زبان کے جوہر

ہمارے منہ میں میں ایک گلابی رنگ کا گوشت کا لوتھڑا ہے جسے عرف عام میں زبان کہتے ہیں اس للوتھڑے کا غلط استعمال ہمیں بے شمار نقصانات پہنچاسکتا ہے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ "زبان میں ہڈی نہیں ہوتی مگر یہ کسی کی بھی ہڈیاں تڑواسکتی ہے" قرآن و حدیث میں بھی زبان کے غلط استعمال کی ممانعت آی ھے ایک آیت کے کم و بیش الفاظ ھیں کہ“ لوگوں سے اچھی بات کہو ورنہ خاموش رہو“ مفہوم حدیث ھے کہ تم مجھے شرمگاہ اورزبان کی حفاظت کی ضمانت دے دوں میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ زبان کے غلط استعمال کی وجہ سےبہت س بچیاں اپنے گھر خراب کرالیتی ہے بہت سےبزنس مین اپنے بزنس خراب کر لیتے ہیں اور لوگ رشتہ داریاں خراب کرلیتے ہیں یہ تو زبان کے غلط استعمال کے دنیاوی نقصانات اس زبان کے اخروی نقصان بھی بہت ہے اسی زبان سے شرک کاکلمہ نکلتا ہے یہی زبان کفر کی مرتکب ہوتی ہے اسی زبان سے ہم غیبتیں چغلیاں اورلوگوں کے نام رکھتے ہیں حالانکہ سورۃ الحجرات میں ان کاموں کو کرنے سے منع کیا گیا ہے-

اور جب زبان کے غلط استعمال کی عادت بن جائے تو یہ بدزبانی میں تبدیل ہوجاتی ہے بد زبان انسان اپنی عادت کی وجہ سے اپنے والدین اور بزرگوں سے بھی غلط بات کہ جاتا ہے جو کہ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں بربادی کا سبب بن جاتا ہیں۔

مگر جہاں اس زبان کے بے شمار نقصانات ہیں اگر اس زبان کو ہم سمجھداری اور احساس ذمہ داری کے ساتھ استعمال کرے تو ہمیں اس کے بہت سے فوائد حاصل ہونگے ۔بہت سی بیٹیاں اپنی زبان کو قابو میں رکھتے ہوئے اپنے سسرال میں خوش اخلاقی کا مظاہرہ کوتی ہے اور ہر د ل عزیز بن جاتی ہے کیونکہ
لہجے میں اگررس ہو تو دو بول بہت ہیں
انسان کورہتی ہےمحبت کی زباں یاد

زبان کے صحیح استعمال کی وجہ سے بزنس مین اپنے کسٹمر کو اپنا گرویدہ بنالیتے ہیں اور اپنے کاروبار کو دن دگنا رات چگنا پھلتا دیکھتے ہیں زبان کے صحیح استعمال کی وجہ سے لوگ اپنے رشتہ داروں میں ہر دل عزیز بن جاتے ہیں مفہوم حدیث ہے تم میں بھتر وہ ہے جس کا اخلاق تم میں بھتر ہو۔

مگر صدافسوس آج ہم بحیثیت قوم ہی زبان کے غلط استعمال کے عادی ہو چکے ہیں جوکہ ہماری دنیاوآخرت دونوں کے لیے نقصان دہ ہیں آج ہمیں زرہ سی تکلیف پہبچے جیسا کہ ہمارے ہاں لوڈ شیڈنگ کا رواج ہے جیسے ہی لائٹ جاتی ہے ہم مغلظات بکنا اپنا فرض سمجھتے ہیں حالانکہ مفہوم حدیث ہے کہ کسی مسلمسا کو ذرا سی بھی تکلیف پہنچے اسے چاہیے کہ کہے انّا للہ وانّا الیہ راجعون اس کلمے کی بدولت ہم نہ صرف غینت سے بچتے ہیں بلکہ اس کلمے کی بدولت ہم ثواب کماتے ہیں اور دوسرا یہ کہ آج کل ہماری نوجوان نسل انگریزی کے فقرے بولتی ہیں یا تو وہ آخرت کے لیے نقصن دہ ہیں یا پھر ان فقروں کے کہنے کا کوئی فائدہ بھی نہیں جبکہ ہمیں جو دین نے الفاظ سکھائے ہیں وہ ہماری دنیاوآخرت دونوں کے لیے سود مند ہیں جیسا کہ الحمد للہ،جزاک للہ،تبارک للہ،ماشااللہ،ان شا اللہ، یہ وہ الفاظ ہے جن کی ہمیں اپنے معاشرے میں رائج کرنے کی ضرورت ہیں
اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق نصیب بنائے آمیین
 

فاطمہ بنت انتظام
About the Author: فاطمہ بنت انتظام Read More Articles by فاطمہ بنت انتظام: 6 Articles with 5333 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.