وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مجلس عاملہ کے فیصلے
مطابق ملک بھرمیں پیغام مدارس کانفرنسوں کاسلسلہ جاری ہے ۔اس حوالے سے ملک
کے مختلف مقامات پر عظیم الشان ،تاریخ ساز اور یادگار پروگراموں کا
انعقادہوا۔ناصر باغ لاہور میں ہونے والی پیغام مدارس کانفرنس اپنی نوعیت کی
منفرد اور یادگار کانفرنس تھی۔ ناصر باغ لاہور میں ہر طرف بہار دکھائی دے
رہی تھی ……نورانی چہرے ……سنت کے مطابق لباس ……دین سے محبت رکھنے والے ……دینی
مدارس سے وابستگی رکھنے والے…… لاہور اور گرد ونواح کے اہل مدارس ،علماء
وطلبہ ،مساجد کے ائمہ وخطباء،طلبہ کے سرپرست ،مدارس کے معاونین،مختلف شعبہ
ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے حضرات کی کثیر تعداد ناصر باغ لاہو ر میں
جمع تھی ……یہ مجمع سیاسی بنیادوں پر اکٹھا نہیں کیا گیا تھا ……کسی خوشنما
نعرے پر جمع نہیں کیا گیا تھا……زندہ دلان لاہور کو کسی دھوکے سے ناصر باغ
نہیں بلایا گیا تھا ……مہنگی میڈیا کمپین نہیں چلائی گئی تھی…… بلکہ شہر کی
مساجد کے منبر ومحراب سے آواز بلند ہوئی تھی ……پورے علاقے میں پھیلے ہوئے
اہل مدارس نے سینہ بہ سینہ دعوت دی تھی…… اور اتنا بھر پور اور کامیاب
پروگرام انعقاد پذیر ہواجو وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے حسن انتظام کا
شاہکار تھا ۔
لاکھوں روپے کے بجٹ کا بندوبست……تاحد نگاہ انسانوں کا جم غفیر…… سیکیورٹی
کے انتظامات ……ساؤنڈسسٹم ……خصوصی مہمانوں کے لیے الگ راستے بنائے گئے تھے
……معززین علاقہ اور علماء کرام کے لیے الگ راستے اور الگ بیج تیار کیے گئے
تھے ……عمومی پنڈال کے داخلی راستوں کا نظام بالکل جدا تھا…… پورے شہر کو
بینروں سے سجایا گیا تھا ۔ جلسے سے قبل شہرمیں مختلف اجلاس ہوئے، کمیٹیاں
بنیں ،ذمہ داریاں تقسیم ہوئیں ،ہر شخصیت اور ادارے نے وفاق المدارس العربیہ
پاکستان کے قائدین کے احکامات پر عملدرآمدکو اپنی ذمہ داری سمجھا ،کسی نے
یہ نہیں کہا کہ یہ فلاں کا کام ہے ،کسی نے کریڈٹ لینے کی کوشش نہیں کی ،کسی
نے اپنے حصے کا کام دوسروں کے کندھے پر ڈالنے کا نہیں کہا۔وفاق المدارس
پنجاب کے ناظم مولانا قاضی عبدالرشید نے ہمیشہ کی طرح اس پروگرام کی
کامیابی کے لیے لاہور کے کئی سفر کیے ،لاہور کے علماء کرام اور وفاق
المدارس کے وابستگان سے مسلسل رابطے میں رہے ،پروگرام کے دن بھی شدید دھند
اور راستوں کی بندش کے باوجود سب سے پہلے میزبان کے طور پر پنڈال میں موجود
تھے۔ مولانا فضل الرحیم صاحب پروگرام کی تیاریوں کے عمل کی نگرانی فرماتے
رہے ،ہدایات دیتے رہے ،کارگزاری سنتے رہے ،اپنے جملہ متعلقین کو مامور
فرمائے رکھا، جامعہ مدنیہ نے علماء اجتماع کی میزبانی کی ،جامعہ فتحیہ نے
اسٹیج سجایا ، وفاق المدارس لاہور کے مسوول مولانا عزیزالرحمن اور مفتی خرم
یوسف دن رات ایک کیے رہے ،ہر مدرسہ میں پہنچے ،ہرشخصیت سے رابطہ کیا ،ہرکام
کی نگرانی کی ۔
ہرادارہ اور ہرشخص اس پروگرام کے انتظامات کے سلسلے میں سرگرم عمل رہا ……
شیخ الحدیث مولانا زکریا ؒ کے خلیفہ مولانا حافظ صغیر صاحب شدید علالت کے
باوجود وہیل چیئرپر پروگرام میں تشریف لائے اور آخر تک موجود رہے ،مخدوم
العلماء والصلحاء مولانا محمد حسن صاحب پروگرام میں شریک رہے ،اپنے نصائح
سے نوازا ،شیخ الحدیث مولانا محب النبی صاحب، مولانا قاری احمد میاں تھانوی
صاحب ،مولانا رشید میاں صاحب ،مولانا محمود میاں صاحب ،آس اکیڈمی کے ناظم
مولانا عاطف صاحب،جامعہ فتحیہ کے مولانا عبدالمنان صاحب ،مولانا عبداﷲ مدنی
صاحب اورلاہور شہرکے ہر ادارے کے وابستگان پیش پیش رہے……جامعہ اشرفیہ بلکہ
تمام دینی تحریکوں، اداروں اور میڈیا کے مابین ہمیشہ پل کا کردار ادا کرنے
والے مولانا مجیب الرحمن انقلابی مسلسل میڈیا سے رابطے میں رہے،خبروں کی
اشاعت کا اہتمام کیا ،اخبارات کے خصوصی کلر ایڈ یشنز پر پیغام مدارس
کانفرنس کے حوالے سے مضامین چھپوائے ،مولانا مفتی ریاض جمیل اور ان کے
رفقاء کی ٹیم پروگرام کی لائیو کوریج اور سوشل میڈیا کمپین کے حوالے سے
سرگرم عمل رہی ۔
وفاق المدارس کی مجلس عاملہ کے رکن مولانا مفتی طاہر مسعود سرگودھا سے سفر
کرکے تشریف لائے اور خطاب فرمایا انہوں نے اپنے خطاب کے دوران ایک تاریخی
جملہ ارشاد فرمایا ’’ریاست مدینہ میں مدارس گرائے نہیں جاتے تھے بلکہ بنائے
جاتے تھے ‘‘ راقم الحروف کو چند معروضات پیش کرنے کا موقع ملا تو تین باتیں
عرض کیں ،(۱)رجوع الی اﷲ (۲)اتحاد یکجہتی اور اجتماعیت کا خیال (۳) اکابر
پر اعتماد کا اہتمام کرنے کی ضرورت ہے۔ یادگار اسلاف مولانا محمد حسن صاحب
نے اپنے خطاب میں دینی مدارس کو اخلاص وﷲیت اوریکسوئی سے دینی خدمات
سرانجام دینے کی تاکید فرمائی ۔جوان سال عالم دین مولاناظہیر احمدظہیر نے
ولولہ انگیز انداز سے مدارس دینیہ اور وفاق المدارس کے کردار وخدمات پر
گفتگو کی اور مجمع میں بیداری اورگرمجوشی کی روح پھونک دی ۔
پروگرام کا کلیدی اور مرکزی خطاب مولانا قاضی عبدالرشید کا تھا ۔انہوں نے
اپنے روایتی اورخوبصورت انداز میں دینی مدارس کی ضرورت واہمیت ،کردار
وخدمات پر روشنی ڈالی، پیغام مدارس مہم کے مقاصد کے بارے میں آگاہ فرمایا
،دینی مدارس کے بارے میں حکومت اور دیگر قوتوں کے اقدامات اور پالیسیوں پر
اظہار خیال کیا ،مدارس کو درپیش مسائل ومشکلات کے بارے میں گفتگو فرمائی
ایک جامع ،مکمل اور بھر پور خطاب ……مولانا قاضی عبدالرشید نے دینی مدارس کی
خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا مدارس اسلامی معاشرے کی بنیادی اور اہم
ترین ضرورت ہیں اور ان مدارس نے ہر دور میں قوم کے اعتماد کی لاج رکھی ،قوم
کی توقعات کو پورا کیا،کبھی ایسا نہیں ہوا کہ حفاظ قرآن اور ائمہ وخطبا ء
کی قلت یا لوڈ شیڈنگ کی نوبت آئی ہو ۔انہوں نے کہا کہ مدارس نے پاکستان کو
دنیا بھر کے تشنگان علوم نبوت کے لیے مرجع بنایا ،خود کفیل بنایا،جو ذمہ
داری اٹھائی اسے کماحقہ نبھایا ……انہوں نے کہا ’’دینی مدارس نے قوم میں
اتحاد ویکجہتی اور یکسانیت کو فروغ دیاجبکہ سرکاری بجٹ پر چلنے والے اداروں
نے قوم کو تقسیم کیا ،کبھی نصاب کے نام پر ،کبھی کلاس کے نام پر ،کبھی فیس
کی شکل میں ،کبھی کس عنوان سے کبھی کس عنوان سے ……انہوں نے کہا ’’پاکستان
کے دینی مدارس سے ہر سال ایک لاکھ سے زائد خوش نصیب بچے قرآن کریم کے حافظ
بن کر نکلتے ہیں یہ ایسی سعادت اور اعزاز ہے جو اس سعودی عرب کو بھی حاصل
نہیں جس کی سرزمین پر قرآن کریم نازل ہوا‘‘۔مولانا قاضی عبدالرشید نے اپنے
خطاب کے دوران حکمرانوں کو خبردار کیا کہ وہ مدارس کی رجسٹریشن کے راستے
میں رکاوٹیں ڈالنے سے گریز کریں ،کوائف طلبی کے نام پر مدارس کو ہراساں
کرنے کا سلسلہ بند کریں ۔انہوں نے کہا کہ مدارس کے خلاف مہم جوئی کے لیے
پرتولنے والے حکمران اپنے پیش رو حکمرانوں کے انجام سے سبق سیکھیں کہ کسی
کے لیے ملک کی سرزمین تنگ ہو گئی ،کسی کو موذی مرض نے آلیا ،کوئی جیلوں کی
نذر ہو گیا لیکن دینی مدارس ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے جب تک اﷲ کا
دین اور اﷲ کا قرآن باقی ہے ان مدارس کاکوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
یہ عظیم الشان اجتماع حضرت مولانا فضل الرحیم صاحب کے اختتامی کلمات اور
پرسوز دعا سے اختتام پذیر ہوا۔مولانا فضل الرحیم صاحب نے اپنے والد گرامی
مولانامفتی محمدحسن صاحب کا زریں قول نقل فرمایا کہ’’ ایمان کی ہر لمحہ
حفاظت کرتے ہوئے اسے قبر تک ساتھ لے جانا ہے‘‘۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اس
پروگرام کی برکات ،اثرات اور نتائج وثمرات دیر اور دور تک محسوس کیے جاتے
رہیں گے ۔
|