عصر حاضر میں تعلیم کی عظمت

رواں دور کو تعلیمی دور کے نام سے یاد کیا جا تاہے۔ جہاں ہر شخص حصول علم کی تگ و دو میں کوشاں ہے۔ اب تو پیدل اسکول جانے کا زمانہ اتنا نہ رہا ورنہ اس وقت اسکول کو جانے والی ساری شاہراہوں پر طالب علم کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ سہانی صبح کو اسکول جانے کا مزہ ہی کچھ اور ہو تاتھا۔ اب حالات نے یوں کروٹیں لیں کہ جسمانی ورزش کا نظام ہی درہم برہم ہو چلا ہے اور اب تو بس حمل و نقل کی جدید مشینری سے ہی استفادہ کیا جا تا ہے۔

آج کے اس ترقی یافتہ دور میں ہر ماں باپ کی یہی تمنا ہوتی ہے کہ اپنے گود کے پالوں کو ہر قسم کی تعلیمی آسائش سے بہرہ مند رکھے۔ مگر زیادہ کامیاب وہی لوگ ہیں جن کے اقتصادیات مضبوط ہوں۔ چونکہ مہنگائی نے اس قدر سر اٹھا لیا ہے کہ غریب طبقہ حضرات اپنی عزیز اولاد کو بھی اعلی تعلیمی آسودگی فراہم کرنے سے قاصر ہے.

اہل علم دن بدن تعلیمی بالیدگی کو سر کئے جا رہے ہیں۔ ان کی کوشش یہ رہی ہے کہ لوگ بھی تعلیم یافتہ بن جائیں اور جہالت کی تاریک راہوں پر علم کی روشنی بکھیرد ی جائے۔ اسی مقصد کے تحت شہرسے دور دیہی علاقوں میں جگہ جگہ علمی مراکز قائم کئے جارہے ہیں تاکہ ہر کوئی دولت علم سے فیضیاب ہو سکے۔ ہر علم پسند کی یہی دلی تمنا ہے کہ ہر سو علم کا بول بالا ہوجائے اور چار سو سے جہالت کا خاتمہ ہوجائے۔

ہر مکتب فکر کی یہی انتھک کوشش رہی ہے کہ قوم کی ہر فرد زیور تعلیم سے آراستہ رہے اور خود کو آدمیت کے خول سے نکال کر انسانیت کے دائرہ میں آجائے۔ جوں جوں تعلیمی وسائل بڑھ رہے ہیں، انسان کو اس بات کو احساس ہونے لگا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمارے اندر بے شمار قیمتی جوہر نہاں کررکھے ہیں۔ بس ہمیں انہیں اجاگر کرنے کی ضرورت ہے اور آج ہر انسان اسی قابل قدر جوہر کی جستجو میں سر گرم ہے۔ لوگ اس نکتہ کو بخوبی سمجھ چکے ہیں کہ جہالت ایک بدترین سماجی ناسور ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ہماری آئندہ نسل کو پستی کی طرف ڈھکیل دے گا۔ لہذا، ہر صاحبان علم معاشرہ میں بہبودی لانے میں آٹھوں پہر کدو کاوش کر رہا ہے ۔

تعلیمی ترقی سے بہت سے اسرار کائنات کھل کر سامنے آئے ہیں۔ پچھلے زمانوں میں کون تصور کر سکتاتھا کہ زمین پر بیٹھ کر آسمان کا سفر کیا جاسکے گااور گھر بیٹھے دنیا کے نظارہ کیا جاسکے گا۔ لیکن آج یہ باتیں سبھی کے علم میں ہیں۔ یہ صرف علم کی بدولت میسر ہے۔

حالیہ ترقی پر ہر فرد بشر کا دل دل خوشی سے باغ باغ ہوا جاتا ہے اور بڑے ہی فخر و مباہات سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ابھی تو تاروں پہ کمنڈے ڈالنا باقی ہے۔ عصر حاضر کا انسان ایسے خواب کی تلاش میں ہے جسے اس کے بزرگوں نے دیکھا ہی نہیں تھا۔ کبھی مردوں کے زندہ کرنے پر تجربہ کیا جاتا ہے مگر ناکام ہو جا تاہےاور قیامت کی پیشن گوئی کی جاتی ہے اور نظریات دم توڑ جاتے ہیں۔ یہ ہوا اس لئے کہ علم ہے لیکن معرفت سے بے بہرہ ہے۔ جس کے سبب وہ فطرت کے مسلم اصولوں کو چیلنچ کرتا ہے مگر نتیجہ میں شرمندگی ہی ہاتھ آتی ہے۔

درحقیقت! علم وہی ہے جو معرفت خالق کے حصول کا سبب بنے اور جو علم الوہیت سے دور کرے وہ محض گمراہی ہے ۔ خالق دو جہان نے زمین و آسمان میں جو نشانیاں پیدا کی ہیں۔ دشت و صحرا، آفاق و سمندروں میں جو عجائبات پنہاں کئے ہیں، ان کے انکشاف و دریافت سے مالک و خالق حقیقی کا پتہ چلتا ہے۔ اگتا سورج ہو یا نکتا چاند، یہ سب خالق کی راہ معرفت کے چراغ ہیں۔ اور معرفت، علم کے بغیر نا ممکن ہے۔ اگر کسی محقق نے زمین کی کشش کو کشف کیا تواس کو خالق زمین کا اعتراف کرنا چاہئے۔ اگر کسی نے پانی سے روشنی کے وجود کو حاصل کیا تو اسے نور محض خدا کی معرفت حاصل کرناچاہئے۔اگر کسی نے دھرتی سے آکاش میں لوہے اڑانے کا ہنر حاصل کیا تو اس کو ہوا و فضا کے خالق کا کلمہ پڑھنا چاہئے۔ یہ کائنات راز سر بستہ ہے مالک حقیقی کا اور اس کا حصول علم کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ علم کی معراج یہ ہے کہ مالک کائنات کی معرفت حاصل ہوجائے۔۔۔!

ہاں۔۔۔!بہت سارے ایسے منصف مزاج محقق گزرے ہیں جنہوں نے وجود خدا اور وحدانیت الہی کا اعتراف کیا ہے۔