اسلام وہ واحد مذہب ہے جو سراپا علم و عرفان بن کر آیا۔
جس نے جہالت و تاریکی کے اندھیروں کو چیر کر روئے زمین پر ایک عالمگیر اور
جامع انقلاب برپا کیا۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو سب سے
پہلے جس دولت سے سرفراز کیا اور باقی تمام مخلوقات پر فوقیت و برتری عطا کی
وہ علم کی دولت تھی۔ جیسا کہ فرمان ایزدی ہے ۔ ’’ اور یاد کروجب تمہارے رب
نے فرشتوں سے فرمایا میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں ، کہنے لگے کیا
ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خون ریزیاں کرے گا
حالاں کہ ہم تیری تسبیح کرتے ہیں تیری حمد کے ساتھ اور پاکی بیان کرتے ہیں
تیرے لئے۔ فرمایا: بے شک میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے اور اﷲ نے
سکھادیئے آدم کو تمام اشیاء کے نام ، پھر پیش کیا انہیں فرشتوں کے سامنے
اور فرمایا سچے ہو تو ان کے نام بتاؤ۔عرض کرنے لگے ہر عیب سے پاک تو ہی ہے
کچھ علم نہیں ہمیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھا دیا ۔ بے شک تو ہی علم و حکمت
والا ہے۔ فرمایا : اے آدم ! بتا دے انہیں سب ( اشیاء کے ) نام ، پھر جب آدم
نے بتا دیئے فرشتوں کے نام تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : کیا میں نے تم سے نہیں
کہا تھا کہ میں خوب جانتا ہوں سب چھپی ہوئی چیزیں آسمانوں اور زمین کی۔ اور
میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے تھے اور (یاد
کرو ) جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا
سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا ۔ ‘‘آپ ﷺ پر جو پہلی
وحی نازل ہوئی وہ علم اور ذرائع علم کی اہمیت پر روشنی ڈالتی ہے۔ جیسا کہ
فرمان باری تعالیٰ ہے۔ ’’ پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے( ہر چیز کو ) پیدا
کیا،اس نے پیدا کیا انسان کو خون سے ، پڑھ اور تیرا رب کریم ہے وہ جس نے
قلم سے تعلیم دی ۔ انسان کو ان چیزوں کی تعلیم دی جس کو وہ نہ جانتا تھا ۔
‘‘قرآن کریم میں متعدد مقامات پر تعلیم کی اہمیت کے بارے میں ارشادات موجود
ہیں جیسا کہ سورۃ الزمر میں ارشاد ہوتا ہے ۔ ’’ (اے محمد ﷺ ) کہہ دیجئے کہ
اہل علم اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے ۔ ‘‘ ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے ۔
’’ تم میں سے اﷲ تعالیٰ ان ہی کے درجات بلند کرتا ہے جو اہل علم ایمان اور
اصحاب علم ہیں۔ ‘‘
بے شک اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے تعلیم کو تمام انسانوں پر فرض قرار دیا
ہے اور اس فرض کے حصول اور انجام دہی کو ایک دینی فریضہ قرار دیا ہے جب کہ
دیگر مذاہب میں تعلیم صرف ایک مخصوص طبقے کے لئے ہوتی تھی۔ ہندوؤں میں اگر
نچلی ذات کے شودر کے کان میں اُن کی مقدس کتب کے الفاظ پڑ جاتے تو بطور سزا
ان کے کانوں میں گرم پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جاتا تھا۔ یہودیوں میں رہبانوں نے
علم کو اپنی جاگیر بنا رکھا تھا۔ غرض اسلام کے علاوہ باقی تمام مذاہب میں
تعلیم عام لوگوں کے لئے ممنوع اور سزا کا مؤجب تھی۔ اسلام نے جہاں تعلیم کو
تمام انسانیت کے لئے فرض کیا تو وہاں کچھ بنیادی سنہرے اُصول بھی بتلائے۔
اول ، اسلامی نقظہ نگاہ سے تعلیم و تربیت ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں ،
یعنی تعلیم کتاب و حکمت اور تزکیہ نفس دونوں کی انجام دہی نہایت ضروری ہے۔
جیسا کہ قرآن پاک میں رسول اکرمﷺ کے کردار کے حوالے سے ان دونوں پہلوؤں کو
ایک جامع انداز میں بیان کر دیا گیا ہے۔ ’’ھوالذی بعث فی الامین رسولاً
منھم یتلوا علیھم اٰیاتہ و یزکیھم و یعلمھم الکتاب و الحکمۃ‘‘ ۔ پس تربیت
کے بغیر تعلیم جہالت بڑھانے کے سوا کچھ نہیں کرتی۔ دوم ، تعلیم کا مقصد یہ
ہونا چاہیے کہ وہ طالب علم میں اسلامی عقائد اور ان کے انفرادی و اجتماعی
اثرات ، اسلامی تہذیب و ثقافت اور مقصد حیات سے آگاہی پیدا کرے۔ سوم ،
موجودہ دور میں لبرل ازم نے تعلیم اور مذہب کے درمیان ایک لائن کھینچ دی ہے
جس نے طالب علم کو اخلاق و کردار کی نشوونما میں آزادکر دیا ہے جس سے
معاشرے یا قوم میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے جب کہ اسلامی نظریہ تعلیم طالب علمی
کی انفرادی اور اجتماعی دونوں پہلوؤں میں توازن پیدا کرکے اسے معاشرے کا
ایک ذمہ دار فرد بناتی ہے۔ چہارم ، تعلیم کا بنیادی مقصد طالب علم کا
تعمیری کردار ہونا چاہیے ۔ یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب طالب علم آپ ﷺ اور صحابہ
کرام ؓ کی مثالی زندگیوں کا گہرائی سے مطالعہ کرے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں
ارشاد ہوتا ہے۔ ’’ تمہارے لئے رسول اﷲ ﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے ۔ ‘‘
یہ وہ بنیادی اور سنہری اُصول ہیں جن پر اگر تعلیم کی بنیاد رکھی جائے تو
وہ جہالت و تاریکی سے علم و روشنی کا سبب بنتی ہے لیکن بد قسمتی آج ہماری
تعلیم اسلامی اُصولوں سے کوسوں دور ہے اور مغرب کے بے عقیدہ تعلیم کے زیر
تسلط ہے ۔ جس نے ہماری ترقی کی راہوں میں رکاؤٹ پیدا کردی ہے۔ بقول شاعر۔
حیرت ہے تعلیم وترقی میں ہے پیچھے
جس قوم کا آغاز اقراء سے ہوا تھا
پس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری موجودہ تعلیم کو اسلامی اُصولوں سے ہم آہنگ
بنایا جائے تاکہ کھیتی راج رجائے کے مصداق ہماری مستقبل کی فصل اچھی تیار
ہو اور معاشرہ اس کے ثمرات سے مستفید ہو۔ |