سال نو پر ایک عزم خود سے کریں

جب گھر میں نیا مہمان آنے والا ہوتا ہے تو مہمان کے لیے کچھ پلاننگ کی جاتی ہے۔ اسی طرح نیا سال بھی مہمان کی طرح ہوتا ہے جو آتا ہے کچھ یادوں کا تحفہ دیتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ اس مہمان کے لیے بھی پلاننگ بہت ضروری ہے اور پلاننگ کتنی ضروری ہے اس کا اندازہ ہم پچھلے سالوں کی ناکامیوں اور کامیابیوں سے لگا سکتے ہیں۔ جب تک انسان اپنی ذات کی اصلاح نہ کر لے تب تک انسان اپنے ارد گرد کے حالات بہتر نہیں کر سکتا۔ میں اور آپ مل کر کچھ مقاصد کا تعیین کریں گے، کچھ وعدے کریں گے اور کچھ ارادے جب ہی ہم خود کو اور ارد گرد کے کے ماحول میں مثبت تبدیلی لانے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ ہمیں اصلاح کا آغاز ہمیشہ اپنی ذات سے کرنا چاہیے۔سال نو کی آمد پر ہمیں نہ صرف خود سے عہد کرنا ہوگا بلکہ خود کو تبدیل کرنے کاآغاز بھی کرنا ہوگا۔ ہمیں کامیاب ہونے کے لیے جن عادات کواپنی ذات کا حصہ بنانا چاہیے وہ درج ذیل ہیں۔

’’امید‘‘۔ امیدانسان کو فرش سے عرش پر پہنچا دیتی ہیں۔ ہر کامیاب انسان کی پہچان ہوتی کہ وہ کسی بھی حالت میں نا امید نہیں ہوتا۔ یہ امید ہی ہوتی ہے جو ہمیں ہر آنے والے وقت کے لیے زندہ رکھتی ہے اور برے وقت سے لڑنے کا حوصلہ فراہم کرتی ہے۔ ناامیدی کا شکار انسان اپنی زندگی کی جنگ وقت سے پہلے ہار جاتا ہے کیوں کہ وقت سے پہلے اپنی شکست تسلیم کرلیتا ہے اور میدان چھوڑ کر فرار کا راستہ اختیار کرلیتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ مشکل سے مشکل ترین حالات میں بھی امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔

’’حوصلہ‘‘۔ جب انسان نامیدی کی کیفیت سے باہر آجائے گا تو اس میں کچھ کردکھانے کا عزم اور حوصلہ بیدار ہوگا ۔ جو اسے زندگی میں آگے بڑھنے اور کامیابی کی منازل طے کرنے میں ہمیشہ مدد کرے گا۔ ’’احساس کمتری اور برتری‘‘، یہ دونوں وہ پرندے ہیں جو اپنی چونچ سے اپنے آپ کو خودزخمی کر لیتے ہیں۔ احساس کمتری وہ زنجیر ہے جو انسان اپنی ٹانگ پر خود لگاتا ہے اور اس کی چابی دوسروں کے ہاتھ میں دے دیتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ دوسروں کو ہرانے کی بجائے اپنی جیت پرتوجہ دیں تو شاید ہمارے لیے زندگی میں زیادہ مواقع پیدا ہوں گے۔ احساس برتری ہو یااحساس کمتری دونوں ہی انسان کو بالآخر کامیاب نہیں ہونے دیتے۔
’’اخلاق‘‘ اخلاق ایک ایسا ہتھیار ہے اگر انسان اس کو استعمال کرنے کا طریقہ سیکھ لے تو دنیا کی بجائے لوگوں کے دلوں پر حکومت کرے گا مگر ہم اس ہتھیار کو استعمال کرنا نہیں جانتے۔ اچھا اخلاق اچھے انسان ہونے کی ضمانت ہے۔ ’’برداشت‘‘ عدم برداشت کی وجہ سے انسان نے انسان کو سمجھنا بند کر دیا ہے۔ چھوٹی باتوں کو رائی کا پہاڑ بنا کر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے ہیں۔کسی بھی مثالی معاشرے میں قوت برداشت اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ صبر وبرداشت وہ خوبی ہے جو انسان کو کبھی ناکام نہیں ہونے دیتی ۔

’’صلہ رحمی‘‘ ہم نے انا کی دوڑ میں رشتوں کو مات دے دی اور ہم یہ سمجھتے ہیں ہم کامیاب جا رہیں ہیں مگر ایسا نہیں ہے ہم بری طرح ناکام ہو رہے ہیں۔ ہم نے اپنی انا کی جنگ میں صلہ رحمی کرنا چھوڑدی ہے۔ ہم نے اپنے عزیز و اقربا سے فقط اپنی جھوٹی انا و شا ن کی خاطر قطع تعلق کرلیا ہے اور اپنی خوشیوں سے منہ موڑلیا ہے۔ پھر ہم تنہائی کا شکوہ بھی کرتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ یہ حسد و نفرت کی آگ ہماری ہی لگائی ہوئی ہے۔

’’مثبت سوچ‘‘ مثبت سوچ وہ ہتھیار ہے جو انسان کو زندگی کے ہر مرحلے میں کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے۔ مثبت سوچ ہمیں مثبت نتائج فراہم کرتی ہے۔ جب کہ منفی سوچ کہ حامل افراد نہ صرف اپنا بلکہ اپنے قریبی لوگوں کے نقصان کا باعث بھی بنتے ہیں۔

ہمیں عہد کرنا ہوگا کہ ہم اپنے حوصلوں کو بلند رکھیں گے، ناامیدی کے قریب بھی نہیں جائیں گے، اخلاق کو بہترین بنائیں گے، برداشت کی طاقت کو مظبوط کریں گے، خدمت کو اپنا شیوہ بنائیں گے جب ہم ان سب باتوں کو اپنا لیں گے تو یقین مانیے ہم اچھے انسان بننے کے ساتھ ہم ایک اچھے پاکستانی بھی بن جائیں گے۔ جب ہم اپنے آپ کو سمجھنا شروع ہوں گے اوراپنی غلطیوں کی درستی کی طرف آئیں گے تو یقین مانیے جب اندر کے حالات بدلتے ہیں تو باہر کے حالات بدلنا خود بخود شروع ہو جاتے ہیں۔ ہم ان سب وعدوں اور ارادوں کے ساتھ 2019 کو خوش آمدیدکہتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ نئے سال میں ہمیں خود کو اور دوسروں کا سمجھنا آجائے، آسانیاں بانٹنی آ جائیں ، محبت کرنی آ جائے اور نیا سال ہمارے لیے خوشیوں کا سال ثابت ہو۔آمین

Bilal Shaikh
About the Author: Bilal Shaikh Read More Articles by Bilal Shaikh: 15 Articles with 10894 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.