چُپ ہو جاؤ۔ بحث مت کرو۔ خاموشی اختیار کرو۔ صبر و شُکر
کرو۔ سوال نہ پُوچھو۔ غور و فِکر مت کرو۔ بس مان جاؤ۔ شِکوہ یا شکایت نہ
کرو۔ یہی صحیح ہے۔ صرف یہی درست ہے۔ اس کو چیلنج مت کرو۔ بس۔ اور نہیں۔
چُپ۔ خاموش۔ اب کوئی اور بات نہیں۔۔۔
یہ سب وہ کلمات ہیں جو ہمیں سُننا پڑتے ہیں۔ جب ہم کوئی سوال پُوچھتے ہیں۔
کسی چیز پر بحث کرتے ہیں۔ کوئی بات چیلنج کرتے ہیں۔ شکوہ یا شکایت کرتے
ہیں۔ کچھ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ غور و فِکر کرتے ہیں۔
عام طور پر یہ صورتحال اُس وقت پیش آتی ہے جب موضوعِ بحث ہو: ”مذہب، ایمان،
دین، عقیدہ“۔ کیا اِن موضوعات پر کوئی بات نہیں کی جاسکتی؟ کیا مذہب کی
بُنیاد کو پَرکھا نہیں جاسکتا؟ کیا ایمان کی اصلاح پر بحث نہیں کی جا سکتی؟
کیا دین کی سمجھ بوجھ پر سوال نہیں پُوچھا جاسکتا؟ کیا عقیدے کی ابتدا پر
غور و فکر کرنا غلط ہے؟ کیا مذہب کو جانچ پڑتال کرکے نہیں مانا جاسکتا؟ کیا
دینی رسم و رواج کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا؟ کیا صرف مان لینا ہی کافی ہے یا
سمجھ بوجھ اور غوروفکر کرکے جاننا بھی ضروری ہے؟
ذرا تصوّر کیجیے جس طرح آج ہمارے معاشرے میں بچوں اور نوجوان نسل کو یہ سبق
دیا جاتا ہے کہ صرف ہمارا مذہب ہی ٹھیک ہے، ہمارا ایمان ہی مکمل ہے، ہمارا
دین ہی سیدھا راستہ ہے، ہمارا عقیدہ ہی درست ہے، ہمیں بس اِس کو ہی ماننا
ہے، باقی سب مذاہب، عقائد، اور دین غلط ہیں۔۔۔ کم و بیش یہی سب باتیں دوسرے
معاشروں میں دوسرے مذاہب اور دین کے لوگ اپنے بچوں اور نوجوان نسل کو سکھا
رہے ہوں!!! بغیر تحقیق کیے، بغیر سوال پُوچھے، بغیر غوروفکر کیے، بغیر بحث
کیے اور بغیر سمجھ بوجھ کے بس اپنے مذہب یا دین کو مان لینا کیسا اثر ڈالے
گا۔ ہر مذہب کا فرد اپنے دین کو ہی ٹھیک اور دوسرے کو غلط سمجھے گا۔ اپنی
آپ کو جنتی اور دوسرے کو جہنمی سمجھے گا۔ اپنے مذہب کو خُدا کا پسندیدہ دین
اور دوسرے کے مذہب کو خُدا کا ناپسندیدہ دین سمجھے گا۔ اپنی آپ کو آخرت کی
دنیا میں کامیاب اور دوسرے کو خسارے میں سمجھے گا۔
انسانی تاریخ میں اگر اپنے مذہب اور اپنے خُدا کو مان لینے پر ہی اکتفا کر
لیا جاتا تو آج ہمارا خُدا سورج یا چاند ہوتا۔ آج ہمارا خُدا شاید آگ ہوتی۔
آج ہمارا خُدا کوئی دیوتا بھی ہوسکتا تھا۔ آج ہمارا خُدا کوئی جانور یا
پرندہ ہوتا۔ یا پھر آج ہمارا خُدا ہمارے جیسا ہی کوئی اور انسان ہوتا۔۔۔
مگر اِن سب خُداؤں میں سے کسی کو ہم اپنا خُدا تسلیم نہیں کرتے آج، جس کی
وجہ تسمیہ انسان کا غور و فکر کرنا ہے، علم و عقل سے کام لینا ہے، سمجھ
بُوجھ سے فیصلہ کرنا ہے اور تحقیق و دانش کا راستہ اپنانا ہے۔ اگر بنی آدم
اپنے آباؤ اجداد کے مذہب، دین اور عقیدے کو ماننے پر ہی ڈٹا رہتا تو کوئی
انسان حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ
السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، اسماعیل علیہ السلام اور حضرت مُحمد
مُصطفیٰ صلّی اللّہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے پہنچایا ہوا پیغام نہ سُنتا
اور نہ ہی اپنی اصلاح کرتا۔
کیا مذہب و دین کے چناؤ میں عقل و فہم کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے؟ کیا
ایمان و عقیدے کا انتخاب سمجھ بوجھ کے بغیر ہی کر لینا چاہیے؟ کیا غور و
فکر کئے بغیر اپنے مذہب، اپنے دین، اپنے ایمان، اپنے عقیدے اور اپنے خُدا
کو مان لینا چاہیے؟ یہ سب وہ سوالات ہیں جن کے جوابات تلاش کرنا ضروری ہے
آج کے معاشرے میں۔۔۔
”کیا صرف مان لینا ہی کافی ہے یا جاننا بھی ضروری ہے؟“ |