دو کروڑ سے زائد آبادی والے سمندر کے کنارے آباد شہر
کراچی کے شہری ایک عرصے سے صاف اور میٹھے پانی کے مسائل سے دوچار ہیں۔ اگر
چہ اس موضوع پر بہت کچھ تحریر کیا جا چکا ہے کئ ٹی وی پروگرامز تخلیق پا
چکے ہیں لیکن صورتحال جوں کی توں ہے۔اب چاہے لکھ لکھ کر ہمارے قلم کی سیاہی
خشک ہو جائے یا چیخ چیخ کر ٹی وی اینکرز کا گلا پھٹ جائے مگر کوئ دادرسی اس
وقت تک میسر نہیں آئے گی جب تک مناسب حکمت عملی تشکیل نہ پا جائے اور اس
مناسب حکمت عملی کا سال نو کب آئے گا یہ تو اعلی حکام ہی بتا سکتے ہیں ۔ فی
الحال اکثر علاقوں کی یہ صورتحال ہے کہ عوام کو کئ کئ دنوں تک پانی سے
محروم رہنا پڑتا ہے اور کچھ علاقے تو سالوں سے پیاسے ہیں یہاں پانی آتا ہی
نہیں۔ پاکستان ابھی خشک سالی سے 7 سال دور ہے مگر کراچی کے شہری ایک عرصے
سے خشک سالی کا رونا رو رہے ہیں۔ اگر مختصرا کچھ علاقوں کا جائزہ لیا
جائےتو ایشیا کی سب سے بڑی کچی آبادی کہلائے جانے والے علاقے اورنگی ٹائون
میں میٹھا پانی ہر 20 روز بعد آتا ہے اب آپ خود ہی اندازہ لگا لیں کے یہاں
کے گھروں میں اتنے دنوں کا پانی ذخیرہ کرنے کے لئے کیا انتظامات کئے جا
سکتے ہیں ۔علاوہ ازیں گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ ٹینکرذ بھی داخل نہیں ہو سکتے
۔یعنی صورتحال اس حد تک بگڑچکی ہے کہ گھر میں اتنے افراد نہیں جتنے پانی
ذخیرہ کرنے کے لئے برتن موجود ہیں پھر بھی نتیجہ بے سود۔ اسی طرح کورنگی کی
رہائشی ایک خاتون کا کہنا ہے کہ وہاور انکے اہل علاقہ فی گھر سالوں سے ہر
مہینے پانچ ہزار سے زائد مالیت کا پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ اگر انکے
علاقے میں پانی کی مناسب فراہمی کی جائے تواس اضافی بوجھ سے نجات دلا کر
لوگوں کی معاشی مشکلات کسی حد تک دور کی جاسکتی ہیں ۔ سر جانی ٹائون میں
بھی صورتحال کچھ خاص مختلف نہیں ۔یہاں کے لوگوں کی اکثریت بھی ٹینکرذ پر
انحصارکرتی ہےایک ٹینکر کم از کم 3600 روپے کا ہے اور اسکے استعمال کا
دورانیہ گھر میں موجود افراد کی تعداد سے مشروط ہے۔یعنی مہینے میں کئ
ٹینکرذ ڈلوائے جاتے ہیں اب ان ٹینکرذ کو مافیا کہیں یا نجات دہندہ۔ بات پھر
وہی آجاتی ہے کہ جب ٹینکرذ کو پانی مل رہا ہے تو عوام کو کیوں نہیں؟یہاں کے
مکین کیوں زندگی کی بنیادی ضرورت پوری کرنے کے لئے ہر مہینے ہزاروں روپے
خرچ کرنے پر مجبور ہیں؟اس کے علاوہ کچھ علاقوں میں پانی کی فراہمی کا
دورانیہ 3 سے چاراور کچھ علاقوں میں ایک سے دو دن ہےاور یہ محضچند پسماندہ
علاقوں کی صورتحال ہے۔
پانی کی قلت کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ پانی آنے کے اوقات کا ہے۔ ذیادہ تر
علاقوں میں پانی رات گئے آتا ہے یعنی رات کو جاگ کر پانی بھرنا پڑتا ہے۔اگر
ایک رات آپ سکون سے سو گئے تو پانی سے محروم ۔ گویا مسئلوں کا جم غفیر ہے
جس سے کراچی کے شہری نمٹ رہے ہیں ۔ان مسائل کے علاوہ میٹھے پانی میں گندا
پانی شامل ہونے اور پانی میں بدبو آنے کہ شکایتیں بھی عام ہیں ۔ اگر ان سب
بےقاعدگیوں کے بجائے میٹھے پانی کی فراہمی مناسب وقت مقرر کرکے روز کم از
کم 2 گھنٹے کی جائے تو نہ صرفلوگوں کی ضرورت پوری ہو بلکہ انہیں وقت بے وقت
کی اذیت سے بھی بچایا جا سکتا ہے۔ جن علاقوں میں ٹینکرذ باقاعدگی سے
منگوائے جاتے ہیں ان علاقوں کا تعین کرکے وہاں پانی کی فراہمی یقینی بنائ
جائے۔ کیونکہ صاف پانی ہر شہری کا حق ہے۔ پانی کی منصفانہ تقسیم کے لئے
منظم اور مربوط نظام بنانے سے عوام کا وقت اور پیسہ دونوں بچائے جا سکتے
ہیں ۔ پھر یہی پیسا ڈیم کی فنڈنگ مہیم میں جمع کرانے کے لئے اقدامات کئے جا
سکتے ہیں کیونکہ گھروں میں ایک زیر زمین ٹینک پانی کی 3 سے چار چھوٹی بڑی
ٹنکیاں اور کم از کم 5 سے 6 ڈرم پانی ذخیرہ کرکے رکھنے والی عوام سے بہتر
کون سمجھ سکتا ہے کہ ڈیم بنانا کتنا ضروری ہے۔
تحریر ؛ ثناء وحید
آرٹیکل
|