک دینے کے لئے تیار ہوں گے؟ آج کی اس محفل میں مدارس کے ان
چند مہتممین کی شاندار کوٹھیوں، لگژری گاڑیوں اورشاہانہ خرچوں کو زیر بحث
نہیں لانا ہے، ورنہ تو شعبہ صحافت سے تھوڑا تعلق کی وجہ سے سب تو نہیں لیکن
کچھ ایسے مہتمم اور رئیس الجامعات کو بھی جانتا ہوں کہ ان کے کپڑے کہیں سے
دھل کرآتے ہیں اور کہیں استری ہوتے ہیں، ان کے بیٹے مرسڈیز میں گھومتے ہیں،
ان کی شادیاں مہنگے شادی ہالوں میں ہوتی ہیں، ان کا ایک وقتی کھانا تیس
ہزار سے مہنگا ہوتا ہے، وہ بلڈنگیں ایسی تعمیر کرواتے ہیں کہ تاج محل کے
انجینئر بھی دنگ رہ جائے، ان کا ماہانہ فیول (ڈیزل، پٹرول) کا خرچہ لاکھ سے
تجاوز کرتا ہے، غرض کئی مہتمم صاحبان کا کروفر دیکھ کرکروڑ پتی لوگ بھی
انگلیاں منہ میں دابے رہ جاتے ہیں۔
اُف یا خدا!میرا مقصد ان کی ذاتی زندگی کو موضوع بحث بنانا نہیں بلکہ مدعا
اتنا سا ہے کہ ان بیچارے مدرسین کو بھی انسان سمجھا جائے، ان کی بھی
معاشرتی مجبوریاں ہوتی ہیں، ان کے والدین بھی ان سے آس رکھتے ہیں،مالی
تعاون کی امید رکھتے ہیں،ان کے بچے بھی اچھی تعلیم کے حقدار ہوتے ہیں، ان
کی مائیں بہنیں اور بیٹیاں بھی بیمار ہوسکتی ہیں، ان کا بھی ہفتے میں ایک
دفعہ گوشت کھانے کو دل کرتا ہے، وہ بھی عید کے دن سوٹ اورنئی چپل کی خواہش
رکھتی ہیں۔ وہ بھی کسی خوبصورت وادی کی سیر کرنا چاہتے ہیں، ان کے سینے میں
بھی ایک دل ہے اور ان کا دماغ بھی ضرور سوچتا ہے۔ مگر آپ اپنے سینے میں
ہاتھ رکھ کر، ایک سیکنڈ کے لئے خدا تعالیٰ کو حاضر سمجھ کر ،آنکھیں بند
کرکے سوچیں کہ آپ کے پانچ ہزار سے کیا ان کی یہ معصوم سی خواہشات پوری
ہوسکتی ہے۔ ایسا ہونا کے لیے ان کو سات جنم جینا ہوگا۔
اپنے اولاد اور اصاغر کی شکایات پر سیخ پا نہ ہوں بلکہ ہمارے درد کو سنیں۔
کیا اس پوری کائنات میں ان چند مدارس کے اساتذہ مظلوم ترین انسان نہیں ہیں؟
کیا ان کی خدمات کا صلہ انہیں ملتا ہے؟ کیا و ہ دنیاوی ضروریات و حاجات سے
مبرا ہیں؟ کیا آج کے دور میں چوبیس گھنٹہ خدمت کے عوض ایک عالم دین، مفتی
اور قاری کو چار ہزار سے آٹھ ہزار کی تنخواہ دینا سراسر ظلم نہیں ہے؟ کیا
اسلامی تعلیمات یہی ہیں؟ کیا قرآن نے تقوی ،قربانی اور اخلاص صرف مدرسے کے
مدرسین کے لئے مخصوص کر کے بیان کیا ہے؟ کیا قناعت صرف ان کے حصے میں آئی
ہے؟ مہتممین بری ہیں؟ سچ بتایا جائے کہ کیا ہماری چند ایک جامعات میں مہتمم
مدرسین کے ساتھ برا سلوک نہیں کرتے؟
واللہ العظیم، میرے پاس ایسے واقعات اور کہانیاں ہیں کہ دل خون کے آنسو
روتا ہے؟ کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ بعض مدارس میں ان پڑھ باورچی اور ترکھان
کی تنخواہ شیخ الحدیث اور رئیس الافتاء سے زیادہ نہیں ہے؟ کئی قابل ترین
فضلاء و قراء پیٹ پالنے کے لئے چھوٹی چھوٹی سرکاری نوکریاں کرتے ہیں، میں
بھی سرکار کا ملازم بلکہ غلام صرف پیٹ کی خاطر ہوں،(کاش میں سرکار کا غلام
نہ ہوتا ، یہی تعلیمات تو نہیں تھی میرے اساتذہ کی کہ کیچڑ میں لت پت نظام
کا غلام بنو اور نہ میرے اکابر کی تاریخ)۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ پاکستان کے
کسی بھی مدرسے سے (سب میں نہیں ایک دو مثالیں ایسی ہیں)کسی بھی بڑے
استادبلکہ شیخ الحدیث و رئیس الافتاء تک کو کسی بھی وقت بغیر کسی عذر کے
فارغ کردیا جاتا ہےکیا ان کی نوکری کا تحفظ ہے؟ کوئی فورم ہے کہ ان کی اپیل
سنا جائے؟
کیا پورے مدرسے میں مہتممین کے چمچے اور دیگ چوںکی من مانیاں نہیں چلتی؟ ان
کے کہنے پر (اکثر مدرسوں میں ایسا نہیں ہوتا) بڑے بڑے اساتذہ کو گھسیٹ کر
گیٹ سے باہر نہیں کیا جاتا؟ کیا چند ایک کے اس روئیے سے مدرسین اور نوجوان
علماء میں خوداریت، استغنا اور دیگر صفات جمیلہ پیدا ہوسکتی ہیں؟ میں طول
دینا نہیں چاہتا ورنہ دل و ماغ میں اتنا کچھ ہے کہ کاغذ کے ان صفحات میں
اتنی گنجائش نہیں۔ ایک اپیل ہے کہ خدارا! مدارس و جامعات پر رحم کرتے ہوئے
ان مدرسین کے لئے دستور وفاق میںایسا قانون شامل کریںکہ قابل اور ذہین لوگ
تجارت، سرکاری غلامی اور دیگر امور کو ترک کرکے درس و تدریس کو ترجیح دیں
،دستور وفاق بحث و تمحیص اور ترمیمی و تجویزی مراحل سے گزر کر حتمی مرحلے
میں ہے، اس میں مدرسین کے حقوق کا مکمل تحفظ ہونا چاہئے۔ ورنہ یاد رہے خراب
معاشی حالات سے ادارے کبھی بھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتے۔
تلخ نوائی و کلامی پر اس امید کے ساتھ اپنے استادوں اور بزرگوں سے معذرت
کرتا ہوں کہ بیٹا باپ سے حق مانگ رہا ہے، چھوٹا بھائی بڑے بھیا سے بھیک
مانگا رہا ہے۔ آپ سے ہمیں حق و صداقت کی پہچان ملی، صراط مستقیم تک رسائی
ہوئی، اب آپ ہی ہمارے دکھوں اور مجبوریوں کو سمجھ کر کچھ ایسا کرجائیں کہ
تاریخ سنہرے الفاظ میں یاد رکھے گا۔میرے دل کے اندر ایک لاوا ابل رہا تھا،
میں نے بلاکم وکاست آپ کی عدالت میں پیش کر دیا ہے، آپ بدعائی اور تادیبی
کارروائی کے بجائے ٹھنڈے دل و دماغ سے ان ٹوٹی پھوٹی احمقانہ باتوں پر غور
کریں، انشاء اللہ کسی نتیجے پر پہنچ جائیں گے۔ اللہ کرے۔
بہت ساری امیدوں کے ساتھ: آپ اپنا اور اپنے چاہنے والوںکا بہت خیال رکھیں۔
والسلام مع الاکرام:
خاک پائے اکابرین دیوبند: الاحقر، امیرجان حقانی
بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ‘‘
20 جنوری 2015
|