رائے شماری کے ذریعے مسئلہ کشمیر پرامن طور پر حل کرنے کا
مطالبہ کرنے والے ہزاروں افراد کو بھارتی انتظامیہ نے جیلوں میں قید کر
رکھا ہے۔ان میں سے کوئی پچیس سال،کوئی بیس،کوئی دس پندرہ سال اور کئی چند
سال سے مختلف مقدمات کے تحت بھارتی جیلوں میں قید رکھا گیا ہے۔ ایسے
کشمیریوں کی بڑی تعداد کو بھارت کے مختلف علاقوں کی جیلوں میں قید رکھا گیا
ہے۔گرفتاریوں کا یہ سلسلہ جاری ہے اور ہر ماہ تقریبا پونے دوسو افراد کو
مقبوضہ کشمیر میں نافذ ظالمانہ ،انسانیت سوز قوانین کی آڑ میںگرفتار کر کے
جیلوں میں قید کر دیا جاتا ہے۔جیلوں میں قید کئے جانے والے ایسے اکثر
کشمیری اپنے گھرانوں کے واحد کفیل ہوتے ہیں اور ان کے جیل چلے جانے سے ان
کے گھرانے معاشی اور سماجی طور پر تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔کشمیریوں کی
چار،پانچ نسلوں سے جاری آزادی کی جدوجہد گزشتہ تیس سال سے تیز تر ہے اور اس
دوران کشمیریوں کی طرف سے آزادی کے لئے دی جانے والی بے مثال قربانیاں
کشمیر کی تاریخ کا سنہراعنوان ہیں۔تحریک آزادی کشمیر کے لئے جدوجہد
کرنے،قربانیاں دینے والے ولے ہزاروں خاندان ہیں جو آج بھی معاشی اور سماجی
حوالوں سے شدید طور پر'' سزایاب '' ہو رہے ہیں۔
چند دن قبل سوشل میڈیا پہ مقبوضہ کشمیر سے قائم ایک پیج پہ ساہر بلال کے
نام سے انگریزی میں ایک واقعہ تحریر کیا گیا ہے۔ساہر بلال لکھتے ہیں کہ
گزشتہ روز میں اپنی بھتیجی کی فیس جمع کرانے اس کے سکول گیا۔سکول کی حدود
میں داخل ہونے کے بعد سکول کے دفتر کی جانب جاتے ہوئے میں نے دفتر کے
باہرسکول کی ایک طالبہ کو کھڑے دیکھا جبکہ تمام سٹوڈنٹ اس وقت اپنی اپنی
کلاسوں میں تھے۔میں جب اس پیاری سی چھوٹی لڑکی کے پاس سے گزرا تو میں نے
مسکرا کر اسے دیکھا، اس نے اسی وقت میری طرف نظریں گھمائیں،وہ میری مسکراہٹ
کا جواب دینے کے بجائے اداسی سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔میں تقریبا ڈیڑھ
گھنٹہ سکول آفس میں موجود رہا،میں نے ٹیچرز سے اپنی بھتیجی کی تعلیم اور
دیگر متعلقہامور کے بارے میں دریافت کیا۔آفس سے باہر نکلتے ہوئے میں نے
دیکھا کہ وہ لڑکی بدستور کلاس سے باہر تھی اور سردی سے کپکپا رہی تھی۔یہ
منظر دن بھر مجھے ستاتا رہا۔شام کو میں نے اپنی بھتیجی سے اس لڑکی کے بارے
میں دریافت کیا اور پوچھا کہ جب سکول کے تمام بچے اپنی کلاسوں میں تھے تو
اس وقت وہ لڑکی کیوں اپنی کلاس سے باہر تھی؟میری بھتیجی نے اس لڑکی کے بارے
میں جو بتایا وہ دلخراش تھا۔اس لڑکی نے چار مہینے سے سکول کی فیس جمع نہیں
کرائی جس پر سکول انتظامیہ نے اس لڑکی کو کلاس میں شامل ہونے سے روک دیا
ہے۔اس لڑکی کا باپ حریت کا کارکن ہے اور گزشتہ دوسال سے جیل میں بند ہے۔اس
کا باُپ اپنے خاندان کا واحد کفالت کرنے والا تھا اور اس کی گرفتاری کے بعد
اس کے خاندان کے لئے کھانے کا انتظام کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ بن گیا۔اس
لڑکی کی دو بہنوں کو سکول فیس ادا نہ کرنے کی وجہ سے سکول سے نکال دیا گیا
ہے۔ان لڑکیوں کی ماں گزر اوقات کے لئے '' تلے'' کا کام کرتی ہے۔ساہر بلال
مزید لکھتا ہے کہ میں آج دوبارہ سکول گیااور دیکھا کہ وہ لڑکی پھر اپنی
کلاس سے باہر تھی۔میں اس کی طرف بڑہا اور اس سے بات کرنا چاہی،میں نے جب اس
کے ہاتھ گرم کرنے کے لئے اپنے ہاتھ میں لئے تو میں نے محسوس کیا کہ اس کے
ہاتھ انتہائی سرد تھے۔وہ لڑکی مجھ سے کہنے لگی، انکل یہ محض ایک جھلک ہے
،ہماری زندگی ایک جہنم ہے۔پھر وہ مجھے اپنے گھر کی روزمرہ کی جدوجہد اور
سماجی مسائل کے بارے میں بتانے لگی جو اس کے باپ کی گرفتاری کے بعد سے
انہیں درپیش ہیں۔اس نے مجھے بتایا کہ کس طرح ایک موقع پر اس کی ماں نے خود
کشی کرنے کی کوشش کی اور کیسے اس کی بہنوں کو ہوسناک نظروں کا نشانہ بنایا
جاتا ہے۔ساہر لکھتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی خود کو اتنا بے
بس محسوس نہیں کیا۔میں سوچنے لگا کہ میں اس کی فیس ادا کر کے اس کے لئے کیا
کر سکتا ہوں،اس کی مشکلات بہت زیادہ ہیں،میری اس حمایت سے اس کی مشکلات میں
کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ اس کی یہ المناک کہانی سن کر مجھے اس کے زندہ
رہنے پر شک ہونے لگا ہے۔
یہ مقبوضہ کشمیر کے ایک گھر کی کہانی ہے، جس میں آزادی کے لئے سیاسی جدوجہد
کرنے والا بھارتی جیل میں قید ایک باپ ہے،اس کی بیوی ہے،اس کی تین بیٹیاں
ہیں ،گزر اوقات کو خدا کا نام ہے،روز کے مصائب ہیں،روز کے عذاب ہیں۔ایسی
کتنی ہی کہانیاں ہیں جو کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کرنے والوں ،بھارت کے
انسانیت سوز مظالم کا نشانہ بننے والے کشمیریوں کے گھروں کی معاشی اور
سماجی تباہی ،بربادی کی المناک،دلخراش صورتحال بیان کرتی ہیں۔اب دنیا
،معاشروں،ملکوں کے خدائوںسے کون پوچھ سکتا ہے کہ ایسے لوگ معاشی ،سماجی طور
پر برباوو سزایاب کیوں ہیں؟ اور ان کے دائیں،بائیں،آگے،پیچھے والے معاشی و
سماجی طور پر شاد باد،بامراد کیوں ہیں؟ |