بے آسرا افراد کے لیے پناہ گاہوں کی تعمیر

میر ے بڑے بھائی ( محمد رمضان لودھی ) انتقال کرگئے ۔اطلاع ملتے ہی مجھ سمیت خاندان کے تمام افراد مرحوم کے گھر پہنچے۔ دسمبر کا آخری ہفتہ چل رہا تھا سردی اپنے جوبن پر تھی ۔ایک جانب سردی نے بے حال کررکھا تھا تو دوسری جانب بھائی کی ناگہانی موت کاصدمہ ناقابل برداشت تھا ۔ سوگوار گھرکے باہر زمین پر بچھی ہوئی دریوں پر کچھ لوگ سردی سے کانپتے ہوئے بیٹھے دکھائی دیئے ۔ بھابھی اور بھتیجوں کو دلاسہ دینے کے بعد میں بھی زمین پر بچھی ہوئی دری پر جا بیٹھا ‘زمین کی ٹھنڈک نے مجھے بیٹھتے ہی اپنی شدت کااحساس کروادیا۔ جو پورے جسم میں سرایت کررہی تھی ۔آسمان سے گرنے والی اوس نے ماحول کو مزید سرد کردیا ‘ شامیانہ لگوا یا پھربھی کپکپاہٹ میں کمی نہ ہوئی ۔کہا ں بندکمرے کے گرم بستر میں سونا اور تعزیت والے گھربچھی ہوئی دری پر ۔یہی فرق انسان کو اپنی اوقات یاد دلا دیتا ہے ۔ گرم رضائی میں بھی اگر پاؤں ٹھنڈے رہیں تو نیند نہیں آتی ۔ قریب ہی مرحوم بھائی کا جسد چارپائی پر موجود تھا ۔چونکہ عزیز و اقارب نے دوسرے شہروں سے پہنچنا تھااس لیے فیصلہ یہی کیا گیا کہ تدفینی مراحل اگلے دن انجام دیئے جائیں ۔ زندگی میں شاید کسی میت کے قریب ٹھنڈی زمین پر بچھی ہوئی دری پر سخت ترین سردی کے موسم میں ٹھنڈی زمین پر بیٹھنے کا یہ پہلا موقع تھا ۔ان حالات میں جبکہ انسان اٹھ کر بھی کہیں جانہیں سکتا ۔یہ رات مجھے زندگی بھر نہیں بھولتی کیونکہ اس رات ان بے آسرا لوگوں کی تکالیف کا احساس مجھے احساس کروادیا جو مزدوری کرنے لاہور آتے ہیں اور شام ڈھلے فٹ پاتھوں اور سڑکوں کے کنارے اگی ہوئی گھاس پر خود کو اﷲ کے سپرد کرکے سو جاتے ہیں۔ سرد موسم کی صعوبتیں انسانی جسم کو کہاں سکون لینے دیتی ہیں ۔مجھے ان بے بس اور بیچارے غریب لوگوں کا احساس ہمیشہ سے تھالیکن میرے پاس اتنے وسائل نہیں تھے کہ ان کی مدد کرسکتا ۔ موسم خوشگوار ہواتووالٹن روڈ( جہاں میری رہائش ہے ) کے دونوں اطراف کشادہ گرین بیلٹ پربڑی مقدار میں لوگوں کو سوتے ہوئے پھر دیکھا۔ میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اگر میں زیادہ نہیں تو ہفتے میں ایک دن ان کے ناشتے کا انتظام کرسکتا ہوں ۔ میں نے اس ارادے سے اپنے فرشتہ صفت امام ‘قاری محمد اقبال صاحب کو آگاہ کیا تو انہوں نے سراہتے ہوئے فرمایا میں بھی اس مشن میں آپ کے ساتھ ہوں گا ۔ چنانچہ ہم دونوں نے ہر جمعرات کو نماز فجر کے بعد گرین بیلٹ پر سوئے ہوئے افراد کو پاس جاکر ناشتے فراہم کرنا شروع کردیا ۔جب ان کی آنکھ کھلتی ہوگی تووہ اپنے قریب ناشتے کا پیکٹ دیکھ کر یقینا خوش ہوتے ہوں گے ان کی یہ خوشی ہی ہماری زندگی کا اہم مقصد تھا۔یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ مسجد کے مدرسوں اور ملک بھر کے دینی مدرسوں میں جتنے بھی بچے قرآن پاک حفظ و ناظرہ پڑھتے ہیں وہ بھی سردیوں کی راتوں میں ٹھنڈے فرش پرہی دریاں بچھا کر سوتے ہیں ۔ مجھے خوشی ہوئی کہ عمران خان نے ایسے بے آسرا افراد کی شب بسری کے لیے سرکاری طور پر پناہ گاہیں تعمیر کرنے کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ کئی پایہ تکمیل کوبھی پہنچ چکے ہیں ۔ اس فیصلے پر مجھے بے حد انتہائی خوشی ہوئی کہ کسی حکمران کو ہی ان بے آسرا لوگوں کے مسائل کا بھی احساس ہوا ۔ شیرشاہ سوری کے دور میں ہر دس میل کے فاصلے پر سرائیں تعمیرکی جاتی تھیں ‘عمران خان نے اس عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے ہر بڑے شہرمیں پناہ گائیں بنانے کا جو عمل شروع کیا ہے وہ قابل تعریف اقدام کیا ہے ۔ حکومت پاکستان نے پنجاب اور خیبر پی کے کی صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر دارالحکومت اسلام آباد سمیت لاہور، راولپنڈی اور پشاور میں بے آسرا و بے گھر افراد کے لئے عارضی پناہ گاہیں قائم کر دی ہیں۔ ان پناہ گاہوں میں آنے والے افراد کو موسم کی مناسبت سے گرم بستر کی فراہمی کے ساتھ رات کا کھانا اور صبح کا ناشتہ فراہم کیا جارہا ہے۔ پناہ گاہوں کے قریب واش روم کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے جبکہ پناہ گاہ کے ارد گرد صفائی ستھرائی کا مناسب انتظام باقاعدہ کمپنیوں کے ذمہ دار افسران کو سونپا گیا ہے تاکہ وہ صفائی ستھرائی کے معاملات اپنی نگرانی میں دیکھیں، پناہ گاہوں کی سکیورٹی کے لئے پولیس کے ساتھ سول ڈیفنس کے رضارکار ساری رات پناہ گاہوں کے باہر ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں۔ اسلام آباد، لاہور، راولپنڈی اور پشاور کی انتظامیہ نے اس بات پر خصوصی توجہ دی ہے کہ پناہ گاہ میں آنے والے افراد کو گھر جیسا ماحول، آرام دہ بستر اور صاف ستھرا کھانا فراہم ہو، پناہ گاہ میں آنے والے ہر فرد کا ریکارڈ محکمہ سوشل ویلفیئر کے آفیسر کی موجودگی میں رجسٹرز میں درج کیا جاتا ہے۔ انتظامیہ محکمہ موسمیات سے بھی مکمل رابطہ میں رہتی ہے تاکہ بارش کی صورت میں عارضی پناہ گاہوں کو قریبی سرکاری و پرائیویٹ عمارتوں میں بروقت شفٹ کیا جا سکے۔ ضلعی انتظامیہ لاہور کی جانب سے ریلوے سٹیشن، داتا دربار، ٹھوکر نیاز بیگ، لاری اڈا، پھل و سبزی منڈی بادامی باغ میں عارضی پناہ گاہیں قائم کی گئی ہیں ان پناہ گاہوں میں مجموعی طور پر روزانہ اوسطاً 180افراد رات گزارتے ہیں جبکہ جمعہ اور ہفتہ کی رات پناہ گاہوں میں قیام کرنے والے افراد کی تعداد 230کے قریب ہو جاتی ہے۔یاد رہے کہ لاہور جیسے بڑے شہر میں چار پناہ گاہیں بہت کم ہیں تعدادکو اگر دوگنا بھی کردیاجائے تو شاید مزید کچھ لوگوں کو شب بسری کے لیے پرسکون ماحول میسر آجائے ۔وزیر اعلی پنجاب نے مزید اعلان کیا ہے کہ پناہ گاہیں ہر ضلع میں تعمیر کی جائیں گی جبکہ مزدور کی پناہ گاہوں تک رسائی کے لیے ٹرانسپورٹ چلانے کاپروگرام ہے ۔ اس حوالے سے تجویز ہے اگر حکومت پناہ گاہوں میں قیام کرنے والے مزدوروں کو ایک کارڈ جاری کردے جس پر وہ فری سفرکرنے کے علاوہ دوپہر کا کھانا بھی کھا سکیں تو مناسب رہے گا۔ جہاں ان پناہ گاہوں میں دو وقت کھانا فراہم کرنے کا تعلق ہے ۔ بحریہ ٹاؤن اور سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ پہلے ہی یہ کام کررہے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ دو وقت کا مفت کھانا فراہم کرنے کا انتظام ہر تحصیل سطح پر کیا جائے کیونکہ مہنگائی اور غربت نے ہر چوتھے انسان کو بھکاری بناکررکھ دیا ہے ۔ مسجد وں کے باہر ‘ چوراہوں پر ‘ ریلوے اسٹیشنوں پر اور بس اڈوں پر جگہ جگہ بھیک مانگنے والے کثیر تعدادمیں عورتیں ‘ بچے اور مرد دکھائی دیتے ہیں جو معاشرے کی ناہمواری اور وسائل کی ناہموار تقسیم کو ظاہر کرتے ہیں ۔بڑے شہروں میں مزدوری کے لیے آنے والوں کے علاوہ ملک کے تمام دینی اور مساجد سے ملحقہ مدرسوں کے طلبا بھی مرکزی اور صوبائی حکومت کی توجہ کے محتاج ہیں جن کو بہتر غذا کے ساتھ ساتھ شب بسری کے لیے بہتر ماحول فراہم کیا جائے ۔عمران خان نے بطور وزیر اعظم بے آسر ا اور غریب لوگوں کے آسانیاں پیدا کرنے کا اگر عزم کرہی لیا ہے تو اس کادائرہ ہر تحصیل کی سطح پر وسیع کیاجانے اشد ضروری ہے ۔بلکہ ایسے بے آسرا افراد کو حکومت کی جانب سے ایسے کارڈ فراہم کیے جائیں جن کے ذریعے وہ اپنا مفت علاج‘ مفت کھانا اور مزدوری کی جگہ سے پناہ گاہ تک سفر کرسکیں۔
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 668992 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.