چودہویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو۔ جو بھی ہو تم خدا کی قسم
لاجواب ہو۔
شکیل بدایونی:۔ جنہوں نے اس گیت کے بول لکھے تھے شاید وہ یہ فیصلہ نہیں کر
پا رہا تھا اور اس کشمکش میں تھا کہ اپنے محبوب کو کس چیز سے تشبیہ دے دوں۔
اگر چاند کہوں تو چاند صبح کو بے نور ہو جاتا ہے اگر آفتاب کہوں تو وہ رات
کو غائب ہو جاتا ہے۔ بلآخر ایک سیاسی نعرہ لگا کر یعنی خدا کی قسم کا سہارا
لے کر بس صرف لاجواب ہو پر ہی اکتفاء کر بیٹھتا ہے۔ اس الجھن میں اکثر
ہمارے شاعر و ادیب مبتلا ہوتے رہتے ہیں۔ اور اپنے چاہنے والے کو مختلف
چیزوں کے ساتھ تشبیہ دیتے رہتے ہیں کھبی کہتے ہیں کہ چاند ہو کبھی کہتے کہ
کلی ہو اور کبھی کہتے ہیں کہ پری ہو۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ایسے لوگ
ہمیشہ ایک خیالی دنیا میں جیتے ہیں جس میں ان کی زبان سے کبھی حقیقت نہیں
نکلتی۔ ورنہ آپ کبھی تحقیق کر لے کہ یہ پری ہے کیا ؟ پری نام کی کوئی مخلوق
آپ کو اس دنیا میں نہیں ملے گی۔ یہ صرف تصوراتی اور افسانوی نام ہے۔ اور
کلی تو کھبی کھبی پھول بن جاتی ہے لیکن اکثر مرجھا جاتی ہیں۔ اور چاند تو
ایک گولہ ہے جس کی اپنی روشنی تک نہیں ہے اور اپنے مدار میں تیر رہا ہے۔
میرے نزدیک اس قسم کے نام دینے میں دو طرح کی خامیاں ہوتی ہے۔ایک یہ کہ اس
چیز کی اصلیت نظر انداز ہوجاتی ہے اور دوسری یہ کہ انسان جیسے مخلوق کو
چاند جیسے گولے یا اس پری (جس کی کوئی حقیقت ہی نہ ہو) سے تشبیہ دینا
انسانیت کی تذلیل ہے۔ اور بدقسمتی سے ہمارے دانشوروں نے کبھی بھی ایسے
اصطلاحات پر جرح نہیں کی بلکہ وہ بھی ان ہی الفاظ کو ترویج دیتے رہے ۔ جس
کی وجہ سے عوام میں کسی چیز کی حقیقت جاننے کی دلچسپی باقی نہیں رہی اور
یوں اس چیز کی اصلیت نظر انداز ہونے لگی۔ بس شاعر اور افسانہ نگار بیان
کرتے رہتے ہےاور بے چارے عوام عش عش کرتے سنتے رہتے ہیں۔ایسی تربیت سے
قومیں ترقی کی طرف نہیں بلکہ زوال کی طرف سفر کرتی ہےاور چیزوں کی اصلیت
بھول جاتی ہیں اور تخیلات کے گرویدہ بن جاتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں ایسی
قوموں کا اجتہاد سراسر غلط اور ان کا باہمی اختلاف موجب فساد ہوتا ہے۔ مثال
کے طور پر چاند کو لیجئے۔ چاند کے بارے میں ہمارے ملک میں بھی اختلاف ہوتا
ہے اور چاند کے بارے میں مغربی محقیقن کا بھی اختلاف رہا ہے۔ ہمارا اختلاف
یہ ہوتا ہے کہایک جگہ پر چاند نظر آجاتاہے تو دوسری جگہ نظر نہیں آتا لہذا
ملک کے کچھ حصے میں لوگ عید مناتے ہیں اور اکثر حصہ میں ابھی رمضان ہوتا ہے۔
اور اہل مغرب کے ہاں اختلاف کیا تھا وہ یہ کہ ہم چاند پر پہنچے ہیں یا نہیں۔
چنانچہ جب 1969میں امریکی ادارے ناسا کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ ہم
اپولو گیارہ مشن کے ذریعے چاند پر پہنچ گئے ہیں۔ اور چاند کی براہ راست
ویڈیو اور تصاویر جاری کئے گئے۔ تو اس وقت بہت سے امریکی اور برطانوی
محققین نے ان سے شدید اختلاف کیا اور ان کی اس وڈیو اور تصویروں پر کافی
جرح کی۔ مون لینڈنگ کانسپیرنسی تھیوری کے ابتدائی پروموٹرز میں سے ایک فاکس
ٹیلیویژن نیٹ ورک تھا جس نے سال 2001 میں ڈاکومنٹری فلم بنائی۔ جسے
کانسپیرنسی تھیوری کا نام دیا کہ کیا ہم نے چاند پر لینڈنگ کیا تھا؟ اس نے
یہ دعویٰ کیا کہ ناسا نے خلائی ریس جیتنے کے لیے 1969 میں چاند پر جعلی
لینڈ کیا۔ اس فلم میں یہ ثبوت پیش کئے گئے کہ چاند کے ان تصاویر میں آسمان
پر کوئی ستارے دکھائے نہیں دیتے اور چاند پر نصب کئے ہوئے امریکی پرچم چاند
پر ہوا کے نہ ہونے کے باوجود لہراتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس قسم کے بے شمار
چیزوں پر بحث کی گئی جس کا ناسا والوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میرا مقصد یہ
بتانا نہیں ہے کہ اپولو گیارہ نے چاند پر لینڈ کیا تھا کہ نہیں۔ میں تو صرف
یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس چاند کے بارے میں اہل مغرب کے اختلاف کا معیار
کیا ہے اور ہمارے اختلاف کا معیار کیا ہے۔ یعنی ہمارے شاعر و ادیب سورج اور
چاند کے بارے میں کیا نظریہ پھیلا رہے ہیں۔ اور ہمارے اہل علم کس معیار کا
اختلاف کر رہے ہیں۔ حلانکہ قرآن حکیم دنیا کی وہ پہلی کتاب ہے جس سورج اور
چاند کی اصلی حیثیت کو واضح کیا۔ اور چودہ سو سال پہلے عرب کے صحرا نشینوں
کو یہ تعلیم دی (ھوالذی جعل الشمس ضیاء والقمر نورا) کہ وہ اللہ ہی ہے جس
نے سورج کو اجالا بنایا اور چاند کوچمک دی۔ یعنی سورج کو روشنی دینے والا
ضیاء قرار دیا اور چاند کو نور یا منعکس شدہ روشنی دینے والا قرار دیا۔ کہ
چاند سورج سے روشنی لیتا اور زمین پر منعکس کرتاہے۔ کیا یہ سائنسی نکتہ
دنیا کی کئی ہزار سالہ تاریخ میں کوئی پیش کرسکتا ہے کہ قرآن سے پہلے کسی
نے یہ بتایا ہو۔قدیم تہذیبوں میں تو یہ عقیدہ عام تھا کہ چاند سے اپنی
روشنی پھوٹتی ہے۔ اور ہندو مذہب میں تو چاند کی عبادت تک کی جاتی تھی۔ اور
شاید اسی شرک کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح کعبے کے
اندر رکھے ہوئے بتوں کو اپنے ھاتھوں سے توڑ دیا تھا اسی طرح چاند کے بھی دو
ٹکڑے کئے۔ شاید اسی وجہ سے چاند کے چہرے پر ہمیشہ کے لیے داغ رہ گئے۔ چاند
کے دو ٹکڑے ہونے کے روایات بخآری و مسلم میں موجود ہے۔ اور شق القمر کے اس
منظر کو ہندوستانی بادشاہ مالیبار کے مہاراجہ"چکرورتی فارمس نے اپنی آنکھوں
سے دیکھا تھا جس کا مشہور ومستند کتاب تاریخ فرشتہ میں ذکر موجود ہے۔ اور
یہی واقعہ اس بادشاہ کے مسلمان بننے کا سبب بنا۔
اور مجھے تعجب اس بات پر ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کے
دو ٹکڑے کئے اور قرآن حکیم نے سب سے پہلے چاند کے کھودنے کا اعلان کیا (اقتربت
الساعتہ وانشق القمر) یعنی قیامت قریب آپہنچی اور چاند شق ہو گیا۔ شق کے
ایک معنی کھودنے کے ہے۔ اور مسلمان جو قرآن کے ماننے والے ہے اور اولین
مخاطب بھی ہے ان کو اس سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے وہ تو صرف نظر آنے یا نہ
آنے کے اختلاف میں پڑے ہوئے ہیں۔ اور اس کے برخلاف مغربی اہل علم چاند کو
کھود کر اس کی مٹی زمین پر لے آئے اور ان کا قرآن حکیم پر ایمان بھی نہیں
ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن حکیم پر صرف ایمان لانا اور پھر اس میں
غور و تدبر نہ کرنا علمی ترقی کے لیے کافی نہیں ہے۔
قارئین۔ قرآن حکیم صرف چومنے اور بلند جگہوں پر رکھنے کے لیے نازلنہیں ہوا
بلکہ آپکی زندگی میں ایک بامعنی کردار ادا کرنے کے لیے نازل ہوا ہے۔
بشرطیکہ آپ اس میں غور و تدبر کریں۔
قرآن میں ہوغوطہ زن اے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار۔
|